آج کے روز افزوں بڑھتے ور پھیلتے ہوئے میڈیا کے دور میں مسلم تشخص کے احیاء و ارتقاء کے لئے اسلامی شعائر اور اصطلاحات کو اُجاگر رکھنا ہماری مشترکہ ذمے داری ہے ۔ مسلم امّہ اپنے فکر و فلسفے کے حوالے سے ایک خاص ماہیت لئے ہوئے ہے، جسے علامہ اقبال نے خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی سے تعبیرکیا ہے ۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں درست مطلب ،مقصد مکمل طور پر اسی صورت میں حاصل ہو سکے گا۔
جب شعوری طور پر اسلامی الفاظ میں پوشیدہ لفظی اور معنوی تعلیمات کا احاطہ ہوسکنے کا اہتمام نظر انداز نہ ہو سکے۔اسلام نے اپنے ماننے والوں سے اسلام میں مکمل داخلے کا مطالبہ یوں ہی تو نہیں کیا۔ اس مطالبے کا ایک خاص مقصد ہے اور وہ ہے مکمل اور کامل اتباع او ر پھر اس سے حاصل ہونے والے بدیہی فوائد کی آبیاری۔
ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ حضورنبی اکرمﷺ عمل صالح اور اُسوئہ حسنہ کا وہ روشن مینار ہیں، جو تمام مسلمانوں،عاشقانِ رسولؐ کے لئے بالخصوص اور ہر دور کے انسان کے لئے بالعموم، ہر پہلو اور ہر اعتبارسے قا بلِ تقلید اور لائقِ اتباع نمونہ ہیں۔ آپ ﷺ کی عظمت ،عزت ، حرمت، ناموس اور ختم نبوت پر کسی قسم کا منفی سمجھوتہ کسی بھی مسلمان کا حضور ﷺ پر ایمان اور آپﷺ سے اس کی والہانہ محبت و عقیدت کے دعوے کے سراسر منافی ہے۔ حضورﷺ کے امتّی اور صحیح پیروکار ہونے کا مصداق ٹھہرنے کے لئے ہمیں ہر وقت یہ حقیقت بھی پیش رکھنی ہو گی کہ ہمارے پاکیزہ جذبات کا رُخ خالصتاً مثبت اور نبی رحمتﷺ کے روشن پیغام ، آپﷺ کے اسوئہ حسنہ ، ارشادات و تعلیمات کے عین مطابق ہو۔
ہمیں آپﷺ کی سیرت طیبہ سے مکمل رہنمائی میسر ہے ۔ حضور ﷺ عامۃ الناس کے مفادات کے محافظ ، انسانوں، جانوروں اور پوری کائنات کے لئے سراپا رحمت ہی رحمت ہیں،جہاں زحمت کا شائبہ تک نہیں ہے۔ہمیں آپﷺ کی سیرت ِ طیبہ کے اس پہلو کو ہر آن سامنے رکھتے ہوئے اپنے معمولات زندگی کو گزارنے کی سعی کرنی چاہیے اور حضور ﷺ کے اس واضح فرمان کو ہر وقت پیش نظررکھنا چاہیے ،جس میں فرمایا گیا ’’آسانیاں پیدا کرو، مشکلات پیدا نہ کرو، تسکین اور راحت پہنچائو ، نفرت نہ دلائو‘‘۔ یہ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے ۔ ہمیں ایک اور بات کو بھی ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اگر نیکی کا کام غلط طریقے سے کیا جائے تو وہ غلط ہی ٹھہرتا ہے ۔
نیک عمل کو درست طریقے اور نیک نیتی سے ہی کیا جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ نیکی ، بُرائی میں تبدیل ہو جائے نیکی کو برائی بننے سے روکنا ایمان اور دین کا بنیادی تقاضا ہے۔حضور ﷺنے ہمیشہ ہی مثبت اور روشن ، خیر اور مثبت پہلو کو سامنے رکھا۔ حد کمال تک ہر معاملے کا گیرائی اور گہرائی سے جائزہ لے کر فیصلہ فرمایا۔
اسلامی تعلیمات اور مسلم تشخص کے احیاء کے حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی بات ہم مسلمانوں کا خاتم الانبیاء حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے عقیدت، لگائو اور عشق و محبت ہے کہ جس کے بغیر کوئی دعویٰ ہی ندارد والا معاملہ سامنے آتا ہے ۔حضور پاکﷺ کے اسم گرامی کے دو حصے ہیں اور وہ ہیں محمد اور احمد ۔ حضورﷺ کے اسم گرامی کے ان دونوں الفاظ کے انگریزی زبان میں ہجّے(spellings)درست نہیں کئے جاتے ۔
چناںچہ وزارتِ مذہبی امور ، حکومتِ پاکستان نے مارچ 1979 ء میں نوٹیفکیشن (اطلاع نامہ)جاری کیا کہ حضور پاک ﷺ کے اسم گرامی ’’محمد‘‘کے انگریزی زبان میں صحیح ہجّے Muhammad ہیں اور حضور ﷺ کے اسم گرامی Muhammadکو انگریزی میں کسی بھی دوسری شکل /صورت میں نہ لکھا جائے ۔ ازاں بعد بھی مختلف تاریخوں میں اس اعلان/ اطلاع نامہ کا مسلسل اعادہ بھی کیا جاتا رہا کہ انگریزی زبان میں اسم محمد کے درستSpellings (ہجّے)Muhammad ہیں۔
اس اہم اعلان کے زمرے میں عامۃالناس کی کماحقہ آگاہی کی خاطر یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ بعض لوگ لفظ محمد کو انگریزی میں Muhammed/Mohammad تحریر کرتے ہیں، جو غلط ہیں۔مزید یہ کہ حضرت محمد ﷺ کے نام نامی کا انگریزی مخفف Mohd یا صرف M سے ہرگز ہرگز لکھا یا ظاہر نہ کیا جائے۔مثال کے طور پر کسی کا نام محمد اسلم ہے تو اسے انگریزی میں M.Aslam یاMohd. Aslam تحریرنہ کیا جائے۔تمام سرکاری ، غیر سرکاری اور نجی دستاویزات میں اس امر کو مکمل ملحوظ رکھا جائے۔ اس طرح حضور اکرم ﷺ کے نام مبارک کا دوسرا حصہ احمد ہے اسے بھی انگریزی میں Ahmad لکھا جائے اور Ahmed نہ لکھا جائے۔
اس ضمن میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ تمام مسلمانوں سے نہایت ادب سے گزارش ہے کہ اس امر کی خوب تشہیر اور اس پر بھرپور عمل کرکے حضور اکرم ﷺ سے عشق و محبت کا عملی ثبوت دیتے ہوئے ، انگریزی غلط ہجّے یا مخفف کی بجائے اپنے یا کسی کے نام کے ساتھ پورا اور درست Muhammad لکھنے پر عمل فرمائیں ۔