• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوموں میں کتنی ہی صلاحیتیں ہوں، کتنا ہی پوٹینشل موجود ہو ان کی ترقی بہرحال اچھی لیڈر شپ کی مرہون منت ہوتی ہے۔ قومیں خود سے آگے نہیں بڑھتیں اپنی قوم سے مخلص، باصلاحیت، صاحب بصیرت لیڈرز انہیں آگے بڑھاتے ہیں۔ قوموں کی بربادی اور تنزلی بھی ان کے حکمرانوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ سوویت یونین کو اچھے لیڈر ملے ہوتے تو دنیا کی دوسری بڑی طاقت کا شیرازہ نہ بکھرتا۔ چین کو ماؤزے تنگ، ڈینگ ژاؤ پنگ، ہو جن تاؤ اور ژی جن پنگ جیسی انتہائی اعلیٰ، صاحبانِ بصیرت قیادتیں نہ ملتیں تو چین محض چالیس برسوں میں دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت کا درجہ حاصل نہ کرسکتا۔ رجب طیب اردوان نہ ہوتے تو ترکی معاشی ترقی کی منزلیں اور عالمی سطح پر موجودہ مقام حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ یہ مہاتیر محمد تھے جن کی وجہ سے تین مختلف اقوام پر مشتمل ملک ملائیشیا نے ترقی کی نئی منزلیں سر کیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نہ ہوتے تو برصغیر کے مسلمان اپنے لئے علیحدہ وطن حاصل نہ کر پاتے۔ صدر ایوب خان نہ ہوتے تو پاکستان 60ء کی دہائی میں تیز رفتار صنعتی و زرعی ترقی کرتے ہوئے اس وقت کے مسلم ممالک اور دیگر کئی ممالک کے لئے قابل رشک مقام حاصل نہ کرپاتا۔
ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد آبادی والے ملک عوامی جمہوریہ چین کی تیز رفتار معاشی ترقی کی سب سے بڑی وجہ چین کے دیانت دار، جرات مند اور صاحب بصیرت لیڈرز ہیں۔ چین کی صرف معاشی ترقی میں نہیں بلکہ دنیا کی بیس فی صد سے زائد آبادی کی اچھے انداز میں مینجمنٹ میں بھی اقوام عالم کے لئے رہنمائی کے کئی باب موجود ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال چینیوں کو اچھا شہری بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے شروع کیا جانے والا سوشل کریڈٹ سسٹم ہے۔
چین کی اس ترقی میں دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ چین ہمارا گہرا دوست ہے۔ دونوں ممالک اپنی دوستی کو سمندروں سے گہری اور پہاڑوں سے اونچی قرار دیتے ہیںلیکن ہم اپنی حالت بدلنے ،کرپشن سے چھٹکارا پانے، عوام کی حالت بہتر بنانے، سماجی بہتری کے لئے چین سے کچھ بھی نہیں سیکھ رہے۔ چین نے اپنے پڑوسی افغانستان میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہونے والی طویل جنگ اور ستمبر 2011ء کے بعد عالمی سطح پر تبدیل شدہ امریکی پالیسیوں کے مضر اثرات سے خود کو بچا کر رکھا۔ عالمی سطح پر حالات کیسے ہی رہے ہوں لیکن چین کی تیز رفتار ترقی کا سفر گزشتہ چالیس سال سے مسلسل جاری ہے۔ یہ سفر چینی حکمرانوں کی دیانت داری، اپنے ملک و قوم کے ساتھ مکمل کمٹمنٹ، قومی مفادات کو ہر وقت فوقیت دیتے ہوئے طے کیا گیا ہے۔ چین کی قیادت نے بدلتے ہوئے حالات کا بھرپور ادراک کرتے ہوئے اعلیٰ درجہ کی بصیرت (Vision) اور بہت فہم و فراست کے ساتھ پالیسیاں ترتیب دی ہیں۔ اپنے حکمرانوں میں ایسی صفات کے لئے پاکستانی عوام کئی دہائیوں سے دعائیں کررہے ہیں۔
عوامی جمہوریہ چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ کی وفات کے دو سال بعدامور مملکت سنبھالتے ہوئے چین کے نئے لیڈر ڈینگ ژاؤ پنگ نے چین کے استحکام اور ترقی کے لئے کئی مثبت فیصلے کیے۔ انہوں نے عملیت پسندی سے کام لے کر چین کے سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریات کو بھی قائم رکھا اور مارکیٹ اکنامی کے لئے بھی راستے کھول دئیے۔ چین کے رہبر اعلیٰ (Paramount Leader)ڈینگ ژاؤ پنگ کو چین کی معاشی اصلاحات اور سماجی جدت کا معمار (Architect) کہا جاتا ہے۔
آج کئی قارئین کو یہ پڑھتے ہوئے شدید حیرت ہوگی کہ 1979ء میں چین کی جی ڈی پی صرف 264ارب ڈالر اور فی کس آمدنی محض 272 امریکن ڈالر سالانہ تھی۔ اس وقت چین کی معیشت کو سخت مشکلات کا سامنا تھا، چین کے پڑوسی ممالک جنوبی کوریا، ہانگ کانگ، سنگاپور اور تائیوان کی معیشتیں عوامی جمہوریہ چین سے کہیں بہتر حالت میں تھیں۔ صحیح سمت میں چینی قوم کی سخت محنت سے 2017ء میں چین کی مجموعی قومی پیداوار 12840 ارب ڈالر اور فی کس آمدنی 8836 امریکن ڈالر تک جا پہنچی ہے۔1980ء میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 30 ارب ڈالر تھی۔ 2017ء میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار تقریباً 300 ارب ڈالر اور فی کس آمدنی 1624 ارب ڈالر ہوئی۔
ڈینگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے جانشین ہو جن تاؤاور ان کے بعد موجودہ صدر ژی جن پنگ نے چین کی تیز رفتار ترقی کے لئے مزید اقدامات کیے۔ چینی صدر ژی جن پنگ کے ون بیلٹ ون روڈ OBOR منصوبے نے چین کی رسائی اور اثر و رسوخ کو ایشیائی ممالک، افریقہ اور یورپ تک وسعت دے دی ہے۔
حکومت اور عوام کے تعلق میں اعتماد کی موجودگی ریاست کے استحکام اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ اعتماد صرف حکومتی پالیسیوں پر عوام کے تائیدی انداز سے ہی نہیں بلکہ دیگر اشاریوں سے واضح ہونا چاہئے۔ژی جن پنگ کی صدارت میں چینی حکومت اپنے عوام کو بااعتماد شہری بنانے کے لئے ایک منفرد منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے میں صرف مالی معاملات کو ہی شامل نہیں کیا گیا ہے بلکہ اچھے سماجی برتاؤ کے لئے بھی شہریوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ 2014ء میں شروع کیا جانے والا سوشل کریڈٹ اسکیم نامی یہ منصوبہ 2020تک پورے چین میں روبہ عمل آجائے گا۔ چین کے12 شہروں میں کئی کروڑ چینی اس نظام میں رجسٹرڈ کیے جاچکے ہیں۔ اجر اور تعزیر پر مبنی اس نظام کے ذریعے قوانین کی پابندی اور اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کرنے والے شہریوں کو کئی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ قانون کی خلاف ورزی اور بعض سماجی ذمہ داریوں کی ادائی نہ کرنے والوں کو منفی پوائنٹس دیئے جائیں گے۔
اس نظام کا بنیادی مقصد اعتماد سازی ہے۔ حکومت جاننا چاہتی ہے کہ قوانین کی پابندی، ٹیکسز کی بروقت ادائی، سرخ اشارے پر رکنے، شہر کو صاف ستھرا رکھنے اور دیگر معاملات میں کون کتنا اچھا شہری ہے۔ ایک فرد کا خاندانی اور سماجی برتاؤ بھی جانچا جاتا رہے گا۔ اس نظام کے ذریعے حکومت بوڑھے والدین کے ساتھ اولاد کے برتاؤ کو مانیٹر کرکے لوگوں کو خاندان کی سطح پر ذمہ دار بنانا چاہتی ہے۔ جو نوجوان اپنے والدین سے باقاعدگی سے ملنے جائیں گے انہیں مثبت پوائنٹس دئیے جائیں گے۔
کریڈٹ اسکور کی وجہ سے متعلقہ شخص کی سماجی اور کاروباری زندگی پر مثبت یا منفی اثرات ہوں گے۔ ٹیکس، جرمانوں وغیرہ کی بروقت ادائی، سڑکوں پر اچھے طرز عمل اور دیگر اچھے کاموں پر ملنے والے مثبت پوائنٹس کی وجہ سے متعلقہ فرد کو انعامات اور سہولتیں دی جائیں گی۔ ان سہولتوں میں بجلی کے بلوں پر رعایت، بینکوں کے انٹرسٹ ریٹ میں کمی، قسطوں پر اشیاء لینے کے لئے ڈیپازٹ سے استثنیٰ وغیرہ شامل ہیں۔ وہ شہری جن کا سوشل کریڈٹ منفی ہوگا انہیں ہوائی جہاز اور ریلوے میں سفر ،ا نٹرنیٹ کی تیز رفتار سروس سے محرومی، اچھی ملازمتوں کے لئے نااہلی، بچوں کے اچھے اسکولوں میں داخلے اور بڑے ہوٹلوں میں طعام یا قیام پر پابندی کا سامنا ہوگا۔ منفی پوائنٹس والوں کو بنک سے قرضہ لینے ، بازار سے قسطوں پر سامان خریدنے میں رکاوٹ ہوگی۔ علاوہ ازیں زیادہ منفی پوائنٹ رکھنے والوں کی برے شہریوں کے لقب سے تشہیر کی جائے گی۔ مارچ 2018ء تک ایک کروڑ دس لاکھ چینیوں کو منفی اسکور کی وجہ سے ہوائی سفر اور دیگر کئی سہولتوں سے محروم ہونا پڑا ہے۔ یہ لوگ اپنی اصلاح کرلیں گے تو ان سے واپس لی گئی سہولتیں بتدریج بحال کردی جائیں گی۔
ہم پاکستانی چین کے ساتھ گہری دوستی پر فخر کا اظہار کرتے ہیں، کاش کہ ہم اپنے اس دوست ملک سے کئی اچھی اچھی باتیں سیکھ بھی لیتے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین