• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فنکار معاشرتی اقدار کے سفیر ہوتے ہیں

فنکار کا کام محض اپنے فن کا اظہار کرنا نہیں ہوتا بلکہ فنکار اپنے فن اور شخصیت کے ذریعہ سے معاشرے تک وہ پیغامات بھی پہنچاتا ہے جو کہ معاشرتی اقدار پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ فنون لطیفہ کے تمام مظاہر درحقیقت انسانی حس جمالیات کا اظہار ہیں۔ انسان حساس مخلوق ہے۔ ماحول اور اس میں ہونے والے واقعات انسان کے قلب و ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انسان ان اثرات کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق دوسرے انسانوں تک مختلف ابلاغ کے ذرائع کے ذریعہ سے پہنچاتا ہے۔ ابلاغ کا یہ کام اس وقت مزید دلکش، دلچسپ اور حسین بن جاتا ہے جب اس کو فنون لطیفہ میسر آتا ہے۔ 

انسانی معاشروں کا فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اور اس کی کیا اہمیت رہی ہے؟ یہ موضوع ایک الگ تحریر کا متقاضی ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فنون لطیفہ سے وابستہ مرد اور خواتین کو اپنے معاشروں میں مقام بنانے اور دوسرے طبقات کے ساتھ یکساں حیثیت منوانے کے لیے ہمیشہ ہی جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ ابلاغ کے موجودہ ذرائع کی مقبولیت اور ان تک عوامی رسائی سے قبل یہ جدوجہد ایک واضح اور مسلمہ حقیقت تھی۔ موجودہ ذرائع ابلاغ کی ترقی نے فنون لطیفہ کی معاشروں میں مقبولیت اور نفوذ پزیری کے لیے بیش بہا مواقع مہیا کیے ہیں۔ 

ان مواقع کو استعمال کرتے ہوئے فنون لطیفہ سے وابستہ افراد نے معاشروں میں اہم اور مقبول مقام حاصل کیا۔ آج کے اطلاعات کے دور میں تفریح حاصل کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ سب سے اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ تفریح کا حصول فنون لطیفہ کی ترقی و ترویج سے وابستہ ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ تفریح کی صنعت کا شمار آج دنیا کی بڑی صنعتوں میں ہوتا ہے۔ اس حقیقت نے فنکاروں کی معاشی حالت کو بھی سنوار دیا ہے۔

جدید دنیا میں ہونے والی اس پیش رفت کے باعث فنون لطیفہ جس میں پرفارمنگ آرٹ ایک اہم شعبہ ہے اس سے وابستہ مرد اور خواتین محض آرٹسٹ نہیں رہے بلکہ وہ سیلیبریٹی کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ فنکار اب معاشروں میں رائے سازی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔چونکہ ذرائع ابلاغ انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں سرائیت کر چکے ہیں اس لیے ان ابلاغی ذریعو ں سے معاشرے اپنی اقدار کو جاننے، اپنانے اور ترویج دینے کا کام بھی لے رہے ہیں۔ ان حقائق نے شوبز سے وابستہ افراد پر بھاری ذمہ داری عائد کر دی ہے۔ فنکار اب محض فنکار نہیں رہے بلکہ وہ معاشرتی و ثقافتی سفیر کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ شائقین فنکاروں کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ شائقین نہ صرف ان فنکاروں کی پروفیشنل زندگی سے باخبر رہتے ہیں بلکہ ان کی نجی زندگی کے حالات پر بھی ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کی ترقی نے ان رجحانات کو مزید تقویت بخشی ہے۔

اگر ان رجحانات کے تناظر میں پاکستانی شوبز کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے اب بھی پاکستانی معاشرے میں شوبز سے وابستہ ہونا اور اس میں مقام بنانا ایک مشکل کام ہے۔ آج سے کچھ برس قبل تک شوبز سے وابستہ ہونا صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود تھا۔ اس حوالے سے صرف چند مثالیں ہی ایسی موجود ہیں جو کہ فنکار گھرانہ سے تعلق نہ ہونے کے باوجود شوبز میں آئے اور اپنا مقام بنایا۔ پاکستان میں ابلاغ عامہ کے ذرائع کی ترقی نے اس رجحان کو تبدیل کیا اور معاشرے کے تمام طبقات سے وابستہ مردوخواتین شوبز کی مختلف اصناف میں قسمت آزمائی کرنے لگے اور انہوں نے اس کی مختلف اصناف میں اپنا نام اور مقام بھی بنایا۔

اس رجحان کے تبدیل ہونے کی وجوہات میں معاشرتی وثقافتی تبدیلیاں، گلوبلائزیشن، میڈیا کی پاکستان میں ترقی، شوبز سے وابستہ افراد کی معاشی حالات میں بہتری اور تعلیمی رجحانات ہیں۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ شوبز کے دروازے معاشرے کے تمام قابل مرد و خواتین کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ اس وقت شوبز کی تمام اصناف جن میں اداکاری، گلوکاری، ماڈلنگ، تخلیق کاری کے لیے تکنیکی میدان، فیشن اور دیگر شعبہ جات شامل ہیں ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں سے مرد و خواتین موجود ہیں۔ 

ان افراد کی شوبز میں موجودگی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پاکستانی معاشرے میں رائج اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کریں۔ وہ ثقافتی میدان میں پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نبٹنے کے لیے تیار کریں۔ ان افراد پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ شوبز میں آنے کے خواہش مند نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے شوبز کے ماحول کو سازگار بنائیں۔

پاکستان میں ان حوالوں سے نئے رجحانات کو فروغ مل رہا تھا کہ چند ہفتے پہلے گلوکارہ میشا شفیع نے اداکار وگلوکار علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کے الزامات عائد کر دیے۔ علی ظفر نے میشا شفیع کے تمام الزامات کی تردید کی ہے اور انہوں نے اپنے وکیل کی مدد سے ان الزامات کے حوالے سے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ یہ معاملہ اب عدالت میں زیر غور ہے۔ پاکستان میں شوبز سے دلچسپی اور تعلق رکھنے والا ہر شخص اس معاملے کے منطقی انجام کا منتظر ہے۔ میشا شفیع اور علی ظفر کے حوالے سے اس اسکینڈل کے پاکستانی معاشرے اور ثقافت پر دورس نتائج مرتب ہوں گے۔ دونوں فنکار پاکستانی شوبز کے جدید طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ علی ظفر کا گھرانہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ خود علی ظفر پاکستان کے مشہور فائن آرٹ کے تعلیمی ادارہ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں۔ 

علی ظفر بالی وڈ میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔ علی ظفر کا فنی سفر محنت سے عبارت ہے۔ علی ایک ملٹی ٹیلنٹد انسان ہے۔ علی اداکارکے علاوہ، گلوکار، موسیقار اور مصور بھی ہے۔ علی ظفر کا فنی سفر اس وقت عروج پر ہے۔ حال ہی میں منعقد ہونے والی کرکٹ لیگ پی ایس ایل میں ان کے گائے جانے والے نغمہ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ علی ظفر کی پہلی پاکستانی فلم طیفا ان ٹربل کا بھی فلمی شائقین کو شدت سے انتظار ہے۔ اسی طرح میشا شفیع کا تعلق ایک فنکار گھرانہ سے ہے۔ میشا کے دادا عنایت حسین بھٹی کا شمار لولی وڈ کے معماروں میں سے ہوتا ہے۔ گلوکاری کے علاوہ میشا میرا نائر کی فلم دا ریلکٹنٹ فنڈامینٹلیسٹ میں اداکاری بھی کر چکی ہیں۔

جنسی ہراساں کرنے کے اس معاملہ نے پاکستانی شوبز انڈسٹری میں پنڈورا باکس کھلنے کی کیفیت سی طاری کر دی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں شوبز انڈسٹری میں جنسی ہراساں کرنے کے خلاف مہم کا آغاز اکتوبر2017میں ہالی وڈ سے شروع کی جانے والی تحریک می ٹو سے ہوا جب میرا میکس کے پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن پر ہالی وڈ کی اداکارائوں نے جنسی ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے۔ اس کے بعد می ٹو کا ہیش ٹیگ پوری دنیا میں مشہور ہو گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ می ٹو کی مہم کی حقیقت کو اصل معنوں میں جانا جائے۔ پاکستانی معاشرے میں عورت کو عزت کا مقام حاصل ہے۔ پاکستانی معاشرہ تبدیلی کی جانب گامزن ہے۔ اس میں مثبت رجحانات فروغ پارہے ہیں۔ ان رجحانات کی ترویج میں شوبز سے وابستہ افراد اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ علی ظفر اور میشا کے معاملہ سے مثبت ثقافتی سرگرمیوں پر اثر پڑے گا اور ثقافتی ترقی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین