• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فنی و ہنری تعلیم: کتنی کارآمد و مفید

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی و خوشحالی کے لیے انسانی ترقی ( Human Development ) بہتری ضروری ہے، لہٰذا ایک دانش مند حکومت اپنی پالیسی تشکیل دیتے وقت انسانی ترقی کو ترجیح دیتی اور اس مقصد کے لیے مناسب فنڈز کی دستیابی کو یقینی بناتی ہے۔

انسانی ترقی کا ایک اہم جزو’’ ٹیکنیکل ووکیشنل ایجوکیشن ٹریننگ (TVET) ‘‘ہےجو حالیہ دنوں میںزبردست مقبولیت پارہی ہے۔ مختلف اقتصادی شعبوں میںتعلیم و تربیت کے یہ مواقع عوام کے لیے روزگار کی راہیں ہموار کرتے ہوئے انہیں زیادہ مفید اور کارآمد شہری بناتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی ترقی کے حوالے سے TVET کے کردار کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔لہٰذا اسے وسعت دینے کے لیے ہمیں اس شعبے میں مزید مہارت کامظاہرہ کرنا ہوگا۔اس کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔

پاکستان میں ہنر مند افرادی قوت کی ترقی،انسانی ترقی اور تکنیکی مہارت کے لیے مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر طویل مدت پالیسی بنانی ہوگی جو حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہو۔مستقبل کی اقتصادی ترقی اسی سے مشروط ہے۔انسانی سرمایہ کاری میں فنی و ہنری تعلیم ہی کسی قوم کی ترقی کا پیمانہ ہوتے ہیں اور ہنرمند افرادی قوت ہی کسی ملک کا بیش قیمت سرمایہ ہوتے ہیں جو زمین کے پوشیدہ خزانوں کو باہر نکالتے ہیں اور ملک کی معاشی خوشحالی کی ضمانت بنتے ہیں۔انسانی دارالحکومت کی ترقی اور محنت کشوں کو فن اور ہنر سے فیض یاب کر کے ہی کوئی قوم ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہوسکتی ہے۔ 

اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترقیاتی عمل کا حتمی مقصد کسی ملک کی اقتصادی ترقی ہوتا ہے،جس میںعوامی اخراجات حکومتی ذمہ داری کے ضمن میں آتا ہے اور اس میں کوئی بھی غفلت اور لاپروائی حکومتی احتساب کے زمرے میں آتی ہے۔اس لیے حکومت پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی افرادی قوت کو فن اور ہنر سے آراستہ کرنے کے لیے عائد سماجی ذمہ داری کا ممکنہ کردار ادا کرے۔تکنیکی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے حالیہ رجحان میںمقبولیت اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی کے دور میںکسی قوم کی سماجی ترقی میں مہارت اور علم سب سے اہم ہے اور یہ معاشرتی ہیئت کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ملک کی اقتصادی ترقی میں فنی و ہنری تعلیم ایک اہم کلیدی نکتہ ہےجس کی ہنر مند افرادی قوت کی ترقی کے لئے اشد ضرورت ہے۔تکنیکی ترقی میں تیزی سے تبدیل ہوتےچیلنجزہر بدلتے دن کے ساتھ ٹیکنالوجی کے اثر و نفوذ کی وجہ سے ہیں اور آج کی محنت کش کلاس کوتعلیم کے دیگر مدارج سیکھنے کے عمل میںٹیکنالوجی کے مطالعہ اور عملی مہارت کے حصول سے متعلقہ مضامین اور دلچسپیوں کو بھی اپنی زندگی کا معمول بنا پڑے گا۔

تیز رفتار تبدیلی سے کام کے ساتھ رضامندی میں ترقی سماجی اقتصادی کے مواقع کو بڑھانے کے لئے علم اورفنون میں مہارت حاصل کرنا اس دور کا ناگزیر تقاضہ ہے۔تکنیکی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ بیداری کی وسیع حد تک معقول شراکت داری بھی واجب ہوجاتی ہے،جسے ہم ٹیم ورک کہتے ہیں۔علوم کے بے تحاشا پھیلاؤ کے باعث یکساں مہارت کے شعبوں میں ایک ہی شعبے کے لوگ مل جل کر کام کر رہے ہیں تاکہ جلد نتائج سامنے آسکیں۔ہر روز کوئی نہ کوئی نئی ایجاد منظر عا پر آرہی ہے۔اس ضمن میں پاکستان کے نوجوان سائنس طالبعلموں کی کاوشوں کو ہم نظر اداز نہیں کر سکتے لیکن یہ ساری کوششیں بکھری اور غیر منظم نظر آتی ہیں۔

