شائن ستارہ، لاہور
’’بلال بیٹابات سنو ،’’جی آیا امی اور پھر بس امی انتظار ہی کرتی رہیں بلال صاحب نہیں آئے۔
’’زنیرا بیٹی باہر صحن کی صفائی تو کردو آندھی نے سب کچھ گندا کر دیا ہے‘‘۔ ’’جی امی بس پانچ منٹ۔‘‘
پانچ منٹ کیا پانچ گھنٹے بعد بھی جب امی گھر کے صحن کی طرف گئیں، تو سب کچھ ویسا ہی تھا۔ نہ وہاں جھاڑو دلی تھی،نہ صفائی ہوئی تھی۔ امی نے جب بلال کے کمرے کا رخ کیا ،تو کیا دیکھتی ہیں بلال صاحب موبائل میں مصروف ہیں۔ امی کو دیکھا تو یاد آیا شاید بلایا تھا امی نے۔بہ جائے اپنی غلطی پر پشیمان ہونے کے امی سے بولا ’’وہ امی میں نے آج ہی سوشل میڈیا پر ایک گروپ جوائن کیا ہے، ایک لاکھ ممبرز ہیں اس کے، میری پوسٹ ان کو اتنی اچھی لگی کہ انہوں نے مجھے گروپ ایڈمن بنا دیا۔
اب مجھ پراس پیج کی کچھ ذمے داریاں ہیں، تو بس اس لیے آپ کے بلانے پر نہیں آسکا۔‘‘دوسری طرف زنیراموبائل ہاتھ میں لیے مسلسل مسکرائے جا رہی تھی، امی کو آتا دیکھ کر سیدھی ہوتے ہوئے (اس بات سے بے نیاز کہ اسےامی نے کوئی کام کہاتھا ) کہنے لگی امی آپ کو پتا ہے میرے سوشل میڈیا پر نئے دوست بنے ہیں ،بہت اچھے ہیں وہ سب۔ ان کے ساتھ ہی گپ شپ کر رہی ہوں۔
مندر جہ بالا کہانی ، تو صرف ایک خاکہ ہےلیکن یہ دور حاضر کی حقیقت ، تقریباً ہر گھر کی کہانی اور نوجوانوں کی اکثریت کا حال ہے۔نوعِ انسانی کی سہولت کے لیے بے شمار چیزیں ایجاد ہوئی ہیں۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان کا استعمال کیسے کر رہا ہے اور کسی بھی چیز کا بلاضرورت اور بے تحاشا استعمال نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اس کا عملی نمونہ ہے۔
فیس بک مارک زکربرگ نے یونیورسٹی کے طلباء کے آپس میں رابطے رکھنے کے لیے بنائی ،جو کچھ عرصہ میں یونیورسٹی سے باہر کے لوگوں میں بھی مقبول ہونے لگی اور رفتہ رفتہ ہر کوئی اس کے بخار میں مبتلا ہوتا چلا گیایقینا’’ یہ دوستوں اور رشتے داروں سے رابطے میں رہنے کا بہترین ذریعہ ہے ، اس کی افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔لیکن کچھ نوجوان اس کے ایسےعادی ہوجاتے ہیں کہ جب تک وہ اس کا استعمال نہ کر لیں ان کو سکون نہیں ملتا۔ ذاتی تجربہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے شروع میں تو اتنا محسوس نہیں ہوتا کہ آپ اس کی عادت کا شکار ہو رہے ہیں، مگر گزرتے وقت کے ساتھ آپ کا اس سے چھٹکارا پانا مشکل ہی نہیں مشکل ترین ہو جاتا ہے۔ ہماری نسل نودن بہ دن فیس بک فوبیا کا شکار ہوتی جا رہی ہے، جسے دیکھو ہاتھ میں موبائل ۔
چھوٹا بڑا ہر کوئی اس کے بخار میں مبتلا ہے اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، بس سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے اسیر نظر آتے ہیں، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کا مسلسل استعمال سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ خودپرستی اور نفسیاتی بیماریوں کا بھی سبب بن رہا ہے۔ اس حوالے سے والدین پر بھی کچھ ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں۔ انہیںپتا ہونا چاہیے کہ بچے کس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں،سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کتنا وقت صرف کر رہے ہیں۔
آیا کہ وہ کسی غیر اخلاقی کاموں میں تو ملوث نہیں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کو وقت دیں انہیں ہر چیز کا فائدہ اور نقصان سمجھائیں،ان کے مسائل سنیں، ان پر توجہ دیں،اوران کی رائے کا بھی احترام کریں۔ ان کی دی گئی آراکو فوراًرد نہ کردیں اس طرح ان کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ سوچ بچار کریں اور انہیں دوستوں کی طرح سمجھائیں ، اچھے برے کی تمیز سکھائیں، ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہ لیں، کیوں کہ ہر وقت کی روک ٹوک اور ڈانٹ انہیں آپ سے دور کر دے گی۔