• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا کی جوہری معاہدے سے علیحدگی، نئے اندیشے سَر اُٹھانے لگے

امریکا کی جوہری معاہدے سے علیحدگی، نئے اندیشے سَر اُٹھانے لگے
جوہری معاہدے سے امریکا کی علیحدگی کے اعلان کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ فیصلے کی صدارتی دستاویز دکھا رہے ہیں

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا فیصلہ سُنا دیا ۔ امریکا، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 3برس قبل ہونے والے جوہری معاہدے سے دست بردار ہو گیا۔ تاہم، نیوکلیئر ڈِیل ہنوز برقرار ہے، کیوں کہ باقی پانچ ممالک نے اس معاہدے پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ جولائی 2015ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس، رُوس، چین اور جرمنی نے، جنہیںپی 1+5ممالک بھی کہا جاتا ہے، جوہری معاہدے پر دست خط کیے تھے، جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر 15برس کے لیے پابندیاں قبول کیں اور اس کے بدلے اس پر عاید اقتصادی پابندیوں کو نرم کیا گیا۔ 10مئی کو ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکا جوہری معاہدے سے دست بردار ہو رہا ہے اور اب ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیاں عاید کی جائیں گی۔ 

اس موقعے پر امریکا کے اتحادی ممالک، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے معاہدہ برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ٹرمپ کے اعلان پر ایرانی صدر، حسن روحانی نے ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’جوہری معاہدہ ایران اور باقی 5ممالک کے درمیان ہے۔ ہم کسی فیصلے کا اعلان کرنے سے قبل یورپی ممالک، چین اور رُوس سے بات چیت کریں گے۔‘‘ تاہم، سعودی عرب اور اسرائیل نے اس امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جوہری معاہدے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتّب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ مثال کے طور پر ایران اور عرب ممالک کے درمیان خلیج بڑھنے لگی۔ رُوس کی شام میں فوجی مداخلت کے نتیجے میں بشار الاسد ہاری ہوئی بازی جیتنے لگے، جنہیں ایرانی فوج اور اس کی حمایت یافتہ ملیشیاز کی معاونت بھی حاصل تھی۔ نیز، یمن کا تنازع بھی شدّت اختیار کر گیا، مگر ٹرمپ کے اعلان کے نتیجے میں بھی یہ اندیشے سَر اُٹھانے لگے ہیں کہ کیا ایران دوبارہ یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کرے گا؟ کیا مشرقِ وسطیٰ کسی نئے تصادم کی طرف بڑھے گا؟ اور کیا امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان ٹکرائو ہونے جارہا ہے؟

گرچہ ایران ہمیشہ اس بات پر مُصر رہا کہ اس کا جوہری پروگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے، لیکن عالمی طاقتیں اسے خطّے اور دُنیا کے لیے خطرناک کہتی رہیں اور آج سے 3برس قبل ہونے والے جوہری معاہدے میں ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر بہت سی پابندیاں قبول کیں۔ مذکورہ معاہدے کے نکات یہ ہیں۔ ایران یورینیم کو 5فی صد سے زیادہ افزودہ نہیں کرے گا اور درمیانے درجے کی افزودہ یورینیم کو ناکارہ بنائے گا۔ آرک کے مقام پر واقع بھاری پانی کے پلانٹ پر کام روک دیا جائے گا۔ جوہری ہتھیاروں کی چھان بین کرنے والے عالمی ادارے کو معاینے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ننتاز اور فردو کے پلانٹس تک رسائی دی جائے گی۔ ان اقدامات کے بدلے میں 6ماہ تک ایران پر نئی پابندیاں عاید نہیں کی جائیں گی۔ قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں عاید پابندیاں معطل کر دی جائیں گی اور تیل کی فروخت کی موجودہ حد برقرار رہے گی، جس سے ایران کو 4 ارب 20کروڑ ڈالرز کا زرِ مبادلہ حاصل ہو گا۔

امریکا کی جوہری معاہدے سے علیحدگی، نئے اندیشے سَر اُٹھانے لگے

ٹرمپ نے اپنا فیصلہ سُناتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدے کا مقصد امریکا، اس کے اتحادیوں اور دُنیا کو ایران کے جوہری پروگرام سے محفوظ کرنا تھا، لیکن یہ مقصد پورا نہیں ہوا، بلکہ اس کی بہ جائے ایران کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی کُھلی چُھوٹ مل گئی، جب کہ ٹرمپ کے ناقدین کا ماننا ہے کہ نیوکلیئر ڈِیل سے امریکا کی دست برداری، ٹرمپ کا انتخابی وعدہ تھا۔ ٹرمپ اپنی پوری انتخابی مُہم کے دوران اور صدر بننے کے بعد بھی اسے ’’بد ترین معاہدہ‘‘ قرار دیتے رہے۔ آج سے 6ماہ قبل معاہدے کی تجدید کرتے وقت انہوں نے اپنے یورپی اتحادیوں اور رُوس اور چین پر یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر ان کی مرضی کے مطابق معاہدے میں ترامیم نہیں کی گئیں، تو وہ اس سے دست بردار ہو جائیں گے، جس پر انہوں نے گزشتہ دِنوں عمل کر دکھایا۔ تاہم، ناقدین کا ماننا ہے کہ اس فیصلے کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں یورپی ممالک کا استدلال ہے کہ آئی اے ای اے کے مطابق ایران جوہری معاہدے کی پابندی کر رہا ہے۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گرچہ یہ ایک کامل معاہدہ نہیں ہے، لیکن فی الوقت اس کے مطلوبہ نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔ 

یعنی اس ڈِیل کے بعد ایران نے نہ صرف اپنا جوہری پروگرام روک دیا ہے، بلکہ وہ اپنے ایٹمی پلانٹس کی چھان بین کروانے پر بھی مجبور ہو چُکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی صدر، حسن روحانی نے ٹرمپ کے اعلان پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب ایران کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی گئی، تو پھر اس میں ترامیم کا مطالبہ ناانصافی اور بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایرانی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایرانی عوام کو اقتصادی پابندیوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ ان کی پیش بندی کر لی گئی ہے۔

ناقدین کے مطابق، ٹرمپ نے جلد بازی میں نیوکلیئر ڈِیل سے دست بردار ہونے اور ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کا فیصلہ تو کر دیا، لیکن ان کے پاس اس جوہری معاہدے کا کوئی متبادل نہیں ہے اور’’ پلان بی‘‘ وضع کرنے تک امریکا کو معاہدے میں اپنی شمولیت برقرار رکھنی چاہیے تھی۔ قبل ازیں، اپریل کے وسط سے لے کر مئی کے اوائل تک فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے رہنمائوں نے واشنگٹن کے دورے کر کے امریکی صدر کو معاہدے سے متعلق اپنا فیصلہ مٔوخر کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ٹرمپ نے اُن کی ایک نہ سُنی۔ واضح رہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اس سے قبل ٹرمپ موسمیاتی تبدیلیوں اور ٹرانس پیسیفک ٹریڈ معاہدے سے بھی علیحدگی اختیار کر چُکے ہیں۔ نیز، ٹرمپ کی جانب سے کئی تجارتی مصنوعات پر ٹیکس عاید کرنے کے فیصلے کو بھی یورپ میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور یورپی ممالک نے امریکی سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے خلاف اقوامِ متحدہ میں پیش کی گئی قرار داد کی بھی حمایت کی تھی۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ ’’امریکا فرسٹ‘‘ کے نعرے کے تحت یہ تمام اقدامات کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ اپنی انتخابی مُہم کے دوران ٹرمپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا کی عظمتِ رفتہ بحال کریں گے۔ 

امریکا کی جوہری معاہدے سے علیحدگی، نئے اندیشے سَر اُٹھانے لگے
ایرانی صدر، حسن روحانی

اس ضمن میں ٹرمپ کے حامیوں کا مٔوقف ہے کہ ایسے اقدامات پر منفی ردِ عمل کا اظہار دُرست نہیں۔ وہ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ آخر رُوسی صدر، پیوٹن بھی تو اسی ایجنڈے پرعمل پیرا ہیں اور انہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران کئی مرتبہ یورپ کے مفادات کو شدید زِک پہنچائی۔ اس سلسلے میں چینی صدر، شی جِن پِنگ کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے، جو ایک قوم پرست رہنما کے طور پر اپنے مُلک کو سُپر پاور بنانے کے منشور پر بڑی کام یابی سے عمل پیرا ہیں۔ اپنی انتخابی مُہم کے دوران ٹرمپ کا یہ کہنا تھا کہ گزشتہ برسوں کے دوران دیگر ممالک کے ساتھ کیے گئے تجارتی معاہدوں سے امریکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور امریکی عوام پر بھی اس کے منفی اثرات مرتّب ہوئے۔ چُوں کہ ٹرمپ اپنے اسی مٔوقف کی بنیاد پر صدر منتخب ہوئے ہیں، لہٰذا وہ ایک ایک کر کے اپنے ووٹرز سے کیے گئے سارے وعدے پورے کر رہے ہیں، لیکن مبصّرین یہ اعتراض اُٹھاتے ہیں کہ سُپر پاور ہونے کے ناتے امریکی اقدامات کے اثرات پوری دُنیا پر مرتّب ہوتے ہیں اور اگر ٹرمپ نے احتیاط کا دامن چھوڑا، تو جنگ کے خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔

ٹرمپ نے 15برس بعد یعنی معاہدے کی مدّت ختم ہونے کے بعد کی صورتِ حال، ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے بڑھتے کردار پر اعتراضات اُٹھائے ہیں۔ گرچہ یورپی ممالک بھی ان خدشات سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن وہ معاہدے کو برقرار بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات دُرست ہے کہ ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام جاری ہے، لیکن تہران کا دعویٰ ہے کہ اس کا تعلق ہتھیار لے جانے سے نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق، گزشتہ دو ماہ سے ایرانی صدر کی سفارت کاری کا محور یورپ رہا ہے۔ شاید شمالی کوریا کے معاملے میں ہونے والی پیش رفت سے انہیں یہ امید ہو چلی تھی کہ یورپی ممالک ٹرمپ کو معاہدے کی تجدید پر آمادہ کر لیں گے، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور امریکا معاہدے سے دست بردار ہو گیا۔ امریکا کی جانب سے ایران پر دوبارہ عاید کی گئی اقتصادی پابندیوں کا اطلاق 180دنوں کے درمیان ہو گا۔

اگر دیکھا جائے، تو اس جوہری معاہدےکے یورپ پر اثرات مرتّب نہیں ہوتے، الاّ یہ کہ ایران، مشرقِ وسطیٰ میں کوئی پیش قدمی کرتا ہے۔ البتہ اس ڈِیل کے نتیجے میں اسرائیل اور عرب ممالک کے مفادات پر ضرب پڑی تھی اور پھر معاہدہ کرتے وقت ان ممالک کو اعتماد میں لینے تک کی زحمت گوارا نہیں کی گئی، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل بھی ایٹمی طاقت کا حامل مُلک ہے اور اس کے یورپ، رُوس اور چین سے بہترین تعلقات ہیں۔ لہٰذا، وہ اس معاہدے سے زیادہ متاثر نہیں ہوا۔پھر اسرائیل گزشتہ 6ماہ سے شام میں موجود ایران کے فوجی اڈّوں پر مسلسل میزائل برسا رہا ہے اور اس پر تمام عالمی طاقتیں خاموش ہیں، لیکن شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں پورا مشرقِ وسطیٰ ایک آتش فشاں کی صورت اختیار کر چُکا ہے، جو کسی بھی وقت پَھٹ سکتا ہے۔ 

نیوکلیئر ڈِیل کے بعد ایران اور رُوس نے شام میں فتوحات حاصل کرنے اور شامی عوام کو کچلنے کے لیے جس انداز میں بشار انتظامیہ کی مدد کی، اس کے نتیجے میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اوباما نے ڈِیل کر کے ایران کو پیش قدمی کا موقع فراہم کیا۔ دوم، عربوں کو یہ محسوس ہوا کہ مشرقِ وسطیٰ میں وہ ثانوی حیثیت اختیار کر جائیں گے کہ 15برس بعد جب یہ معاہدہ غیر مٔوثر ہو گا، تو تب تک ایران اقتصادی طور پر مضبوط ہو چُکا ہو گا اور ساتھ ہی یورینیم افزودگی کی پابندیوں سے بھی آزاد ہو گا۔ ناقدین کے مطابق، عالمی طاقتوں، بالخصوص ایرانی صدر کو اختلافات و تنازعات کو طول دینے اور شام کی خانہ جنگی میں ملوّث ہونے کی بہ جائے ان تمام خدشات پر توجّہ دینی چاہیے تھی اور معاملات کو سُلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والی نیوکلیئر ڈِیل کے سلسلے میں سابق امریکی صدر، باراک اوباما کے کردار کو خاصا سراہا جاتا ہے، لیکن انہی کے دَور میں شام اور یمن میں خوں ریزی شروع ہوئی اور اسی زمانے میں امریکا کو عراق میں فوجی مداخلت کرنا پڑی۔ 

امریکا، اس کے اتحادیوں اور رُوس اور چین نے جوہری معاہدہ کر کے اقوامِ عالم کی ستائش تو حاصل کر لی، لیکن اس ڈِیل سے براہِ راست متاثر ہونے والے ممالک کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جوہری معاہدے کے تناظر میں ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب ایران اور امریکا جیسے دشمن ممالک کے رہنما مذاکرات کے ذریعے کسی ڈِیل تک پہنچ سکتے ہیں، تو سعودی عرب اور ایران کے درمیان پائی جانے والی خلیج پاٹنے میں کیا اَمر مانع ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا، تو خطّے میں پائے جانے والے اختلافات، تنازعات خود ہی دَم توڑ جاتے، خوں ریزی کا سلسلہ رُک جاتا اور مہاجرین کا طوفان تھم جاتا۔

تازہ ترین