• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسمارٹ اسکول و کالج کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ’’میاں احمد فرحان‘‘ سے خصوصی گفتگو

اسمارٹ اسکول و کالج کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ’’میاں احمد فرحان‘‘ سے خصوصی گفتگو

پینل انٹرویو: نجم الحسن عطاء، لیاقت علی جتوئی

جنگ: ہمارے قارئین کو اسمارٹ اسکول سسٹم کے بارے میں کچھ بتائیں؟

میاں احمد فرحان: ہمارا تعلق سٹی اسکول گروپ سے ہے، اس لحاظ سے تعلیم کے نظام سے ہما را تعلق 40سال پرانا ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ فیروز نے سٹی اسکول کی بنیاد 40سال قبل رکھی تھی۔ ’اسمارٹ اسکول‘ سٹی اسکول کا پروجیکٹ ہے، جسے 2012-13میں لانچ کیا گیا۔ ’کم اخراجات میں معیاری تعلیم‘ مہیا کرنا اسمارٹ اسکول کا ویژن ہے۔جب ہم ’معیاری تعلیم‘ کی بات کرتے ہیں تو اس کی ایک ’قیمت‘ ہوتی ہے۔اسمارٹ اسکول کو ایک بڑا فائدہ جو حاصل ہے، وہ ہے سٹی اسکول کا چار دہائیوں پر مشتمل تجربہ ، جس دوران سٹی اسکول نے اپنے معیار کو ثابت کردِکھایا ہے۔ اس لیے جب ہم نے اسمارٹ اسکول کا آغاز کیا تو ہمیں کئی چیزیں صفر(زیرو) سے شروع نہیں کرنی پڑیں، بلکہ سٹی اسکول کا 35سال کا تجربہ (2012تک) ہمیں وہ کوالٹی(معیار) اور تجربہ دیتا ہے۔ ہمیں نصاب (Curriculum) ڈیویلپ کرنے کے لیے، کلاسز پلان ڈیویلپ کرنے کے لیے، فیکلٹی ڈیویلپمنٹ(Faculty Development) کے لیے ،اسکول کا ماحول ترتیب دینے کے لیے دوبارہ سے خرچہ نہیں کرنا پڑا۔ ان ساری چیزوں کے لیے سٹی اسکول کی صورت میں ہمارے پاس اپنا ماڈل موجود تھا۔ ہماری چیئرپرسن کی خواہش تھی کہ قومی تعلیمی نصاب پر مشتمل اعلیٰ تعلیمی ماحول میںمتوسط گھرانوں کے بچوں کو کم فیس میں بہترین تعلیم اور تربیت مہیا کی جائے۔ اس طرح ہم سٹی اسکول کے معیارِ تعلیم کو اسمارٹ اسکول میں کم اخراجات پر لے کر آنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسمارٹ اسکول میں سٹی اسکول کے مقابلے میں تعلیم تقریباً 75%سستی ہے، ہرچندکہ معیار اعلیٰ ہے۔

جنگ: فیس اتنی کم اور معیار اعلیٰ۔ یہ یقیناً قابلِ تحسین خدمت ہے معاشرے کی جو آپ کررہے ہیں۔

میاں احمد فرحان: ہمارےاسمارٹ اسکول کے اس وقت پاکستان بھر میں تقریباً 327 کیمپسز ہیں۔اس میں ہمارے کئی کیمپس پسماندہ علاقوں میں ہیں، جیسے اندرون سندھ، اندرون پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے وہ علاقے جہاں غربت بہت زیادہ ہے۔ وہاں پر والدین ایک بچے کی4,000روپے فیس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ہم نے ایسا نظام بنایا ہے کہ اسمارٹ اسکول کراچی میں ایک بچہ جو معیارِ تعلیم 4,000روپے فیس ادا کرکے حاصل کررہاہے، وہی معیار ہم ان پسماندہ علاقوں میں 1,800روپے فیس پر فراہم کررہے ہیں۔ ٹیچرز ٹریننگ کا بھی پورے ملک میں یکساں معیار اور نظام مقرر کیا ہوا ہے۔

