• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماں خدا کا انمول تحفہ

حمیرا مختار۔ کراچی

بلال شدید غصے کی حالت میں کہیں جا رہا تھا کہ قاسم نے اسے اپنا گیم دکھانے کے لیے بلایا۔

قاسم، ’’ارے بلال یہاں آئو تمہیں ایک نیا گیم دکھاتا ہوں جو میں نے کل ڈائون لوڈ کیا ہے‘‘۔

بلال، ’’مجھے نہیں دیکھنا کچھ بھی‘‘۔

قاسم، ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

بلال، ’’مجھے بہت غصہ آرہا ہے‘‘۔

قاسم، ’’غصہ، مگر کیوں؟‘‘

بلال، ’’میں آرام سے موبائل پر گیم کھیل رہا تھا، اچانک گڑیا آئی اور موبائل مجھ سے چھین کر بھاگ گئی، میں بھی اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا جونہی میں نے ہاتھ بڑھایا تو اس کے بال میرے ہاتھ میں آگئے اور وہ زور زور سے رونے لگی، اس کی آواز سن کر آمی کچن سے آگئیں۔ گڑیا نے سارا الزام مجھ پر لگا دیا کہ میں نے اس کے بال نوچے ہیں، جس پر امی نے مجھے ڈانٹا اور مارا بھی، بس اب میں گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں‘‘۔

قاسم، اس کی باتیں سن کر ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ، ’’وہ سب تو ٹھیک ہے، مگر تم جاؤ گے کہاں؟‘‘

بلال، ’’کہیں بھی چلا جائوں گا، مگر یہاں نہیں رہوں گا۔‘‘

قاسم نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ، ’’لیکن یہ تو اچھی بات نہیں ہے‘‘۔

بلال، ’’کیوں اچھی بات نہیں ہے؟‘‘

قاسم، ’’تمہیں اس بات پر غصہ آرہا ہے ناں کہ تمہاری امی تمہیں ڈانٹتی ہیں‘‘۔

بلال، ’’ہوں! مجھے بہت غصہ آتا ہے اس بات پر۔‘‘

قاسم، ’’لیکن کیا تم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ تمہاری امی تمہیں کیوں ڈانٹتی ہیں؟ تم ضرور کچھ نہ کچھ کرتے ہوگے۔‘‘

بلال، ’’پتہ نہیں، میں تو کچھ بھی نہیں کرتا، مگر وہ ہر وقت مجھے ڈانٹتی رہتی ہیں‘‘۔

قاسم اور بلال دونوں پڑوسی اور گہرے دوست تھے۔ قاسم کی امی فوت ہوچکی تھیں اور وہ اپنے ابو کے ساتھ رہتا تھا۔ اسکول کے بعد اپنے ابو کے اسٹور پر بیٹھتا تھا۔ بلال بھی شام کے وقت وہاں جاکر اس کے ساتھ کھیلتا اور باتیں کرتا تھا۔ جب بلال نے قاسم کو اپنے غصے اور گھر چھوڑنے کی بات بتائی تو قاسم نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ، ’’ کیا تمہیں معلوم ہے کہ امی کی ڈانٹ اور مار میں بھی پیار چھپا ہوتا ہے۔ وہ ہماری فکرکرتی ہیں، ہم سے بے حد محبت کرتی ہیں، ہر تکلیف اور برائی سے ہمیں بچانا چاہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیں خوش اور کامیاب دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں ہمارے لئے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ اس لئے جب ہم ان کی بات نہیں مانتے تو وہ ہمیں ڈانٹتی ہیں، دراصل یہ ان کا پیارہوتا ہے… مجھے دیکھو! میرے پاس پیار سے ڈانٹنے اور مارنے والی میری ماں ہی نہیں ہے۔ وہ مجھے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے پاس چلی گئیں۔ میں ان کی کمی ہر وقت محسوس کرتا ہوں۔ کاش وہ میرے پاس ہوتیں۔ جب میں اسکول سے گھر آتا تو وہ میرا انتظار کر رہی ہوتیں، میں انہیں سلام کرتا اور وہ پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتیں میرا ماتھا چومتیں، میرے جوتے، موزے اتارتیں، میرے لئے مزے مزے کے کھانے بناتیں اور مجھے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں، پھر میں ان سے ڈھیر ساری باتیں کرتا۔ انہیں اسکول،دوستوں اور ٹیچرز کے بارے میں بتاتا۔ 

جب میں ہوم ورک کرتا تو وہ میری مدد کرتیں، مجھے امتحانات کی تیاری کرواتیں، میری کامیابی کے لئے دعائیں کرتیں اور جب میں پاس ہوجاتا تو وہ خوش ہوتیں، مجھ پر فخر کرتیں۔ مجھے اچھے اچھے تحفے دیتیں۔ میرے ناز نخرے اٹھاتیں۔ اگر آج وہ میرے ساتھ ہوتیں تو میرے لیے میری پسند کا کھانا بناتیں، اب تو مجھے وہ ہی بدمزہ کھانا کھانا پڑتا ہے، جو ابو بازار سے لے آتے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے بلال کبھی کبھی مجھے رات میں بہت ڈر لگتا ہے۔ 

اس وقت امی مجھے بہت یاد آتی ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھاگ کر امی کے پاس چلا جائوں اور وہ مجھے گلے لگا لیں‘‘۔ یہ کہتے کہتے قاسم کی آنکھوں میں آنسو آگے۔ اسے روتا دیکھ کر بلال بھی رو پڑا اور اسے گلے لگا لیا، اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا، اُس نے دوست سے کہا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو قاسم یہ تمام کام میری امی میرے لیے کرتی ہیں۔ میں واقعی بہت خوش نصیب ہوں کہ میری امی میرے ساتھ ہیں‘‘۔

قاسم نے بلال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ، ’’ہاں، تم بہت خوش قسمت ہو کہ تمہاری امی تمہارے ساتھ ہیں۔ جانتے ہو، ماں اللہ تعالیٰ کا سب سے انمول تحفہ ہے۔ ان سے ناراض ہونے کے بجائے ان کی قدر کرو، ان کا خیال رکھو، ان کی خدمت کرو اور ان کی دعائیں لو۔ مجھے افسوس ہوتا ہے ان بچوں پر جو ماں کی قدر نہیں کرتے، فضول ضدیں کر کے انہیں تنگ کرتے ہیں، گھر پھیلا کر ان کی محنت ضایع کردیتے ہیں اور ان کا پکایا ہوا کھانا نہ کھا کر انہیں پریشان کرتے ہیں، ان کی ڈانٹ سن کر سمجھتے ہیں کہ وہ ان سے پیار نہیں کرتیں، بے وقوف ہیں وہ، یہ نہیں جانتے ماں ہی تو ہے جو ہم سے دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرتی ہے‘‘۔

بلال نے قاسم سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اپنی امی کو کبھی تنگ نہیں کرے گا، ان کا ہمیشہ خیال رکھے گا، بلال گھر جانے لگا تو قاسم نے اسے چاکلیٹ کا ایک پیکٹ دیتے ہوئے کہا کہ، ’’بلال یہ اپنی امی کو دے کر انہیں پیشگی مدرز ڈے وش کرنا‘‘۔

قاسم کے کہنے پر بلال کو یاد آیا کہ اگلے اتوار تو ’’مدرز ڈے‘‘ ہے۔ بلال نے قاسم سے چاکلیٹ لی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگا کہ، ’’قاسم مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی جب ہماری امی ہر روز ہم سے محبت کرتی ہیں، ہمارے کام کرتیں ہیں، ہمیں دعائیں دیتی ہیں تو ہم صرف ایک دن انہیں ’’مدرز ڈے‘‘ کیوں وش کرتے ہیں؟ 

ہمیں تو ہر روز ان سے اظہارِ محبت کرنا چاہیے۔ اب میں روز اپنی پاکٹ منی سے کچھ پیسے بچا کر امی کے لئے چاکلیٹ خریدوں گا اور آج سے انہیں ہر روز’’مدرز ڈے‘‘ وش کروں گا۔ انہیں چاکلیٹ بہت پسند ہے… یہ کہہ کر بلال دوڑتا ہوا گھر کی طرف چلا گیا… اور قاسم آنکھوں میں آنسو لیے اُسے جاتا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا اور آہستہ سے کہا، ’’ماں، ہیپی مدرز ڈے‘‘۔

تازہ ترین
تازہ ترین