• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امتحانات اور ذہنی دباؤ سے نجات

زیادہ پرانی بات نہیں کہ سال میں صرف دو امتحان ہوتے تھے، ایک ششماہی ، دوسرا سالانہ۔ درمیان میں اگر ایک آدھ ٹیسٹ آجاتا تو اس کا دبائو بھی راتوں کی نیندیں اڑا دیتا تھا۔ اب چونکہ زمانہ بدل گیا ہے، نت نئے ٹرینڈز اور تعلیمی نظام وجود میں آگئے ہیں۔ مسابقت بڑھ چکی ہے ، اسی لیے اب پرائمری سطح پر ہی سارا سال ذہنی جانچ کے امتحانات یعنی اسسمنٹس ہوتے رہتےہیں۔ اسائنمنٹس الگ اور پروجیکٹس کی تیاری کے مزید دبائو سے طلبا نبرد آزما ہوتے رہتے ہیں اور صرف طلبا ہی نہیں والدین پر بھی دبائو بڑھ گیا ہےکہ ان کے بچے خاندان ،سوسائٹی یا اپنی کمیونٹی میں ان کی ناک نہ کٹوادیں۔ 

ہم یہاں یہ باور نہیں کروارہے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے، چونکہ ہم نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچوں کو تعلیم فراہم کروارہے ہیں اسی لئے اس کے تمام تر لوازمات اور دبائو جیسے عوامل سے کیسے نمٹا جائے ، ہم اس کی بات کریں گے کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ کےا سکولوں میں امتحانات پر بہت زیادہ توجہ طالب علموں کی ذہنی صحت اور خوداعتمادی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔نیشنل یونین آف ٹیچرز کی تیارہ کردہ رپورٹ کے مطابق طلبا کو ذہنی دباؤ جیسے مسائل کا سامنا ہے جن کا تعلق امتحانات سے ہے۔

8000 اساتذہ سے کیے گئے سروے اور تحقیق پر مبنی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امتحانات کی تیاریوں نے بچوں کے سیکھنے کے عمل کو کم کیا ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا عزم ہے کہ ہر بچہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے قابل ہو سکے۔لندن میٹروپولیٹن یونیورسٹی سے وابستہ پرفیسر میرن ہچنگز کی تیارہ کردہ ایک رپورٹ کے مطابق امتحانات میں بہترین کارکردگی کی دوڑ میں طلبا کی جذباتی اور عمومی صحت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

حکومت قومی سطح پر مختلف آزمائشوں اورطلبا کے اگلے مرحلے میں جانے کے لیے امتحانات کوا سکولوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔رپورٹ میں جن اساتذہ نے سروے میں حصہ لیا ان میں سے بہت سے متفق تھے کہ سیٹس یا عام امتحانات سے قبل طلبا بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں دیکھے گئے یا انھیں پریشانی لاحق ہوگئی۔

ایک استاد کا کہنا تھا دس یا گیارہ سال کا بچہ گھبرایا ہوا اور بے بس ہو کر آپ کے سامنے بیٹھا ہوتا ہے۔ایک اور ٹیچر کے مطابق مجھے ایک بچے کو تین دن کے لیے گھربھیجنا پڑا کیونکہ حال میں ہونے والے ٹیسٹ کے نتائج سے وہ بہت پریشان تھا اور مزید ٹیسٹ نہیں دینا چاہتا تھا۔رپورٹ کے مطابق امتحانات اور ٹیسٹوں پر زور سے طالب علموں اور اساتذہ کے درمیان رشتے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ 

چلیں یہ توایک نفسیاتی پہلو ہے کہ بچے اساتذہ کی جانب سے لیے گئے ٹیسٹس کو اپنے لئے کوہ ِ گراں سمجھتے ہوں لیکن اس ضمن میں والدین کو بہت اہم کردار اد ا کرنا ہے اور ذہنی دبائو کے اس مسئلے میں اپنے بچوں کو بیچ منجھدا ر نہیں چھوڑ دینا چاہئے ، یا صرف ٹیوٹرز پر ہی انحصار نہیں کرنا چاہئے کہ جو بچوں کو امتحانات کی تیاری کرواد یں گے بلکہ خود بھی ان طلباکے ساتھ مشغول ہو کر انہیں ذہنی دبائو سے نکلنے کی مدد کی جائے تو بہت بہتر صورتحال سامنے آ سکتی ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ اکثر طلبہ امتحانات کی تیاری کے دوران اپنی جسمانی صحت کو یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں جس سے ان کی صحت امتحانات کے وقت مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہے نتیجےمیں امتحانات میں ان کی کارکردگی حد درجہ متا ثر ہو جا تی ہے۔امتحانا ت کی تیاری کے دوران چند بنیادی عناصر پر عمل کر تے ہوئے جسمانی صحت کو بہتر رکھا جا سکتا ہے ۔اس مضمون کے ذریعے ان امور کا احا طہ کیا گیا ہے جن پر عمل کر تے ہوئے طلبہ آسانی سے اورکم سے کم وقت میں اپنی صحت کو بر قرار رکھتے ہوئے امتحان کی تیاری سر انجام دے سکتے ہیں۔

امتحا ن کی تیاری کے دوران یاامتحان کی آمد سے عین قبل جسم کے بعض اعضاء ہ پر شدید دباؤ پڑتا ہے اور اس دباؤ کا مناسب انداز میں سامنا نہ کر نے کی وجہ سے بچوں کی صحت امتحا ن سے قبل متا ثر ہو جا تی ہے جس سے طلبہ کو نا قا بل تلا فی نقصان کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔مذکورہ اعضاء کی دن میں ایک یا دو مر تبہ ورزش صحت کوبر قرار اور دباؤ سے نجات میں ممد و معاون ہو تی ہے۔متعین کردہ اوقات کے علاوہ طلبہ جب کبھی امتحان کی تیاری کے دوران ان اعضاء پر کسی بھی قسم کا تناؤ یا دباؤ محسوس کر یں فوراََ مخصوص ورزش کے ذریعہ دباؤ اور تکلیف سے نجات حا صل کر سکتے ہیں۔روز انہ کی جا نے والے ورزش کے لئے امتحان کی تیاری کے دنوں میں وقت نکالنا نہا یت مشکل ہو تا ہے۔

امتحانات کی تیاری میں ایک ایک لمحہ اہمیت کا حامل ہو تا ہے اسی لئے اگر روز انہ کر نے والی ورزش چھوٹ بھی جائے تو مذکو رہ ہر ایک عضو کی ورزش انفرادی طو ر پر جب بھی ضرورت در پیش ہو، کر لی جا ئے تا کہ جسم تر و تا زہ اور تھکان کا شکار نہ ہونے پا ئے اور مطالعہ کو انہماک و دلچسپی سے انجام دیا جا سکے۔اوپر بیان کردہ تمام اعضاء کی ورزش کا کام صرف پندرہ منٹ کے وقفہ میں انجام دیا جا سکتا ہے۔اس کا م کو طلبہ اپنے امتحان کی تیاری کے قیمتی وقت میں حائل ایک رکاوٹ اور وقت کا زیا ں نہ سمجھیں۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ورزش انسان کو چاق و چو بند رکھنے کے علاوہ یادداشت کو بہتر ،انہماک و یکسوئی کو پروان چڑھا تی ہے اور ان سب سے بڑھ کر جسمانی و ذہنی تھکا وٹ سے نجات دلا تی ہے جس کیلئے والدین یا بڑے بہن بھائی بچوں کی مدد کرسکتے ہیں ،انہیں گھر کی چھت یا دالان یا باہر کسی پارک میں کتابوں سمیت لے جا سکتے ہیں جہاں تازہ ہوا میں بچے اپنی تیاری بھی کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی ہلکی پھلکی بھاگ دوڑ بھی کرسکتے ہیں۔ 

تازہ ترین