جنگ: ٹیچرز ٹریننگ کئی طرح کی ہوتی ہے۔ ایک روایتی اور Genericٹریننگ ہےجو سرکاری اسکولوں میں بھی دی جاتی ہے۔ ایک Customizedٹریننگ ہوتی ہے جو انفرادی طور پر ہر ٹیچرکو فوکس کرتی ہے، ایک ٹریننگ سبجیکٹSpecificہوتی ہے۔ آپ کس طرح کی ٹریننگ دیتے ہیں؟

میاں احمد فرحان: ہم اسمارٹ اسکول میں ٹیچرز ٹریننگ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک لیول وائز اور دوسری سبجیکٹ Specific ہم نے Academicsکو اسکول لیول پرتین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ ہے اَرلی ایئر ایجوکیشن، جو کہ پلے گروپ سے لے کر کلاس ٹو تک ہوتاہے، دوسرا حصہ ہے پرائمری ایئر ایجوکیشن، جو کہ کلاس تھری سے لے کر کلاس 8تک ہوتا ہے، آپ اسےپرائمری اور مڈل لیول ایجوکیشن کہہ سکتے ہیں، تیسرا حصہ ہےسیکنڈری ایجوکیشن، یعنی میٹرک۔ ہماری ٹریننگ پہلے ان تینوں لیول کے لیے Defineہوجاتی ہے۔ہر لیول کی ٹیچر کو الگ کیا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اَرلی ایئر ایجوکیشن کی ٹیچر کو پرائمری ایئر والی ٹریننگ نہیں دی جائے گی اورپرائمری لیول کی ٹیچر کو سیکنڈری لیول والی ٹریننگ نہیں دی جاتی۔ہر لیول کی ٹیچر اپنے لیے مخصوص ٹریننگ روم میں چلی جاتی ہے، جہاں انھیں اپنے اپنے لیول کے مطابق سبجیکٹ  Specificٹریننگ دی جاتی ہے، مطلب انگریزی مضمون پڑھانےوالی ٹیچر انگریزی کے ٹریننگ روم میں، میتھمیٹکس ٹیچر کومیتھمیٹکس کے روم میں بھیجا جاتا ہے، جہاں انھیں سبجیکٹ اسپیشلسٹ تربیت دیتے ہیں۔ہم پاکستان میں تقریباً 31تعلیمی بورڈز کے ساتھ کام کررہے ہیں، اس طرح جس علاقے میں ٹریننگ ہوتی ہے، وہاں اس علاقے کے متعلقہ تعلیمی بورڈزکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئےٹریننگ دی جاتی ہے، کیوں کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ بچوں کے نمبرز کیسےزیادہ آئیں گے۔ایک اور بات جو یہاں بتانا ضروری ہے وہ یہ کہ ہمارے دیے ہوئے معیار کے مطابق ٹیچرز کو اپائنٹ (Appoint) ہمارے فرنچائزی کرتے ہیں، جو اس ٹیچر کا تعلیمی بیک گراؤنڈ اور صلاحیتیں اچھی طرح چیک کرتے ہیں، تاہم وہ ٹیچر ہمارے ڈیزائن کردہ نصاب کو اس وقت تک بہتر طور نہیں پڑھا سکتی، جب تک ان ٹیچرز کو ٹریننگ فراہم نہ کی جائے۔

جنگ: کوالٹی اَشورنس کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

میاں احمد فرحان: کوالٹی اشورنس کے لیے ہم نے ایک علیحدہ ڈیپارٹمنٹ بنایا ہواہے۔ ہمارا اسٹرکچر ایسا ہے کہ ایک ہیڈ آفس ہے، تین ریجنل آفسز ہیں اور اس کے نیچے کلسٹرز (Clusters) ہیں۔ایک کلسٹر کے پاس 25سے 30اسکول ہوتے ہیں۔ ٹریننگ سرکل اس سے بھی زیادہ نچلی سطح پر کام کرتے ہیں۔کلسٹر کے مقابلے میں، ٹریننگ سرکل میں 10سے 15اسکول ہوتے ہیں، تاکہ ٹیچرز پر زیادہ فوکس کیا جاسکے۔ کلسٹر لیول پر ہماری ٹیمز ہوتی ہیں، جس میں اکیڈمکس اسپیشلسٹ اور کیمپس ریلیشن شپ آفیسرشامل ہیں، یہ دو لوگ کلسٹر لیول پر اسکولز وزٹ کرتے ہیں۔اکیڈمکس اسپیشلسٹ نصابی چیزوں پر نظر رکھتے ہیں جب کہ کیمپس ریلیشن شپ آفیسر اسکول کی انتظامی سرگرمیوں میں بہتری کے لیےمعاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے Key Performance Indicators (KPIs) بنائے ہوئے ہیں، جن کی بنیاد پر ہم اس اسکول کو جج کرتے ہیں۔ ایسے KPIsکی تعداد 355ہے۔ ان KPIsکو ہم نے مزید تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے؛ ایک حصہ اکیڈمکس پر فوکس کرتا ہے، دوسرا حصہ ایڈمنسٹریشن سے متعلق ہے اور تیسرا حصہ گروتھ اور فائنانس سے متعلق ہے۔ان KPIsکی بنیاد پر جس اسکول کی کارکردگی 90%یا اس سے اوپر ہوتی ہے، اسے آؤٹ اسٹینڈنگ قرار دیا جاتاہے۔ 40%یا اس سے کم کارکردگی دِکھانے والے اسکولوں کا ناقابل قبول قرار دیتے ہیں۔ ہم اپنے ایسے اسکولز کی مینجمنٹ کے ساتھ مل بیٹھتے ہیں اور انھیں کہتے ہیں کہ ان سے یہ اسکول نہیں چل رہا اور ہم وہ اسکول کسی اور کو دے دیتے ہیں۔ کئی کیسز میں ایسا ہوا کہ جب وہ اسکول کسی اور سے چلوایا گیا تو اس کی کارکردگی زبردست ہوگئی۔

جنگ: بچوں کے اسکول بیگ کا وزن کم کرنے کے لیے آپ کیا کررہے ہیں، کیوں کہ بیگ کا وزن چھوٹے چھوٹے بچوں کے دماغ پر جاکر لگتا ہے؟

میاں احمد فرحان: میں عرض کروں کہ ہمارا ویژن ہی یہی ہے کہ اسکول بیگ کی وجہ سے بچے کے کندھے کا بوجھ اور ماں باپ کے جیب کا بوجھ کم کیا جائے۔اس پر ہم نے تھوڑا ساکام بھی کیا ہے، ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی ہم ای۔لرننگ تک پہنچتے ہیں، ہم نے یہ کیا ہے کہ ہم نے اپنے نصاب کو آہستہ آہستہ ای۔لرننگ پر منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔مثال کے طور پر، ہم چھٹیوں کا ہوم ورک پرنٹ کروا کردیتے تھے، اس کی اتنی موٹی ورک بک بن جاتی تھی، اب چھٹیوں کا وہ کام ای۔لرننگ بیسڈ کردیا ہے۔ہم یہ کوشش کررہے ہیں کہ کمپیوٹرتو اب ہر گھر میں موجود ہے، پھرکیوں نہ اُس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بچوں کے کندھے کا وزن او روالدین کے جیب کا وزن کم کیا جائے۔ہم بچوں میں Learning Through Funکی بھی ترغیب دے رہے ہیں اور انھیں ایسا Interactiveمٹیریل ڈیویلپ کرکے دے رہے ہیںکہ وہ اس کے ذریعے تعلیم مزے لے کر حاصل کریں۔ اس کے علاوہ ہم میٹرک لیول کے بچوں کا نصاب ای۔لرننگ بیسڈ سسٹم پر منتقل کررہے ہیں، اس سے ان کی تیاری بھی بہتر ہوگی اورانھیں موٹی موٹی کتابوں سے بھی چھٹکارہ ملے گا۔

جنگ: کمپیوٹر کے بارے میں اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ It's an Idiot Box۔اس کا اپنا تو کوئی دماغ نہیں ہے، اگر اسے استعمال کرنے والے کے دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے تو فیڈبیک بھی بھوسا ہی آئے گا، ایسے میں بچوں میں کمپیوٹر کے مثبت استعمال کوفروغ دینا انتہائی چیلنجنگ بن جاتا ہے۔ آپ کیا کہیں گے؟

میاں احمد فرحان: اکیسویں صدی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی اس قدر عروج پر پہنچ چکی ہے کہ ہماری زندگی اس کے مرہونِ منت بنتی جارہی ہے، اس کے بغیر ہم اپنی زندگی کو اَدھورا سمجھتے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ بچوں کو کمپیوٹر کے مثبت پہلوؤں سے روشناس کرائیں اور ان پر نظر بھی رکھیں کہ وہ کمپیوٹر کا بہتر استعمال کریں۔ چیکس اینڈ بیلنسز ضروری ہیں۔

جنگ: نصابی تعلیم کی بات تو ہوگئی۔ اب آپ کچھ’ ہم نصابی‘ اور ’غیرنصابی‘ سرگرمیوں پر روشنی ڈالیں؟

میاں احمد فرحان: بالکل، کیوں کہ ہم تو بات ہی ’تربیت و تعلیم‘ کی کرتے ہیں۔ایک ہوگئی نصابی سرگرمیاں(Curricular Activities)، دوسری ہوگئی ہم نصابی سرگرمیاں (Co-curricular Activities) اور تیسری ہوگئی غیر نصابی سرگرمیاں (Extra-curricular Activities) ہمارا فوکس ان تینوں سرگرمیوں پر رہتا ہے۔ نصابی تعلیم ہم بچوں کو چھ گھنٹے کی کلاسز، امتحانات وغیرہ کے ذریعے دے رہے ہوتے ہیں۔ ’ہم نصابی‘ سرگرمیوں کے تحت ہم بچوں میں Vocabulary، اسپیچ ، شاعری، مضمون نویسی ، خوش خطی اور ریڈنگ کے مقابلے کرواتے ہیں۔یہ نصابی تعلیم نہیں، تاہم یہ سرگرمیاں ان کی نصابی تعلیم کو کامپلی منٹ کرتی ہیں۔ اس کے بعد غیرنصابی سرگرمیاں آجاتی ہیں، جس کے اندرگیمز، فزیکل ایکٹویٹیز اور اینول فنکشنز وغیرہ میں پرفارمنسز آجاتی ہیں۔ گیمز کے لیے ہمارا ہر اسکول اپنے کیمپس میں سالانہ اسپورٹس گالا کا انعقاد کرتا ہے، ہمارے کئی اسکولز میں بچوں کو کراٹے کی تعلیم دی جاتی ہے۔یہ تینوں چیزیں ایک بچے کی شخصیت کو بناتی ہیں۔ اس میں تعلیم، اخلاق،چلنا پھرنا، کسی بات پر توجہ مرکوز کرنا۔۔ یہ سب چیزیں مل کر بچوں کو خود اعتمادی سے بہرہ مند کرتی ہیں۔ اسی بنیاد پر ہمارے بچے قومی سطح کے مقابلوںمیں پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔

جنگ: آپ کے اسکول میں کیا کیا مضامین پڑھائے جاتے ہیں؟

میاں احمد فرحان: پڑھانے کے لیے تعلیم کے کچھ فریم ورکس ہیں، جن کے تحت تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک فریم ورک ہے STEM۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ، میتھمیٹکس۔ یہ چاروں چیزیں مل کر STEMبنتی ہیں۔اس میں اضافہ ہوتا ہے STEAMکا۔ اضافی Aسے مرادآرٹس کی تعلیم ہے۔ اس کے آگے ایک اور فریم ورک ہے STREAM۔ اضافی Rسے مراد Roboticsکی تعلیم ہے۔ اضافہ کرنے والے اس سے آگے ایک اور بھی اضافہ کردیتے ہیں SHTREAMکا۔ اس اضافی Hسے مراد Humanitiesکی تعلیم ہے۔ہم نے اپنے اسکول میںبچوں کو تعلیم دینے کے لیے SHTREAM فریم ورک کو اپنایا ہوا ہے۔صرف اتنا ہی نہیں، ہم اس سال سے اپنے بچوں کے Ethicsپر بھی کام کررہے ہیں۔آپ نے فرینکلن کووی (Franklin Covey) کا نام تو سُنا ہوگا لیکن آپ نے یہ نہیں سُنا ہوگا کہ پاکستان میں کوئی اسکول فرینکل کووی کے 7 Habits of Highly Effective Peopleکا پروگرام کرواتا ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس سال سے اسمارٹ اسکول کے اپنے ہر بچے کو یہ پروگرام کروارہے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت بچپن سے ہی بچوں کی شخصیت میں ایسی کوالٹیز کو Inculcateکردیا جاتا ہے کہ وہ چھوٹی عمر میں ہی نکھر جاتے ہیں۔ ٹریننگ کے دوران جب ٹرینر سیکھا رہے تھے کہ بچے جوتوں کو کیسے ارینج کرکے رکھتے ہیں تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ بچے جب اس چھوٹی سی عمر میں ہی اتنے Refineہوجائیں گے تو بڑے ہوکر ان کی کیا زبردست شخصیت اُبھر کر سامنے آئے گی۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال دی ہے میں نے اس ٹریننگ کی۔

جنگ: شخصیت سازی تعلیم سے آتی ہے یا علم سے؟

میاں احمد فرحان: شخصیت سازی کو میں Level of Professional Excellence کہتا ہوں، جسے حاصل کرنے کے لیے میں نے ایک ماڈل بنایا۔ اس ماڈل کو میں نے 14 Esکا نام دیا ہے۔ Endowment اللہ عزوجل کی عطاء کردہ ہوتی ہے، جس کے لیے Education یا Experience یا پھر دونوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ دونوں چیزیں اس وقت تک ممکن نہیں ہوتیں، جب تک ایک شخص اس میں Effortاور Energyنہیں ڈالتا۔ ایسا کرنے کے لیے اسے Enthusiasm دِکھانا ہوگی اور Ethicalبننا پڑے گا۔اس کے بعد آپ Entrepreneurshipیا Employment کے ذریعے Earning کرتے ہیں اور جب اتنی ساری Esایک جگہ اکٹھی ہوجائیں تو آپ کو ملے گی Enjoyment۔اور اگر آپ یہ سارے کام آخرت کو مدِنظر رکھ کر کرتے ہیں تو وہ خوشی Eternalبن جائے گی۔ان تیرہ Esکا ماڈل بنا کر میں اپنے والد صاحب کے پاس گیا، انھوں نے اسے بغور دیکھنے کے بعد کہا کہ جب تک ماحول نہ ہوتب تک کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، اس طرح میں نے اس ماڈل میںماحول یعنی 14ویں ’ای‘ (Environment) کا اضافہ کردیا۔

جنگ: کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

میاں احمد فرحان: اپنی بنیاد (Roots)کو نہ چھوڑیں اور ہماری بنیاد قرآن پاک ہے۔ اگر بنیاد چھوٹ جائے تو تناور سے تناور درخت بھی گرجاتا ہے۔

تازہ ترین