• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ) کے زیراہتمام ’’ماں کا دودھ غذا بھی،شفا بھی اور حکم خدا بھی‘‘ کے موضوع پر بڑا سیرحاصل پبلک ہیلتھ سیمینار منعقد ہوا جس میں پاکستان اور امریکہ سے بھی ڈاکٹر شریک ہوئے۔
پاکستان کے مایہ ناز فزیشن پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود نے کہا کہ ’’دنیا کے تمام مہذب ممالک میں صحت کے میدان میں خوشگوار تبدیلی بیماریوں کے علاج سے نہیں بلکہ بیماریوں سے احتیاط سے آئی ہے اور اگر ماں صحت مند ہوگی تو بچہ بھی صحت مند ہوگا ہمارے ملک میں مائوںمیں بچوں کو اپنا دودھ پلانے کا رجحان بہت کم ہے۔ ڈبے کے دودھ کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ پھر غریب لوگ اپنے بچوں کو گائے، بھینس اور بکری کا دودھ پلاتے ہیں یہ بات ذہن میں رکھیں گائے، بھینس کا دودھ قدرت نے ان کےبچوں کے لئے بنایا ہے۔ ہمارے ملک میں پہلے چھ ماہ میں بچے کو 87000 روپے کا ڈبے کا دودھ پلایا جاتا ہے جو کسی طور پر بھی ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں، ماں کے دودھ میں دو سو ایسے اجزا ہوتے ہیں جو بچے کی نشوونما کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا غریب ماں باپ اپنے بچے کو دو سال تک ڈبے کا دودھ پلا سکتے ہیں؟ اس وقت ڈبے کے دودھ کی قیمت 700روپے ہے اور ہر تین چار دن کے بعد بچے کے لئے ڈبے کا دودھ خریدنا ہوتا ہے چنانچہ پھر غریب ماں باپ کیا کرتے ہیں کہ ڈبے کے دودھ میں کبھی زیادہ پانی، کبھی شربت اور کبھی کوئی سفید کولا ملا کر پلا دیتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جو بچے ڈبے کادودھ پی کر بڑے ہوتے ہیں ان میں دماغ کی گروتھ کم ہو جاتی ہے ان کے آئی کیو پوائنٹ سات سے دس کم ہوجاتے ہیں۔ ان بچوں کے قد بھی کم ہوتے ہیں البتہ جسم چوڑا ضرور ہو سکتا ہے۔ بقول ڈاکٹر فیصل مسعود ’’پاکستان میں Stunting of Growth 44فیصد ہے۔‘‘
امریکہ سے آئی ہوئی ڈاکٹر عائشہ نجیب نے کہا کہ آنے والے تیس برسوں میں پاکستان کی آدھی نسل Stunted ہو چکی ہوگی۔ نہ دماغ ہوگا اور نہ قد ہوگا ۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔‘‘
اب ہمیں سمجھ آئی کہ ہمارے ووٹرز قیمے والے نان کھا کر ایسے لوگوں کو ووٹ کیوں دیتے ہیں جو ملک کو لوٹتے ہیں۔ ڈبے کا دودھ یا پھر گائے، بھینس کا دودھ پی کر ان کا آئی کیو لیول کم ہو جاتا ہے اور پھر وہ سیاسی لیڈر کے طلسم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر آئی کیو لیول اور دماغ ہو تو کبھی بھی جھوٹے اور مکار سیاست دانوں کو منتخب نہ کریں۔ بڑے میاں صاحب یہ تو بہت فرماتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو، ہم کہتے ہیں ووٹر کو عزت دو، ووٹ اپنے آپ تو ڈبے میں نہیں آ جائے گا۔ آخر اس کو جو فرد ڈبے میںڈالے گا اس کی عزت ہونی چاہئے۔ اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کو پہلے چھ ماہ صرف اور صرف ماں کا دودھ دیا جائے۔ حتیٰ کہ ان پہلے چھ ماہ میں پانی تک بھی نہ دیا جائے۔ ماں کے دودھ میں پانی موجود ہوتا ہے۔ ہم ڈی ایچ اے کے ایک میڈیکل اسٹور پر گئے اس میڈیکل اسٹور کی دس بارہ مزید برانچیں ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ہر ماہ ڈبے کے دودھ کی سیل کتنی ہوتی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ پچاس ساٹھ ہزار روپے کی سیل ہوگی مگر وہاں کے سیل مین نے بتایا کہ صرف ڈبے کے دودھ کی ماہانہ سیل تین لاکھ روپے سے اوپر ہے اور ڈبے کے دودھ کی قیمت کم از کم سات سو روپے اور زیادہ سے زیادہ 1500روپے ہے۔ ذرا دیر کو سوچیں پاکستان میں روزانہ کئی کروڑروپے کے ڈبے کے دودھ کی سیل ہے اور ڈبے کا دودھ بنانے والی کمپنیاں سالانہ کئی ارب روپے کماتی ہیں، تب ہی تو وہ بچوں کے ڈاکٹروں پر نوازشات کی بھرمار کرتی ہیں۔ کئی بچوں کے ڈاکٹرز باقاعدہ لکھ کر یا زبانی بتاتے ہیں کہ فلاں کمپنی کا دودھ ہی خریدا جائے۔ بچوں کے ڈاکٹرز ایسی کرپشن کر رہے ہیں جس کا ثبوت نہیں مل سکتا۔ بچوں کے ڈاکٹروں کی ایک خاصی بڑی تعداد ہر سال غیر ملکی دوروں پر جاتی ہے ان کی سالانہ کانفرنسوں پر ڈبے کا دودھ بنانے والی کمپنیاں کروڑوں روپے خرچ کرتی ہیں کیونکہ اربوں اور کھربوں روپے کی آمدنی صرف اور صرف ان بچوں کے ڈاکٹروں کی ’’مہربانی‘‘ سے ہوتی ہے، بدلے میں کمپنیاں بھی اس مہربانی کا پورا پورا بدلہ چکاتی ہیں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کیا ہمارے غریب لوگ بچے کے دودھ کی بوتل کو اس طرح جراثیم سے پاک اور صاف ستھرےطریقے سے دودھ بنا پاتے ہوںگے؟ کبھی بھی نہیں۔ بعض گھرانوں میں ایک ہی فیڈر کو کئی مرتبہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے بچے اسہال اور انتڑیوں کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں انہیں دست اور پیچش لگ جاتی ہے اور کئی بچے فوت ہو جاتے ہیں۔
پنجاب حکومت کا محکمہ پی ایس پی یو اس حوالے سے قابل قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ سیکرٹری صحت علی جان خان اور ڈائریکٹر فاطمہ شیخ اور ان کی ٹیم لوگوں کو ماں کے دودھ کی اہمیت کے بارے میں شعور اور آگاہی دینے کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ اب تو امریکہ اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی ماں کے دودھ کی افادیت کو نہ صرف تسلیم کر چکے ہیں بلکہ وہاں بھی اس قسم کی مہم چلائی جاتی ہے کہ مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں۔
پاکستان جہاں پرانفیکشن ریٹ بہت زیادہ ہے وہاں پر اگر ایسی نسل پیدا ہوگی جو کمزور ہوگی تو وہ آگے چل کر اپنے آپ کو بیماریوں اور انفیکشن سے محفوظ نہیں رکھ سکے گی اور یہی وجہ ہے کہ آج تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالز مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہر جانور کا دودھ اس کے اپنے بچے کے لئے قدرت نے بنایا ہے۔
پاکستان کا شمار اب ان ممالک میں ہونے لگا ہے جہاں پر بچوں کو بہت کم فیڈنگ کرائی جاتی ہے ہر ماں ڈبے پر خوبصورت بچے کی تصویر دیکھ کر یہ سمجھتی ہے کہ اس کا بچہ یہ ڈبے کا دودھ پی کر ایسا ہی ہو جائےگا حالانکہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ حکومت نے یہ بڑا اچھا قدم اٹھایا کہ تمام سرکاری اسپتالوں میں ڈبے کے دودھ کی پبلسٹی پر پابندی لگا دی ہے اور بریسٹ فیڈنگ پر رولز 2017کا اطلاق کردیا ہے۔
آج بل گیٹس بھی ماں کے دودھ کی افادیت پر بات کر رہا ہے بلکہ برطانیہ کی بہو نے اپنے تینوں بچوں کو بریسٹ فیڈنگ کرائی ہے۔ حکومت پنجاب نے بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے رولز 2017 بنائے ہیں۔ ان قوانین کے تحت اگر کوئی ڈاکٹر کسی ماں کو ڈبے کا دودھ لکھ کردے گا تو اس کا لائسنس کینسل کردیا جائےگا۔ اس طرح اگر کوئی نان ڈاکٹر ڈبے کا دودھ لکھ کر دے گا تو اس کو پچاس ہزار روپے جرمانہ ہوگا اور اگر کوئی کمپنی اپنے ڈبے کے دودھ کی تشہیر اسپتالوں میں کرے گی تو اس کمپنی کو ایک لاکھ روپے جرمانہ یا قید یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
بچوں کی زندگی میں دو مرتبہ نشوونما ہوتی ہے پیدائش سے پانچ سال تک اور دوسری مرتبہ گروتھ بارہ سے اٹھارہ سال کی عمر میں ہوتی ہے اس دوران آئرن کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں تقریباً ہر عورت خون کی کمی کا شکار ہے کیونکہ وہ بار بار بچے پیدا کرتی ہے اور خود ماں نےبھی اپنی پیدائش کے وقت اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا ہوتا۔ ایک کمزور ماں جب کمزور بچوں کو جنم دیتی ہے تو بہت مشکل ہے کہ وہ بچہ زندگی میں بیماریوں سے محفوظ رہے اور زندگی کی بہاریں بھی دیکھ سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین