• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کفایت شعاری،امیگریشن اوردہشت گردی سے متعلق برطانوی پالیسیاں نسل پرستانہ ہیں،اقوام متحدہ

کفایت شعاری،امیگریشن اوردہشت گردی سے متعلق برطانوی پالیسیاں نسل پرستانہ ہیں،اقوام متحدہ

تحریر:کرسٹوفرہوپ

چیف پولیٹیکل کاریسپونڈنٹ

برطانیہ کے افریقی کیریبین عوام پرمشتمل نسل(ونڈرش) کے ساتھ برطانوی حکام کے حالیہ رویے کے خلاف مظاہرین نے لندن میں ریلی نکالی اقوام متحدہ کے نگراں ادارے نے کہا ہے کہ کفایت شعاری،امیگریشن اوردہشت گردی سے نمٹنے کی برطانوی پالیسیاں نسل پرستانہ ہیں۔

تااندی اچیومی ، اقوام متحدہ کی نسل پرستی سے متعلق خصوصی رپورٹر،نے انسداددہشت گردی بچاؤ کی حکمت عملی پر کام بند کردینے اورتارکین وطن سے متعلق قوانین کو منسوخ کرنے پر زوردیا ہے۔

اپنی تحقیق کے ابتدائی نتائج کو شائع کرتے ہوئے پروفیسراچیومی نے کہا کہ’’کفایت شعاری کے اقدامات نسلی اورنسلی اقلیتی برادریوں کے لئے نامناسب طورپرکیے گئے ہیں۔‘‘

’’اپنی تحقیق کے ابتدائی نتائج کو منظرعام پر لاتے ہوئے پروفیسراچیومی نے کہا:’’کفایت شعاری کے اقدامات آج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں بلا سوچے سمجھے نسلی طورپر کم تریا ماتحت رکھنے کے ایک اہم آلہ کے طورپر عمل میں لائے جاتے ہیں ۔‘‘

پروفیسراچیومی،جنہوں نے حال ہی میں اپنا بارہ روزہ دورہ مکمل کیا ہے جس کے دوران انہوں نے ارکان پارلیمان اورمہم چلانے والوں سے ملاقاتیں کی ہیں،لیکن وہ پولیس اورججوں سے اس حوالے نہیں ملی ہیں،نے برطانوی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کفایت شعاری کے اقدامات کو سیاہ فام اوراقلیتی نسلی پس منظررکھنے والے لوگوں کو ماتحت یا کم ترظاہرکرنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔

لندن میں گزشتہ جمعہ کو اپنی تحقیق کے ابتدائی نتائج کو منظرعام پر لاتے ہوئے پروفیسراچیومی نے کہا:’’کفایت شعاری کے اقدامات آج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں بلا سوچے سمجھے نسلی طورپر کم تریا ماتحت رکھنے کے ایک اہم آلہ کے طورپر عمل میں لائے جاتے ہیں ۔‘‘

پروفیسراچیومی نے تجویزدی ہے کہ تمام’’مجوزہ سالانہ پالیسی‘‘کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے ’’تاکہ گروہی اورنسلی برادریوں پر ایسی پالیسیوں کے عدم مساوات پر متوقع اثرات کے عوامل کو بے نقاب کیا جائے۔‘‘

’’اقوام متحدہ کی اس ماہر نے یہ انتباہ بھی کیا ہے کہ تارکین وطن کے خلاف،غیر ملکیوں کے خلاف بیانیے میں جو اضافہ یورپی یونین کے ریفرنڈم مہم کے موقع پرہواتھا اب وہ معاشرے میں وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے۔‘‘

ان تحقیقی نتائج کو عوامی سطح پراجاگرکیا جائے گا او رکسی بھی ایسی پالیسی کا بغورجائزہ لیا جائے گا تاکہ وہ ’’نادانستہ طورپرنسلی تفاوت کو بڑھاوا‘‘نہ دے سکیں۔

پروفیسراچیومی ،کیلیفورنیا یونیورسٹی میں قانون کی ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں،انہوں نے یہ بھی کہا کہ تارکین وطن کی امیگریشن سے متعلق پالیسیوں کے ذریعے سیاہ فام اورنسلی اقلیتی گروہوں کو ہدف بنایا جاتا رہاہے۔

پروفیسراچیومی کو گزشتہ سال نومبر میں اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹرکے طورپرمقررکیا گیا جن کی ذمہ داری نسلی پرستی کی عارضی اقسام،نسلی تعصب ،تارکین وطن اوران کے رسم ورواج ومذہب سے پرلے درجے کااظہارناپسندیدگی یعنی نفرت اوران سے متعلق عدم برداشت ‘‘پررپورٹ جمع کرنا ہے۔

پروفیسراچیومی نے برطانوی حکومت کی انسداددہشت گردی بچاؤ حکمت عملی( اسٹرٹیجی)کو ہدف تنقید بنایا ہے ’’جو سول سرونٹس ،سوشل ورکرز،دیکھ بھال کرنے والوں،تعلیم دینے والوں اوردیگرکو یہ عارضی اختیاردیتا ہے کہ وہ قومی سطح پر پائی جانے والی پریشانیوں اورتکالیف جس میں تمام ترمذہبی،نسل اور گروہی گروپوں کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے بدگمانی پر مبنی دشمن تصور کیا جاتا ہے،کے غیر واضح معیارواصول کی بنیاد پر زندگی بدلنے کے فیصلے کریں۔‘‘

یہ پالیسی انتہادرجے کی پریشانی اورعدم اعتماد کا باعث بن گئی تھی جو خاص طورپر مسلم برادری کو متاثرکرتی رہی ہے۔

