• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے نیوکلیئر خطرے سے نمٹنے کے لئے اتحادیوں سے مل کر کام کریں گے۔ تہران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ کا موقف تھا کہ ایران سے معاہدے کو جاری رکھا تو ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ ایران سے ایٹمی تعاون کرنے والی ریاست پر بھی پابندیاں لگائیں گے۔ اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ٹرمپ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ نفسیاتی جنگ کا نتیجہ اور عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، ایران نے ایٹمی معاہدے پر عمل کیا اور اسے برقرار رکھے گا۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے کہا کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر عمل کیا، امید ہے دیگر ممالک معاہدے پر عمل جاری رکھیں گے۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے ٹرمپ کے فیصلے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کا خطرہ ہے۔ روسی نائب وزیر دفاع نے اس فیصلے پر کوریائی خطے پر امن کو مشکوک قرار دے دیا ہے۔ ترک صدر طیب ایردوان نے کہا کہ اس سے خطے میں مزید تنازعات پیدا ہوں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں ایسے بے شمار لوگ پیدا ہوئے جو دنیا کو اپنے اشاروں پر چلانے کے متمنی تھے، ایسا تو نہ ہو سکا البتہ انہوں نے دنیا تلپٹ کر کے رکھ دی۔ ایک مثال جرمنی کے ایڈولف ہٹلر کی ہے، یہودیوں سے دشمنی اس کے نفسیاتی عوارض عیاں کرنے کو کافی تھی، یہی نفسیاتی عوارض جرمن نژاد ڈونلڈ ٹرمپ میں اسلام اور مسلمان دشمنی کے روپ میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ اپنی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ نے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جن عزائم کا اظہار کیا تھا، اب ان پر عمل پیرا ہیں۔ پالیسی ان کی بھی وہی ہے جو ان کے پیشروئوں کی رہی کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی عزائم اس کے معدنی وسائل کو تصرف میں لانا ہے خواہ اس کے لئے معاہدے کئے جائیں یا جارحیت۔ اسی لئے خطہ عرب میں امریکہ نے اسرائیل کو بٹھا اور ایٹمی طاقت کے حوالے سے مضبوط تر کر رکھا ہےدوسروں پر ایٹمی پھیلائو کے الزامات عائد کر کے ان کے درپے آزار ہے یہی امریکہ بھارت سے بھی ایٹمی معاہدہ کر چکا ہے۔ 2015ءکے اوائل میں ہونے والا امریکہ ایران معاہدہ بڑی کامیابی قرار دیا گیا تھا ، مغربی ممالک نے اسے مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لئے خوش آئند قرار دیا تھا تاہم اب ٹرمپ نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر گھمبیر صورتحال سے دوچار کر دیا ہے جو عالم اسلام کے بارے میں ان کے بغض کا کھلا اظہار ہے۔ امریکی کانگریس کمیٹی کی طرف سے پاکستان کو کولیشن فنڈ نصف کرنے کی تجویز بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ روس، چین، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور ترکی کی طرف سے مذکورہ فیصلے پر اظہار افسوس عیاں کرتا ہے کہ دنیا امن کی خواہاں ہے اور ٹرمپ کے جارحانہ فیصلوں سے نالاں ، جو دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جا رہے ہیں، کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کے اعلان نے کوریائی ممالک کی دوریاں ختم کرنے سے جو نیک نامی حاصل کی تھی ،اسے خود اپنے اعلان سے خاک میں ملا دیا۔ اب کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ ٹرمپ ہر اس مسلم ملک کو زیر کرنا چاہتا ہے جو اس کے عزائم کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے، مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں جو تقسیم دکھائی دے رہی ہے وہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ مسلم امہ نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو اسے آفات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ امہ کی بقا بلاشبہ اتحاد و یگانگت میں ہے ۔ او آئی سی اور مسلم امہ کے سرکردہ ممالک کو اتحاد امت کی کوشش کرنا ہو گی۔ اسے باور کرانا ہو گا کہ اگر امریکہ یونہی مسلم ممالک پر چڑھائی کرتا رہا تو کل کو ان کی بھی باری آ سکتی ہے۔ یاد رکھنا ہو گا کہ امریکہ محض اپنے مفادات سے مخلص ہے کسی اور سے نہیں۔

تازہ ترین