• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماں کی عظمت کو اجاگر کرتا میکسم گورکی کا عظیم ناول

میکسم گورکی روسی سلطنت میں 28 مارچ 1868 کو پیدا ہوا اور 28 جون 1936 میں اس کا انتقال ہوا۔ میکسم گورکی کا اصل نام الیکسی میکسیمووچ پیشکوف تھا۔ میکسم گورکی نے اپنے زمانے میں روس اور ساری دنیا میں اپنے آپ کوایک انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی کے طور پر منوایا۔گورکی نے صرف تین کتابیں لکھیں ۔جن میں سے ایک میں تالستائی،کورولینکو، چیخوف اورآندریئف وغیرہ سے اس کی جو ملاقاتیں ہوئیں ان کے کچھ حالات ہیں، دوسری کتاب “زندگی کی شاہراہ پر” اور تیسری “روزنامچہ” ہے۔ میکسم گورکی میں یہ زبردست خوبی تھی کہ وہ قاری کو اپنے نظریات کا حامی بنا لیتا تھا۔ اس میں قائل کرلینے کی زبردست صلاحیت موجود تھی۔میکسم گورکی کا ناول “ماں” 1906 میں منظر عام پرآیا۔

ناول کی کہانی ایک مزدور پافل ولاسوف، اس کی ماں، اس کے دوستوں اور کچھ خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے اور اپنے بیٹے کی گرفتاری کے بعد خود ایک انقلابی بن جاتی ہے۔پافل کی بوڑھی، ان پڑھ ماں ہے جو انقلاب کے فلسفے سے قطعی طور پر لا علم ہے۔ وہ غربت میں پلی بڑھی مظلوم عورت ہے۔ وہ ایک سیدھی سادی عورت ہے جس کی زندگی تشدد اور ظلم سہتے بسر ہوئی۔ اس نے اپنے خاوند اور سماج کے ستم برداشت کیے ہیں۔ اسے اپنے بیٹے پافل سے بہت پیار ہے۔ پافل وہ نوجوان ہے جو اپنے باپ کی وفات کے بعد فیکٹری میں ملازم ہو جاتا ہے۔ 

فیکٹری میں لوگوں سے مل کر انقلابی ذہن رکھنے والے دوستوں سے بحث مباحثے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ صرف مزدور ہی ہیں جو نظام میں ایک تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وہ سوشلسٹ دوستوں کے ساتھ مطالعاتی نشستوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ کتابوں کے مطالعے سے اس کے ذہن میں انقلاب جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ پافل سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوتا ہے اور گھر کتابیں لانا شروع کرتا ہے۔ گھر میں پافل کے دوستوں کی مجلس جمنا شروع ہوتی ہے۔ پافل کی ماں پہلے پہلے تو بیٹے کے منہ سے نکلے الفاظ سمجھنے سے قاصر ہے لیکن آہستہ آہستہ اسے وہ باتیں اچھی لگنا شروع ہوتی ہیں جو پافل دوستوں سے کرتا ہے اور پھر بوڑھی ماں اپنے آپ کو ان جوان لڑکوں کا حصہ سمجھنا شروع کر دیتی ہے جو سوشلزم کا پرچار کر رہے ہیں اور انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ 

پافل کی ماں کے علاوہ اس ناول میں اور بھی کئی نسوانی کردار ہیں۔ ساشا (Sasha)، لڈمیلا (Ludmilla)، صوفیا (Sophia) اور نتاشا (Natasha) اپنے رشتے داروں اور گھر والوں کو چھوڑ کر انقلابیوں کے لیے سب کچھ ٹھکرا دیتی ہیں۔ ساشا کا کردار ایک لحاظ سے ہیروئین کا ہے۔ وہ پافل سے محبت کرتی ہے۔ جدوجہد کے دوران جیل جاتی ہے۔ جیل کا وارڈن اس سے ہتک آمیز رویہ اختیار کرتا ہے۔ ساشا بھوک ہڑتال کر دیتی ہے اور معافی مانگنے تک ہڑتال جاری رکھتی ہے۔ آٹھ دن تک کچھ نہیں کھاتی۔ وارڈن معافی مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پافل کی ماں صرف پافل کی ماں نہیں اس کے دل میں سب کا مریڈز کے لیے محبت ہے۔ 

اسے پافل کا ایک دوست بہت پیارا لگتاہے جو یوکرائن کا رہنے والا ہے۔ وہ ہمیشہ اسے ننیکو کہہ کر بلاتا ہے جو یوکرائن کی زبان میں ’’ماں‘‘ کو کہتے ہیں۔ پافل کی ماں کا غصہ اس وقت دیکھنے کے قابل ہوتاہے جب فیکٹری کی انتظامیہ علاقے کی بہتری کے لیے ہر مزدور کی تنخواہ سے ایک کوپک کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔ پافل اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور ایک جلوس نکالنے کی تیاری کرتا ہے لیکن اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ پافل کی ماں کا اب ایک اور روپ سامنے آتا ہے۔ فیکٹری کے اندر سوشلزم کا لٹریچر لے جانے پر پابندی ہے۔ وہ اپنے کپڑوں میں چھپا کرپمفلٹ اندر لے جاتی ہے اور مزدوروں کو خبریں پہنچاتی ہے۔ یومِ مئی کا واقعہ ناول میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ 

پافل پر مقدمہ چلتا ہے۔ وہ عدالت میں جج کے سامنے زور دار تقریر کرتا ہے اور کہتا ہے: ’’ہم اس نظام کیخلاف ہیں جس نظام کی حفاظت کے لیے تمہیں کرسی پر بٹھایا گیا ہے۔ تم روحانی طور پر اس نظام کے غلام ہو اور ہم جسمانی طور پر۔ ہمارے اور تمہارے درمیان نظام کی تبدیلی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ اندر بیٹا تقریر کر رہا ہے اور باہر ماں کو لوگ بیٹے کی جرأت کی داد دے رہے ہیں۔ پافل کو سائبیریا جلا وطنی کی سزادی جاتی ہے۔ ماں لوگوں کے سامنے تقریر کرتی ہے اور کہتی ہے: ’’اگر ہمارے بیٹے جو ہمارے دل کے ٹکڑے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کے لیے جان دے سکتے ہیں تو ہم اپنی جانوں کی قربانی کیوں نہیں دے سکتے‘‘۔ ناول کا یہ حصہ بہت جذباتی اور متاثر کن ہے۔ پافل کو سائبیریا روانہ کیا جانے والا ہے۔ ماں اس کی تقریر چھپوا کر لوگوں میں بانٹنا چاہتی ہے۔ 

چنانچہ وہ چوری چھاپہ خانے میں جاتی ہے۔ پافل کی تقریر سائیکلو سٹائل کراتی ہے۔ اسٹیشن پر جاتی ہے اور لوگوں میں تقریر کے صفحات بانٹتی ہے۔ زارِ حکومت کے سپاہی اسے مارتے ہیں، اس کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھتے ہیں وہ مار کھاتی رہتی ہے اور چلاتی رہتی ہے ’’خون کا ایک اوقیانوس بھی سچ کو نہیں ڈبو سکتا۔‘‘لینن نے میکسم گورکی کے اس ناول کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ناول کی اشد ضرورت تھی۔ناول”ماں”ایک سچی کہانی پر لکھا گیا تھا جوانقلاب روس سے پہلے کے حالات، جدو جہد اور انقلاب میں عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ انقلاب روس کے بعدبھی ناول کا مرکزی کردار زندہ تھا اور لوگ اس سے خط و کتابت کرکے انقلابی تحریک کے بارے دریافت کیا کرتے تھے۔

روس کی انسان دشمن زارحکومت کے خلاف عوام کیسے کمر بستہ ہوئے، زار جس کے بنائے ہوئے اندھے قانون اور سماجی نا انصافیوں نے عوام کی زندگی کو کس طرح دوزخ بنا دیا تھا۔ انقلاب سے پہلے روس جن معاشی حالات سے دو چار تھا، عوام کی زندگی جن دشواریوں سے دو چار تھی ان سب حالات کا ذکراس ناول میں موجود ہے۔

میکسم گورکی کا ناول “ماں” روسی ادب میں ایک تبدیلی کا باعث بنا۔ انقلاب روس کو سمجھنے کےلیے اس ناول کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔دنیا کی بے شمار زبانوں میں اس ناول کا ترجمہ کیا گیا اور سب سے اہم بات کہ اس ناول میں قاری کو اپنی گرفت میں کرلینے کی زبردست خوبی موجود ہے۔ اس ناول کا مطالعہ قاری کو ناصرف روس کے انقلاب اور اس کی تاریخ سے آگاہی دیتا ہے بلکہ انسانیت اور اس کی قدر واہمیت پر زور دیتا ہے جس سے پڑھنے والا سماج میں انسانیت کی اہمیت کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔یہ ناول ایک ناخواندہ ماں کی عظمت کو اجاگر کرتاہے۔

تازہ ترین