• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے کے واقعات میں سب سےاہم واقعہ وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کا رہا۔ اسطرح کے روح فرسا واقعات میں یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔اس سے پہلے سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کے چہرے پر بھی سیاہی پھینکی گئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اوپر بھی جوتا اچھا لا گیا۔ عمران خان پر بھی ایک جلسے میں جوتے سے وار کیا گیا۔ اس سے پہلے 2013 ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اے این پی پر جس تسلسل سےحملے کئے گئے وہ بھی تاریخ کی ایک قبیح مثال ہے۔چند روز پہلے کراچی میں جلسہ گاہ کے مقام پر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں جوتم پیزار ہوئی ہے وہ بھی سب نے براہ راست دیکھی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ ان تمام معاملات میں مارنے والا بھی اپنی سوچ پر یقین رکھتا تھا اور جس کی تضحیک کی جاتی ہے وہ بھی اپنی سوچ کو درست مانتا ہے۔ گالی دینے والا بھی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے گالی کھانے والا بھی اس کوسچ کی پاداش کہتا ہے۔ گولی چلانے والا بھی پورے ایمان سے گولی چلاتا ہے اور گولی کھانے والا بھی اپنی مظلومیت پر یقین رکھتا ہے۔ جس کی موٹر سائیکل جلتی ہے وہ بھی حق پر ہوتا ہے اور جو اس کو نذر آتش کرتا ہے اسکے پاس بھی اس فعل کی بہت سی دلیلیں ہوتی ہیں۔ اس متشددانہ سوچ کے پیچھے کیا عوامل ہیں اس پر تفصیل سے بحث درکار ہے۔
اس بات کو اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم ریاستی طور پر مذہب کا پرامن پہلو اجاگر کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ تقاریر کی حد تک ہر شخص امن کا داعی ہے مگر ہمارے ا عمال اس قول سے لگا نہیں کھاتے۔مجھے ہر مسلمان کی طرح اس بات پر بین یقین ہے کہ ہمارا مذہب امن کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ یہ درگزر کی تلقین کرتا ہے۔ محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔بزرگوں کا احترام اور بچوں پر شفقت کی ہدایت موجود ہے۔ کسی شخص کو بلاوجہ ضرر پہنچانے کی ممانعت ہے۔دوسرے مذاہب کے احترام کا سبق بھی ملتا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس رحمت اور شفقت کے بین الاقوامی پیغام تک رسائی حاصل نہیں کر سکے؟اس بحث کے تما م تر پہلوئوں میں سے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ہم نے ریاستی اور ملکی طور پر امن اور بھائی چارے کو فروغ دینے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم نے نفرتوں کو اپنا شعار بنایا ہے اور انہی کے فروغ میں اپنی تمام کاوشیں صرف کی ہیں۔ ہم نے سماجی طورپردلیل کو بز دلی سمجھا ہے اور دعوے کو اہمیت دی ہے۔ بدزبان شخص کو ہم بہادر گردانتے ہیں اور نرمی سے بات کرنے والا تھڑ دلا سمجھا جاتا ہے۔مار پیٹ کرنے والا ہمار ا ہیرو بن جاتا ہے اور معافی مانگنے والا ، درگزر کرنے والامعاشرے کے تمسخر کا نشانہ بنتا ہے۔ ہم نے سبق یہی سیکھا ہے ہر مکالمے کا نتیجہ بندوق سے نکلتا ہے اور گالی اور گولی سب سے بڑی حقیقت ہوتی ہے۔
ستانوے فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں ہمیں اقلیتوں سے تو کوئی خطرہ نہیں ہے مگر مسلمانوں کو مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ اور یہ خطرات ایک سوچی سمجھی سوچ کی بنا پر ہمارے ذہنوں میں تخلیق کئے گئے ہیں۔ ذاتی یا حکومتی مفادات کے لئے کی گئی یہ سوچ اس سماج کو ایک متوازن سماج بننے سے روک رہی ہے اور المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا ادراک ابھی نہیں ہے۔لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کو استعمال کرتے رہے اور یہ سارا معاشرہ اس اثر کو قبول کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں کیپٹن صفدر کی تقریر سے جس شدت پسندی کا اظہار کیا گیا وہ کسی طرح بھی متوازن معاشروں کی سوچ نہیں ہو سکتی۔ شیخ رشید نے جس طرح جلائو گھیرائو اور گالی اور گولی کے استعمال کی ترغیب دی وہ ناقابل معافی جرم ہے۔عمران خان نے جسطرح ایک پوری نسل کو نفرت کا سبق پڑھایا اسکے مقاصد تو سیاسی تھے مگر اس نے ہمیں سماجی طور پر غاروں میں رہنے والوں کی سوچ تک پہنچا دیا ہے۔بدقسمتی سے نفرت کے اس شعار کے نتائج ہم کئی دہائیوں تک بھگتیں گے۔
اس مسئلے کا ایک پہلو ہماری حکومتی سیاسی اور بین الاقوامی ترجیحات بھی رہی ہیں۔ ہم خود ہی اپنے بچوں کو امریکی ڈالروں سے ہونے والے جہاد کی تربیت دیتے رہے اور پھر ایک دن اچانک سے ہم نے جہاد کرنے والوں کی بیخ کنی کا عمل شروع کر دیا۔ اپنی آتش فشاں فصل کو ہم نے خود بارود کی نذر کر دیا۔ اس سارے عمل میں اس سماج پر ہونے والے اثرات کو مدنظر نہیں رکھا۔ اپنی بین الاقوامی ترجیحات ہمیں مقدم رہی ہیں اور درون خانہ پلنے والے عذاب پر نظر رکھنے سے ہم نے پہلو تہی کی ہے۔ہماری نسلیں تشدد کے ماحول میں پلی بڑھی ہیں اور بدقسمتی سے اس نسل کے پاس اس تشدد کا جواز بھی موجود ہے۔ ہمارے نصاب میں فاتحین اور جنگجوئوں کے قصے تو پوری شان و شوکت سے تحریر ہے مگر امن کے داعی افراد کا ذکر خال خال بھی دستیاب نہیں ہے۔
کسی بھی معاشرے کی سوچ کی تخلیق میں دہائیاں لگتی ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ ستر سال میں ہم اپنی تمام تر توانائیاں غلط سمت صرف کر چکے ہیں۔ تشد د کو فروغ دینے والے ہی اس سماجی جرم کے ذمہ دار ہیں۔ اب اگر ہم چاہیں بھی کہ یک دم اس سوچ کو تبدیل کر دیں تو یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ جس متشدد روئیے کو ہم نے ریاستی طور پر شعار بنایا ہے اس کی گرفت سے نکلنا ایک دم ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے بھی دہائیاں درکار ہیں۔ کئی نسلیں اب برباد ہوں گی تو تب کہیں جا کر امن و محبت کا پیغام لوگوں کے ذہنوں میں سرایت کرے گا۔لیکن اگر ہم بحیثیت قوم اس سماجی تبدیلی پر متفق ہو بھی جائیں تو بھی اس کام کو ابھی سے شروع کرنا پڑے گا۔ مزید تاخیر کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ اسکے لئے تما م اسٹیک ہولڈرز کو ایک نقطہ نظر پر متفق ہونا پڑے گا۔ ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم مذہب کو ایک کارڈ کے طور پر استعما ل نہیں کریں گے۔ ہم حکومتی اور سیاسی مقصد کے حصول کےلئے نفرت کو شعار نہیں بنائیں گے۔گالی اور گولی کی سیاست کرنے والوں کی تادیب کریں گے۔ اپنی حکومت کے تسلسل کے لئے مذہب استعمال نہیں کریں گے۔منبر اور مدرسے کا استعمال نفرت پھیلانے کے لئے نہیں کریں گے۔ اس اہم دارے سے سماجی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ عوامی مسائل حل کیئے جا سکتے ہیں مگر اس کے لئے ریاستی طور پر متشدانہ سوچ کی مناہی ضروری ہے۔سوچنے کی بات صرف اتنی ہے کہ کیا حکومتی اور ریاستی سطح پر تمام ادارے اس سماجی تبدیلی کے لئے تیار ہیں کیا
نوٹ ۔ گزشتہ ہفتے پولیس کے آئی جی موٹر وے اینڈ نیشن ہائی وے کلیم امام صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کلیم امام کی پولیس کیلئے خدمات مثالی ہیں انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ایسے پمفلٹ تیار کروائے ہیں جن میں علماء ۔ مشائخ اور مساجد کے اماموں سے درخواست کی گئی ہے کہ ٹریفک کے قوانین کی پاسداری کا سبق اپنے اپنے خطبات میں دیں۔ یہ وہ مثبت پہلو ہےجس کی تقلید لازمی ہے۔ مذہب، مسجد اور منبرسماج کی بہتری کیلئے استعمال ہونا چاہئے گالی اور گولی کی سیاست کیلئے نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین