• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ(ن) کی موجودہ حکومت کا پا نچ سالہ دور اقتدار ختم ہونے میں 24۔23دن باقی رہ گئے ہیں، جس میں حکومت نے بہت سے اچھے کام بھی کئے اور کچھ ایسے بھی جن پر پارٹی کے اندر اور باہر بھی سخت ردعمل سامنے آیا۔خاص کر مسلم لیگ نام کی کوئی بھی لیگ کبھی بھی قومی اداروں خاص کر فوج اور عدلیہ کے ساتھ ٹکرائو کے حق میں نہیں ہوتی تھی، مگر یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا۔ پاناما ایشو سامنے آنے کے بعد مصلحت پسند اور صلح جو مسلم لیگ کا سخت ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا جس کا سب سے زیادہ نقصان خود پارٹی کو ہونا شروع ہوا اور دوسری طرف ان کی مخالف جماعتوں خاص کر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو ہر سطح پر اور ہر ادارے میں اپنے اعتماد کی بحالی اور پوائنٹ اسکورنگ کا وہ موقع مل گیا جو شاید عام سیاسی حالات میں ممکن نہ تھا۔ اس دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف پاناما کیس کے دبائو میں آکر اس جارحانہ ا نداز میں کریز چھوڑ کر سیاسی میدان میں کھیلنے لگے جیسے کبھی 1970کی دہائی میں ویسٹ انڈیز،آسٹریلیا اور انگلینڈ یا نیوزی لینڈ حتیٰ کہ پاکستان کی تاریخ کی بہترین کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی کھیلا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ کرکٹ میں جارحانہ کھیلنے والے آنکھوں سے اوجھل یا ریٹائرڈ ہوتے گئے لیکن سیاست میں جارحانہ طرز کو اپنایا جانے لگا۔ اس حوالے سے ایسے لگا کہ سیاسی میدان میں سب خوبیوں یا خامیوں کے باوجود سلطان راہی مرحوم کا انداز اپنایا جانے لگا جس کی تازہ مثال سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ہے، اب اس خامی کا ان کے مخالفین خاص کر عمران خان اور آصف زرداری اس ووٹ بنک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں،جو کبھی صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کی پراپرٹی ہوتا تھا۔ اس میں زیادہ فائدے میں تحریک انصاف نظر آرہی ہے۔
دوسری طرف بظاہر میاں نواز شریف اور میاںشہباز شریف کی پالیسیوں یا بیانیہ میں کوئی فرق ہے، حقیقت میں ایسا نہیں ہے دونوں بھائی ماشاء اللہ متحد ہیں اور ایسے ہی رہیں گے۔ یہ صرف دو بیانیہ کی حکمت عملی ہے جس کے تحت شایدعوام کو کسی نہ کسی طرح مطمئن رکھا جاسکے لیکن اب چند روز قبل سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جی ٹی روڈ کے جلوس اور پھر کافی دیر خاموشی اختیار کرنے کے بعد دوبارہ ان ڈائریکٹ طریقے سے اپنے سیاسی مخالفین کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنانا شروع ہوگئے ہیں،اس پر الیکشن کمیشن نے بروقت صحیح اقدام کیا ہے کہ ملک کی اہم شخصیات ایسی بیان بازی نہ کریں، واقعی اس سے اس سال کی آخری سہ ماہی میں متوقع عا م انتخابات کی ساکھ اور انعقاد پر گہرا اثر پڑسکتا ہے، اگر چہ ہماری ناقص رائے میں یہ لگ رہا ہے کہ چند ہفتوں کے بعد سیاسی مارکیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے حصص کا ریٹ مزید گر جائے اور اسے وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا ہونے کے لئے مشکل سے جگہ ملے اور حالات مسلم لیگ کی گرفت میں اس طرح نہ رہیں جیسے اب ہیں۔ اس بنیاد پر ہوسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کی قیادت ایسا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے کہ نیب کی سزائوں یا دیگر قانونی اقدامات کو جواز بنا کر انتخابات کے بائیکاٹ کا سرپرائز دے دیں۔ اس بات کا اشارہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے تین چار روز قبل کے اس بیان سے ملتا ہے کہ ہم عام انتخابات کے انعقاد میں ایک دن کی تاخیر بھی برداشت نہیں کرسکتے جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کے عمران خان اور دیگر کئی حلقوں کی طرف سے یہ تاثر بار بار دیا جارہا ہے کہ عام انتخابات شاید ڈیڑھ دو ماہ کے لئے ملتوی ہوجائیں جبکہ کچھ حلقوں کی طرف سے بڑے وثوق سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ نگراں سیٹ اپ دو ماہ یعنی60دنوں کے لئے نہیں بلکہ 24سے 30 ماہ کے لئے آرہا ہے۔ اس صورتحال کو صرف پاکستان نہیں پوری دنیا خاص کر امریکہ اور سعودی عرب میں بھی دیکھا جارہا ہے کہ پاکستان میں آنے والے دنوں میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ امریکہ بظاہر اس وقت پاکستان کے اندرونی معاملات میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کررہا لیکن وہ اپنے حکام سے ایک ایک پل کی خبر بھی لے رہا ہے۔ اس پس منظر میں عالمی مالیاتی ادارے خاص کر عالمی بنک، آئی ایم ایف اور ایشیائی بنک کے حکام بھی پاکستان کو مستقبل قریب میں کچھ دینے یا نہ دینے کے بارے میں سوچ بچار کررہے ہیں۔ اسی حوالے سے پاکستان کے جو بھی حکام واشنگٹن ڈی سی یا منیلا میں ان اداروں کے حکام سے مل رہے ہیں وہ مستقبل کی سپورٹ کے حوالے سے کوئی زیادہ مطمئن نظر نہیں آرہے۔ شاید وہ حکام پاکستان کے سیاسی حالات میں ایک بڑی تبدیلی محسوس کررہے ہیں جس کا اثر پاکستان کے عوام اور ہماری معیشت پر کیسا پڑے گا، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اللہ تعالیٰ پاکستان اور اس کے عوام کا حامی و ناصر ہو،۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین