• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمپیوٹر لرننگ اور آگے بڑھنے کے مواقع

دنیا کے دو معروف سافٹ ویئر انجینئرز کیون یوک اور بیکی چن اس وقت کمپیوٹر اسکرین کی لائینوں پر کام کر رہے ہیں تاکہ ان لائینز آف کوڈ کو ایک اوسط یا ناخواندہ فرد بھی آسانی سے پڑھ سکے تاکہ سیکھنے والا بغیر استاد اور ٹیوشن کے کمپیوٹر سیکھ سکے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ سب کیلئے مواقع مساوی میسّر ہوں تاکہ کوئی اعلیٰ دماغ اپنی کم مائیگی یا تہی دامنی کی وجہ سے دنیا میں آگے بڑھنے سے نہ رہ جائے کیونکہ بلند فیسوں کی ادائیگی کرنے والے سافٹ انجینئرنگ کیلئےجاب مارکیٹ میں بہترین تنخواہوں والی ملازمتیں بھی وافر دستیاب ہیں۔ باالفاظ دیگر کوئی اعلیٰ دماغ کوئی ذہین طالبعلم ’’سلی کون ویلی‘‘ ایپل، لنکن (Linkedln) اور ناسا کو خدمات پیش کرنے سے رہ نہ جائے۔ 

سائنس اور ٹیکنالوجی کا شعبہ اعلیٰ دماغوں کا متلاشی رہتا ہے، اس کی مثال فٹبال کی دی جا سکتی ہے۔ سب ہی کو علم ہے کہ برازیل کے فٹبال کا آرٹ ایک زمانے میں کسی سے پوشیدہ نہیں تھا لیکن اب وہ بات نہیں ہے۔ دراصل برازیل میں دو اقسام کے فٹبال کلب ہیں۔ ایک امیر لڑکوں کو تربیت دینے کیلئے اور دوسرے سستے فیس والے چھوٹے کلب، جہاں غریب بچّے سیکھتے ہیں۔ بی بی سی کے نمائندے نے ایک انٹرویو میں نہایت عمدہ کھیلنے والے بچّے سے پوچھا، آپ تو ہائی فیس دینے والے بچّوں سے کہیں بہتر کھیلتے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ برازیل میں بڑے کلبوں میں کھیلنے والے بچّے کتنے بھی ہم سے کم ہوں، ان میں زیادہ تر قومی ٹیم میں آ جاتے ہیں اس لئے برازیل کا فٹبال زوال پذیر ہے۔

ٹیلنٹیڈ طالبعلم کو دوران پڑھائی جاب آفر ہو جاتی ہے

ذہین اور ٹیلنٹیڈ طالبعلم کو دوران تعلیم جاب آفر ہو جاتی ہے چونکہ دنیا میں ٹیکنالوجی برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے اور ٹیکنالوجسٹ کم دستیاب ہیں۔ اب یہ طریقہ دریافت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ناخواندہ بغیر استاد کے ہی کمپیوٹر کی لائینز آف کوڈ کو دیکھ کر کمپیوٹر سیکھ سکے۔ مغربی ٹیکنالوجسٹ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مواقع ابھی برابر نہیں ہیں اس کے باوجود اقلیتی پسماندہ بیک گرائونڈ سے بہتر ٹیکنالوجسٹ پیدا ہو رہے ہیں۔ مذکورہ سافٹ ویئر انجینئروں کا کہنا ہے کہ انٹرن شپ میں بھی ذہین کمپیوٹر سافٹ ویئر سے آراستہ طالبعلم 70ہزار ڈالر تنخواہ لے رہے ہیں اور پہلی ملازمت میں ایک لاکھ ڈالر بہ آسانی مل جاتے ہیں۔ پہلے آرٹسٹ بال ٹینڈر اور کیشئر کی ملازمتوں میں ذہین نوجوان چلے جاتے تھے لیکن کمپیوٹر کی مہارت نے ذہین طالبعلم کا مستقبل روشن کر دیا ہے۔ مذکورہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے دو راستے کمپیوٹر پروگرام کے ہوتے تھے۔ 

یونیورسٹی میں داخلہ لیا جائے یا پھر نام نہاد بوٹ کیمپس(BootCamps)جنکی ٹریننگ بہت سخت ہوتی تھی اور ان میں عرصہ بھی زیادہ لگ جاتا تھا، اس کے علاوہ یونیورسٹی کی فیس لاکھوں ڈالر ادا کرنی پڑتی تھی اور بوٹ کیمپس بھی بھاری فیس وصول کرتا تھا۔ اب سیلف ہیلپ، اپنی مدد آپ اور مسئلہ کا حل نکالنا ہی اس کھیل کا نام ہے جس کیلئے اب استاد کی ضرورت نہیں جس سے کمپیوٹر لرننگ کی لاگت بہت کم ہو گئی ہے اور بھاری فیس ادا نہ کرنے والا بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔

فیس بک، گوگل اور مائیکروسافٹ کا رول

فیس بک، گوگل اور مائیکرو سافٹ سے 150 ماہرین مختلف درسگاہوں میں جاتے ہیں تاکہ نصاب کو اپ ڈیٹ کرنے میں آسانی ہو۔ وہ اس لئے جاتے ہیں کہ انویسٹر صرف اس کام کیلئے 13ملین ڈالر ادا کرتا ہے۔ اب تعلیمی خدمت تجارت ہو گئی ہے۔ اتنا بھاری منافع کمانے والے بھی معمولی خدمت کا بھی محنتانہ طلب کرتے ہیں۔ چھوٹے ادارے برازیل کے فٹبال کلبوں کی طرح ایپل وغیرہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بعض کالج اب بھی وہ نصاب پڑھا رہے ہیں جن کی جاب مارکیٹ ختم ہو گئی ہے اس لئے طالبعلموں کو معروضی عالمی حالات سے واقف ہونا چاہئے۔ طالبعلم کمپیوٹر سائنس اس لئے سیکھتے ہیں تاکہ وہ ’’ڈریم جاب‘‘ کا بروقت تعاقب کرتا رہے۔

پاکستانی طالبعلموں کو کیا کرنا چاہئے؟

کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کا انفرااسٹرکچر اور اعلیٰ و معیاری فیکلٹی موجود نہ تھی اس لئے یواے ای کے ایک سافٹ ویئر بزنس مین جو پاکستانی ہے، ان کا کہنا ہے کہ میں پاکستان سے نوجوان لینا چاہتا ہوں مگروہ مقابلے میں رہ جاتے ہیں لیکن اب کچھ عرصے سے پاکستان میں سافٹ ویئر انجینئرنگ میں کافی بہتر پیشرفت ہوئی اور میں نے بھی کراچی میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کا دفتر کھولا ہے جس میں درجنوں پاکستانی نوجوان ہنرمند کام کر رہے ہیں اور بہتر کام کر رہے ہیں۔ کمپیوٹر انجینئرنگ کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ بہترین ٹیلنٹ کیلئے بزنس ادارے تنخواہیں نچھاور کر رہے ہیں۔ سلی کون ویلی اور کیلی فورنیا میں تو بوریاں بھر بھر کر تنخواہیں ادا کرنے کو تیار ہیں لیکن ابھی طلب کے مقابلے میں رسد کم ہے۔

ٹیلنٹ کی کمی اور بھاری تنخواہوں کی پیشکش

امریکا میں ایک نان پرافٹ آرگنائزیشن Code,orsجس کا مقصد یہ ہے کہ وہ کمپیوٹر سیکھنے والوں میں اضافہ کرے کیونکہ جاب مارکیٹ میں اس وقت 5,20,000ملازمتیں خالی پڑی ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کے ہونہار طالبعلموں کی رسد کم ہے، اسی تناظر میں لیبر جاب مارکیٹ میں 26ملین ملازمتیں 2015میں خالی پڑی تھیں، یہ آن لائن ملازمتیں تھیں، اس میں ہائر ایجوکیشن کمپیوٹر کی ضرورت نہیں۔ آن لائن ملازمتوں کا یہ فائدہ ہے لیکن کمپیوٹر کی جان کاری لازمی ہے۔ اس کام کو کرنے میں تھوڑا مختلف کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ سیلز اور مارکیٹنگ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ عصر حاضر میں امریکا میں 90ہزار ڈالر سے ایک لاکھ ڈالر کی ملازمتیں ماہانہ ان نوجوانوں کو پیش کی جا رہی ہیں جو سافٹ ویئر انجینئرنگ میں بہترین ہیں۔ 

جہاں تک لرننگ کا سوال ہے ایک تو بغیر استاد کے لرننگ کا آغاز ہو رہا ہے تاہم جو دسترس رکھتے ہیں ان کیلئے بہت سے آپشنز ہیں۔ سرکاری درس گاہوں میں سالانہ فیس 20ہزار ڈالر ہے جبکہ نجی اداروں میں 50ہزار ۔پاکستان میں بھی یہ سلسلہ مہنگا ہے لیکن اگلے ایک، دو سال میں بغیر استاد والی لرننگ کے امکانات پاکستان میں بھی روشن ہیں۔ امریکا میں جو طالبعلم اسکالرشپ نہیں لے سکتے ان طالبعلموں کوبغیر سود کے قرضہ دیا جاتا ہے لیکن سیاہ فاموں کا کہنا ہے کہ ان کو اچھی جاب سفید فاموں کے مقابلے میں نہیں ملتی لہٰذا وہ قرضہ بھی لینے سے گھبراتے ہیں۔ اس بات کا ذکر جوزف اسٹک گلڈ کی کتاب ’’نابرابری قیمت‘‘ میں کیا گیا ہے اس لئے بھی جاب مارکیٹ میں مانگ زیادہ ہے۔

کمپیوٹر کی لرننگ میں ذہانت کا استعمال

مذکورہ دو بڑے سافٹ ویئر انجینئروں نے ٹھیک سوچا کیونکہ دنیا 80فیصد غریب لوگوں پر مشتمل ہے۔ چنانچہ دنیا کے بڑے لوگ اسی 80فیصد آبادی سے پیدا ہوتے ہیں۔ غریب اس لئے جدوجہد کرتا ہے کہ وہ اس نظام میں آگے بڑھے جہاں سیکھنے کے اور ملازمتوں کے مواقع برابر نہیں ہیں۔ ذہانت زمین سے اگتی ہے اس لئے جن باعلم لوگوں کو علم ہے کہ ذہانت ہی ذہنی ترقی کا راستہ ہے جس میں بھاری فیسیں حائل ہو جاتی ہیں اور غبی طالبعلم آگے بڑھ کر دنیا کو جہنم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

تازہ ترین