کہتے ہیں زندگی میں آگے بڑھنے اور جینے کے لیے رشتے بہت اہم ہوتے ہیں، جو وقت آنے پر کبھی ہماری ڈھال بنتے ہیں،کبھی کام یابیوں پر تھپکی اورناکامیوں پر حوصلہ دیتے ہیں، تو کبھی تنقید بھی کرتے ہیں۔ جیسے جیسے ہم زندگی کے سفر میں آگے بڑھتے جاتے ہیں، ویسے ویسے نئے رشتے ہماری زندگی میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔ اس راہ پر بہت سے لوگ ہم سے بچھڑ جاتے ہیں، وقتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب شاید سانس لینا بھی محال ہوگا، مگر زندگی کی گاڑی کسی کے لیےنہیں رکتی، آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
ہر رشتے کا نعم البدل مل جاتا ہےیا یوں کہہ لیجیے کہ وقت کے ساتھ ہم نئے بننے والے رشتوں میں پرانے یا بچھڑجانے والےرشتوں کو تلاش کرلیتے ہیں،مگر دنیا کا یک رشتہ اور ہستی ایسی ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں، وہ عظیم ہستی ہے ’’ماں‘‘، جس کی تعظیم دنیا کا ہر مذہب ومعاشرہ کرتاہے،ہر ماں میں ، جو بات یکساں ہوتی ہے، وہ اس کی اولاد کے لیے مامتا اور قربانی کے جذبات ہیں۔ ہماری زندگی کی پہلی سانس سے زندگی کی آخری سانس تک صرف اسی فکر میں رہتی ہے کہ اولاد کو کوئی ایذا نہ پہنچے، اس کے لبوں پر کبھی بد دعا نہیں ہوتی، خود فاقے کرتی ہے، مگر اپنے بچوں کو بھوکا نہیں سونے دیتی، اس کے دم سے گھر میں رونق ہے، اس کی وقعت و اہمیت کا اندازہ لگانا ہے، تو ان بچوں کو دیکھیں ، جن کے سر سے ماں کا سایہ اُٹھ گیا ہے۔
ایک ماں چاہے گھریلو خاتون ہو یا دفتر میں کام کرنے والی ورکنگ وومن ، اس کا دھیان ہر لمحہ ، ہر گھڑی بس اپنے بچوں میں لگا رہتا ہے، گویا اس کی ذات کا محور اولاد ہی ہوتی ہے۔ ’’بیٹا تم نے کچھ کھایا؟، کوچنگ جانے سے پہلے پانی پی کر گھر سے نکلنا، زیادہ تیز موٹر سائیکل مت چلانا، دیکھو پڑھائی کی ٹینشن میں بھوکی مت رہ جانا‘‘ یہ وہ جملے ہیں، جو ہر ماں کی زبان پر رہتے ہیں، ہم نے دفتر میں بھی دیکھا ہے، کام کے بیچ ، جب سر اُٹھانے کی فرصت نہیں ہوتی، خود کھانے کا ہوش نہیں ہوتا، اس وقت بھی ہمارے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو ان کے بچوں کی فکر اپنے حصار میں لیے رہتی ہے، دوسری طرف ہماری امی ، جو ایک گھریلو خاتون ہیں، وہ بھی اسی فکر میں رہتی ہیں کہ میری بیٹی نے کچھ کھایاکہ نہیں‘‘ یعنی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ماں چاہے کسی کمپنی کی سی ای او ہو یا گھریلو خاتون اس کے لیے اولاد سے بڑھ کر اور کوئی نہیں۔
لیکن کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ ، جو ماںاپنے بچے کو بولنا سکھاتی ہے، اس کی توتلی زبان سے نکلے ہوئے پہلے لفظ پر جھوم اُٹھتی ہے،کبھی سوچا ، وہی اولاد جوان ہو کر جب اس سے زبان درازی کرتی ہے، اس کے سامنے اونچی آواز میں بات کرتی ہے، اسے خاموش کرواکے اپنا فیصلہ اس پر صادر کرتی ہے، تو ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ جس اولاد کو وہ انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے، جب وہی اولاد اسے اولڈ ایج ہوم چھوڑ کر آتی ہے ، تواس کے دل پر کتنے خنجر چلتے ہوں گے۔ آئے روزاخبارات میں ایسے بہت سے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیںکہ بیٹے نےماں کو جائیداد کے لیے قتل کر دیا۔ بد نصیب اولاد ماں کو معاشی بوجھ سمجھ کر سڑکوں کے کناروں یا پھر اولڈ ایج ہومز میں چھوڑ جاتی ہے۔یہ کسی اور ملک کی نہیں ہمارے اپنے ملک کی کہانیاں ہیں ۔نسل نو کو چاہیے کہ تعلیم، ملازمت کے ساتھ ساتھ دن کاکچھ وقت ماں کے ساتھ ضرورگزاریں، جو دن رات صرف آپ ہی کے بارے میں سوچتی اوردعائیں کرتی ہے۔
ماں کے ساتھ میٹھے لہجے میں بات کریں ، اکثر نوجوان ماں ،باپ کی محنت اور محبت کو فراموش کردیتے ہیں ۔بعض نوجوان اپنے والدین کے اخراجات خوشی سے اُٹھاتے ہیں لیکن ان کے لیے وقت نہیں نکال پاتے ۔ اس مدرز ڈے یہ عہد کریں کہ ہر روزدن کا کچھ حصہ اپنی امی کے ساتھ ضرور گزاریں گے، جس میں صرف وہ اور آپ ہوں، ان سے دو گھڑی بات کریں، یقین جانیں دن کےچندلمحات ، جو وہ آپ کے ساتھ گزاریں گی،ان میں ایک نئی روح پھونک دیں گے،ا ن کی دن بھر کی ساری تھکن اُتار دیں گے۔
جتنا وقت اپنے دوستوں، سوشل میڈیا، ٹی وی اورموبائل گیمز وغیرہ پر صرف کرتے ہیں کیا اس کا ایک چوتھائی حصہ بھی ،اپنی ماں کونہیں دے سکتے؟ کیا دنیا سے کٹ کر چند گھڑیاں اپنی ماں کی نذر نہیںکرسکتے؟ ذرا سوچیںکیا کبھی سوشل میڈیا اور دوستوں سے ہٹ کر اپنے معاملات اپنی ماں سے بھی شیئر کرتے ہیں؟ کیا اپنی مصروفیت میں سے ان کے لیے اسی طرح وقت نکالتے ہیں، جس طرح دوستوں یا دیگر سرگرمیوں کے لیے نکالتے ہیں۔
یاد رکھیں،دنیا میں ماں کے سوا کوئی سچا اور مخلص رشتہ نہیں ہے ، وہ ایک پیاری شفیق اور بے لوث محبت کرنے والی عظیم ترین ہستی ہے، جس کی شفقت اورمحبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر ہم دنیا کے تمام دکھ درد بھول جاتے ہیں، چاہے، دنیا کا ہر انسان روٹھ جائے، مگر اسے کبھی مت روٹھنے دیجیے گا، اسے منانے میں کبھی دیر نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ جن گھروں سے مائیں روٹھ جاتی ہیں، وہ ویران ہوجاتے ہیں، اپنے بچوںکی تکلیف بنا کہے کوئی سمجھنے والا نہیں ہوتا، بنا بات کے کوئی دعائیں دینے والا نہیں ہوتا۔
عا م طور پر کہا جاتا ہے کہ مدرز یا فادرز ڈے مغربی تہذیب کا حصہ ہیں ،ان کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ، لیکن ایک بار ذرا سوچیےکہ اولڈ ہاوس تو ہمارے ملک میں بھی بن رہے ہیں اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اگر ذرا تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو نظر آئے گاکہ ہمارے خاندانوںکی اکثریت میں بھی ضعیف والدین کے ساتھ کیسا سلوک برتا جاتا ہے ۔نوجوان نسل پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کا خیال رکھیں۔ اُن کی ضرورتوں کو سمجھیں۔