پاکستان میں تربیتی ادارے ہر قسم کا کورس کرواتے ہیںجن میںپبلک ٹیکنک، اپرنٹس شپ، گورنمنٹ ٹریننگ اور پیشہ ورانہ اور نجی تربیتی اداروں کاغیر رسمی تربیتی نظام موجود ہے۔تکنیکی تعلیم اورپیشہ ورانہ تربیتی ادارے آپ کو ملک کے چاروں صوبوں میں کام کرتے نظر آئیں گے جن سے کئی ماہر الیکٹریشنز، پلمبرز وغیرہ نکلے ہیں اور اب تو یوتھ اسکل ڈولپمنٹ تربیت کے ساتھ روزگار کی ضمانت بھی مہیا کرتا ہے،تاہم بین الاقوامی معیار کی تربیت کے حوالے سے کسی قسم کی جانچ پڑتال اور دستاویز ساز ی نہیں ہوتی جس سے یہ پتہ چل سکے کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طالب علم کس معیار کے ماہر اور کاریگر ہیں۔پاکستان کے معاملے میں انسانی وسائل کی ترقی کی کم شرح ہے۔انسانی ترقی انڈیکس بھی پاکستانیوں کے لیے تاریک راہوں کی نشان دہی کررہا ہے۔ پاکستان پیشہ ورانہ امور اور نوکری کے نظام کو بہتر بنانے کے قابل نہیں ہے۔سماجی مہارت، پیداوار، برآمدات اور روزگارمیں سست روی کے نتیجے میںزندگی کا معیار کم ہوا ہے۔

ہنر کا انتخاب کیسے کیا جائے

یہ بہت خوش آئند امر ہے کہ حکومتی و نجی سطح پر تعلیمی اداروں اور ہر شعے کی صنعتوں میں کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے’’ نوجوانوں کی فنی وہنری ترقی ‘‘یعنی ’’یوتھ اسکل ڈیولپمنٹ ‘‘ پروگراموں کا رواج شروع ہوچکا ہے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ے تحت گزشتہ دس برسوں سے نوجوانوں بالخصوص عورتوں کی ایک بڑی تعداد فن و ہنر سے بہرہ مند ہوکر خود روزگار کے مواقع حاصل کرچکی ہیں ۔اس ضمن میں انہیں تربیتی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کو کارکردگی کی بنیاد پر بڑے ادارے خدمات بھی لے رہے ہیں۔

اس حوالے سے کمپیوٹر سائنس اور انٹرنیٹ کی تعلیم کے حصول میں سب سے زیادہ دلچسپی بڑھی ہے اور یہ شعبہ ان لڑکیوں میں مقبولیت پارہا ہے جو گھر بیٹھے آن لائن باعزت کارابار کرنے کی خواہاں ہیں۔اس میں ملباسات تیار کرکے آن لائن فروخت سے لیکر دستکاری اور گھر میں بنائی جانے والی اشیا شامل ہیں۔ایسے لاتعداد فنی علوم اور ہنروں کی موجودگی میں سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان میں سے کس ہنر کا انتخاب کیا جائے!؟ اس سوال کا بہترن جواب آپ ہی کے من میں چھپا بیٹھا ہے کہ آپ کس چیز میں دلچسپی رکھتے ہیں!؟ اگر آپ الیکٹریشن۔پلمبر۔کارپینٹر جیسے مقبول شعبوں میں جانا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے آپ کا رجحان کہ آپ کو اس ہنر میں کتنی دلچسپی ہے!؟ یہ سوال آپ خود سے پوچھیے کہ کون سا ہنر مہارت آپ کو آگے لے جاسکتی ہے؟۔

تازہ ترین