زمانہ طالب علمی میں تھا اور ایک دن اپنے اسکول سے گھر لوٹ رہا تھا تو راستہ میں کچھ لوگ موٹرسائیکلوں پر نعرہ لگاتے ہوئے قریب سے گزرے جن کا نعرہ’’اسمبلی میں لازمی- جاوید ہاشمی،جاوید ہاشمی‘‘ تھا ۔ 1993ء میں جاوید ہاشمی نے ملتان میں اپنی آبائی نشست پر شاہ محمود قریشی کے مقابلے میں شکست کا سامنا کیا تھا تب مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ انہیں لاہور سے ضمنی الیکشن میں کامیاب کرایا جائے تاکہ پارلیمنٹ میں وہ پارٹی کی نمائندگی کرسکیں۔ میرا آبائی گھر جہاں واقع ہے وہاں پر میاں شہباز شریف قومی اور صوبائی دونوں سیٹوں پر فتح یاب ہوئے تھے تب انہوں نے پارٹی صدر میاں نواز شریف کی ہدایت پر قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی اور یہاں سے جاوید ہاشمی کو کامیاب کرایا گیا۔ ان دنوں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور دیگر پارٹی رہنمائوں کا اس بات پر پختہ یقین اور اتفاق تھا کہ جاوید ہاشمی کا اسمبلی میں آنا لازمی اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ضمنی الیکشن میں جاوید ہاشمی توقعات کے مطابق بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے اور قومی اسمبلی میں پہنچنے کیلئے تمام رکاوٹیں پار کرگئے۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو طیارہ ہائی جیک کیس بنا کر ان کے اقتدار کا خاتمہ کردیا تب جاوید ہاشمی ہی وہ واحد سیاستدان تھے جنہوں نے بیگم کلثوم نواز کا بھرپور انداز میں ساتھ دیا ان دنوں چوہدری نثار سمیت بہت سے مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما گوشہ نشین ہوچکے تھے یا پھر انہوں نے خود ساختہ نظربندی اختیار کرلی تھی۔ چوہدری برادران کے ساتھ بلاشبہ شریف خاندان نے وعدہ خلافی کی تھی جبکہ میاں نواز شریف نے چوہدری شجاعت حسین سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وزارت اعلیٰ کیلئے چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کریں گے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 1997ء کے عام انتخابات سے پہلے شریف خاندان نے چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ وزارت اعلیٰ دینے کا وعدہ کیا تھا مگر ملک بھر میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ وعدہ وفا نہ ہوا جبکہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چوہدری شجاعت حسین ، نواز شریف کی والدہ کو اپنی والدہ سمجھتے تھے اور انہیں اپنی والدہ جیسی ہی عزت اور احترام دیا کرتے تھے اور میاں نواز شریف بھی چوہدری شجاعت حسین کی والدہ کو اپنی والدہ قرار دیا کرتے تھے۔ وعدہ خلافی کے حوالہ سے میاں نواز شریف کا موقف یہ تھا کہ ان کے والد میاں محمد شریف کا کہنا ہے کہ غلام حیدر وائیں کو وزیراعلیٰ بنانے کا تجربہ بہت زیادہ کامیاب نہیں ہواتھا اس لیے میاں شہباز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ شریف خاندان کی جلا وطنی کے بعد مسلم لیگ (ن) کا عَلم جاوید ہاشمی کے سپرد کیا گیاانہوں نے انتہائی خلوص نیت اورذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا ۔ جاوید ہاشمی پارٹی کے موقف پر ڈٹے رہے جس کے نتیجہ میں پرویز مشرف نے ان پر غداری کا جعلی مقدمہ بنا کر انہیں 5 سال کیلئے جیل میں ڈال دیا۔ شریف خاندان نے بھی جاوید ہاشمی اور ان کے اہلخانہ کا پوری طرح خیال رکھا اور جاوید ہاشمی کیلئے جیل میں کھانا روزانہ کی بنیاد پر شریف خاندان کے گھر سے تیار کرکے بھجوایا جاتا تھا۔ شریف خاندان کی وطن واپسی کے بعد جاوید ہاشمی اور شریف خاندان کے درمیان اختلافات اس وقت شروع ہوئے جب میاں نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان کو اہمیت دینا شروع کردی تھی اور 2008ء کے انتخابات کے بعد چوہدری نثار علی خان کو قومی اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر بھی بنایا گیا تھا۔ان دنوں میاں نوا ز شریف سمیت شریف خاندان نے جاوید ہاشمی کو اہمیت نہیں دی اور ان کی قربانیوں کو فراموش کردیا گیا جبکہ اپوزیشن لیڈر نامزد ہونے کے زیادہ حقدار جاوید ہاشمی ہی تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے جاوید ہاشمی سے اہم فیصلوں میں مشاورت لینا بھی چھوڑ دی اس تمام تر صورتحال کو بھانپتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے بہنوئی حفیظ اللہ نیازی سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ انہیں کسی بھی قیمت پر جاوید ہاشمی کو اپنی جماعت میں شامل کرنا ہے کیونکہ وہ ایک بااثر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ جاوید ہاشمی اور حفیظ اللہ نیازی بچپن سے ہی گہرے دوست تھے۔ حفیظ اللہ نیازی کم و بیش ایک سال تک جاوید ہاشمی کو پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے قائل کرتے رہے۔ حفیظ اللہ نیازی کی ایک سال کی کوششوں کے نتیجہ میں جاوید ہاشمی تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور انہیں سینئر وائس چیئرمین کا عہدہ بھی دے دیا گیا تاہم جاوید ہاشمی اور پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکا اور جلد ہی انہوں نے اپنے بچپن کے دوست حفیظ اللہ نیازی سمیت پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ جاوید ہاشمی اور حفیظ اللہ نیازی نے ایک ہی موقف اپنایا تھا کہ عمران خان کی سیاسی جماعت ایسی ہرگز نہیں جو دوسری جماعتوں سے منفرد ہو ۔دونوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان ’’امپائر‘‘ کی انگلی کے اشاروں پر چلنے لگے ہیں اور یہی وجہ علیحدگی کا سبب بنی۔ جاوید ہاشمی اور حفیظ اللہ نیازی نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران ہی پی ٹی آئی سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا۔جب جاوید ہاشمی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو انہیں’’ باغی‘‘ کہا گیا اور جب انہوں نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا تو انہیں ’’داغی‘‘ قرار دیا گیا۔اس موقع پر جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا تھا کہ جب وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے تو انہیں تب ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اور وہ اچھی طرح جان گئے تھے کہ پی ٹی آئی وہ سیاسی جماعت نہیں جس کی تلاش انہیں ہے۔ جاوید ہاشمی نے جب پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز نے انہیں بہت روکا تھا اورتحفظات دور کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی مگر وہ نہیں مانے تھے ۔
حال ہی میں ملتان کے جلسہ عام میں جاوید ہاشمی نے ایک بار پھر ایسے وقت میں میاں نواز شریف کو اپنا تاحیات قائد تسلیم کرلیا جب مسلم لیگ (ن) مشکلات کا شکار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو بخوبی اندازہ ہے کہ ان حالات میں پارٹی قائدنے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والا جو بیانیہ دیا ہے اسے کامیابی سے ہمکنار کرانے میں صرف اور صرف جاوید ہاشمی ہی کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور پارٹی بحران کا شکار ہے ، پارٹی پر اندر اور باہر سے تابر توڑ حملے جاری ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) اور پارٹی قیادت پر چاروں طرف سے انتقامی وار ہورہے ہیں کبھی مالی بدعنوانیوں کا مرتکب قرار دیا جارہا ہے تو کبھی ختم نبوت کے نام پر پارٹی میں انتشار پیدا کرنے اور پارٹی کا شیرازہ بکھیرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات سے چند روز قبل میری ملاقات جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے رہنما طاہر چیمہ سے ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ الگ صوبہ بنانے کے حوالہ سے آپ کتنے سنجیدہ ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ الگ صوبہ کا بیانیہ صرف سیاست چمکانے کیلئے ہے اور ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہمیں الگ صوبہ بنا کر نہیں دے سکے گی کیونکہ ایسا کرنے سے تمام سیاسی جماعتوں کیلئے ایک نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا جسے بند کرنے میں مشکلات درپیش ہوں گی انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد لوگ سب کچھ بھول جائیں گے اور میں خود بھی الگ صوبہ کے حق میں نہیں ہوں۔ جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ (ن) میں شامل کرکے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے مطالبہ کو بھی ایک سینئر سیاستدان کے تابع کردیا گیا۔ جاویدہاشمی کی سیاست زوال پذیر ہے ان کی سیاست اور حکمت عملی زوال کے منطقی انجام کو پہنچتی ہے یا پھر وہ مسلم لیگ (ن) کی ساکھ کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ بہرحال اس برے وقت میں جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوکر ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ مفاد پرستی کی بجائے نظریات کے ساتھ ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)