پروفیسراچیومی کے بقول ’’میں برطانوی حکومت کو یہ تجویز دیتی ہوں کہ وہ کم سے کم درجے میں اس بچاؤ والی ذمہ داری کو معطل کرے اوراس کے مرتب ہونے والے اثرات کے ایک جامع جانچ پڑتال (آڈٹ)نظام کو لاگو کرے جو اس ملک کی نسلی مساوات اورسیاسی سماجی اورمعاشی نتائج جو نسلی اورگروہی اقلیتوں بالخصوص مسلم برادریوں کے درمیان ظاہر ہونے والے اثرات کا پتہ لگائے۔‘‘

انہوں نے 2006, ،2014 اور 2016 میں منظورشدہ امیگریشن قوانین کو ہدف بنایا جن کی وجہ سے متحدہ ریاست برطانیہ میں تارکین وطن کے لئے نسبتاًزیادہ معاندانہ (دشمنی پر مبنی)ماحول پیداکرنے میں مددملی ہے۔

مالکان جائیدادکو مجبورکیا جاتا رہا کہ وہ اپنے کرائے داروں کی تارکین وطن کی حیثیت کو چیک کریں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’غیر ملکی لہجے یا نام رکھنے والے‘‘کرائے داریوں کے لئے گھر کرائے پر لینے کے امکانات کم تھے۔

انہوں نے کہا کہ’’یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ایک ایسی پالیسی جو دکھاوے کے طورپر صرف بے قاعدہ تارکین وطن کو اپنا نشانہ بناتی ہے،وہ نسلی اقتلیتی برادریوں کے روزگاراوران کی زندگیوں کو تباہ کررہی ہے۔‘‘

انہوں نے ایسے قوانین منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جو ’’پرائیوٹ سیٹزنز اورسول سرونٹس‘‘پرانحصارکرتے ہیں جو ’’فرنٹ لائن امیگریشن انفورسمنٹ کاکام کرتے ہیں متاثرکن طورپر بارڈرچیک پوائنٹس پر عوامی مقامات کو تبدیل کررہے ہیں جیسے اسپتال ،بینک اورنجی رہائشگائیں۔‘‘

ان پالیسیوں کا نتیجہ محرومیت،تعصب اورماتحت یا کم ترحیثیت والے گروپوں اورافرادکی صورت نکلا جس کی بنیادان کی نسل،برادری اوراس سے متعلق حیثیت رہی ہے۔

پروفیسراچیومی،جو ریاست متحدہ برطانیہ میں نسل پرستی کے بارے میں اپنا حتمی نتیجہ یعنی خلاصہ آئندہ سال شائع کریں گی،نے کہا ہے کہ انہیں نسلی اقلیتوں میں سے خاص کر سیاہ فام مردوں کو،جرائم کی دنیا میں مبتلا دیکھ کر بہت صدمہ پہنچا ہے۔

ان نسلی گروہوں،سیاہ فام باشندوں کو پولیس کی جانب سے روکے جانے اوران کی تلاش کے حوالے سے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ،جتاکہ زیادہ سے زیادہ ممکنہ طورپرانہیں اس ملک کے جوائنٹ انٹرپرائز پرویژنز (جامع قانونی دفعات) کے تحت عدالتی کارروائی کا سامنا کرناپڑے اورانہیں جیل نظام میں بھی مقررہ حد سے زیادہ دکھایا گیا ہے۔

پروفیسراچیومی نے’’یونیفائیڈیوکے لیول پالیسی‘‘یعنی برطانیہ بھر میں یکساں سطح کی پالیسی کی ضرورت پر زوردیا ہے جو ایک نظام کے تحت کام کرتے ہوئے پالیسی سازی کے دوران ’’غیر قانونی نسلی عدم مساوات‘‘کا خاتمہ کرے۔

بریگزٹ(یورپ سے برطانیہ کی مجوزہ علیحدگی‘‘کے موضوع پر ،پروفیسراچیومی نے کہا ہے کہ یورپی یونین ریفرنڈم کے وقت سے لیکر اب تک برطانیہ بھر میں نفرت پر مبنی جرائم اورواقعات میں یکسر اضافہ نے انہیں اندیشے میں مبتلا کردیا۔

اس دوران انہیں برطانیہ بھر میں نفرت پر مبنی اظہاریے کا دوبدومقابلہ کرنے اوریکجہتی کی حکمت عملیوں کوترتیب دینے کے بارے میں مضبوط عزائم بھی سنائی دیئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی اس ماہر نے یہ انتباہ بھی کیا ہے کہ تارکین وطن کے خلاف،غیر ملکیوں کے خلاف بیانیے میں جو اضافہ یورپی یونین کے ریفرنڈم مہم کے موقع پرہواتھا اب وہ معاشرے میں وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے۔

بہر کیف پروفیسراچیومی نے برطانوی حکومت کی جانب سے گزشتہ موسم خزاں میں نسلی جانچ پڑتال(آڈٹ)دستاویز کو شائع کرنے کی تعریف کی ہے اورکہا ہے کہ برطانوی قوانین اورپالیسیاں جو براہ راست اوربالواسطہ دونوں قسم کی نسلی تعصب کو روک رہی ہیں قابل تعریف ہیں۔

پروفیسراچیومی نے کہا :اسٹرکچرل اورانسٹی ٹیوشنل ریسزم(معاشرتی اورادارہ جاتی نسل پرستی ) اورتعصب سے نمنٹنے کے لئے یہ ایک مستحکم بنیادہے جو کسی نسل،نسلی گروہ،قومی منبع،جنس اور دیگرپر محفوظ درجہ بندیوں پرقائم ہو،حتی ٰ کہ پہلے سے قائم کی گئی جانبدارانہ رائے بھی موجود نہ ہو۔ 

تازہ ترین