علّامہ سیّد آلِ احمد بلگرامی
سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ حضور اکرمﷺ کی چہیتی بیٹی 20؍جمادی الثانی 5بعث نبوی ؐکو آغوش رسالت کی زینت بنیں۔ آپ کے والد سید الانبیاء حضرت محمدﷺ اور والدہ ملیکۃ العرب ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ تھیں۔ آپ کی ولادت عرب کے اس معاشرے میں ہوئی ،جہاں ہر باپ اور ہر خاندان بیٹے کے لئے آرزو مند ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ معاشرہ تھا جس میں لڑکی ہونا ایک جرم سمجھا جاتا تھا اور اس کی سزا یہ تھی کہ اسے زندہ درگور کردیا جائے ۔باپ بیٹی کو باعث ننگ سمجھتا، عورت کے لئے معاشرے میں کوئی عزت و وقار نہ تھا۔ دورِجاہلیت کا عورتوں کے متعلق یہی وحشیانہ رویہ تھا، جس کا کلام پاک میں سرزنش آمیز لہجے میں ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اس کیفیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے :’’جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی پیدائش کی خبر سنائی جاتی ہے تو غم و غصے کی زیادتی سے اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے‘‘۔ (سورۃ النحل)
ایسے انسانیت سوز ماحول میں قدرت ایک انقلاب برپا کرنے والی تھی، مشیت کا نادیدہ ہاتھ اقدار حیات کی اس جھیل میں جس کا پانی ساکت اور بدبودار ہوچکا تھا، ایک انقلابی طوفان برپا کرنے والا تھا، صنف نسواں کے لئے صبح آزادی طلوع ہونے والی تھی، سوچ و فکر میں ایک انقلابی تبدیلی رونما ہونے والی تھی، اس خوش گوار مگر دشوار انقلاب کے لئے قدرت نے دو عظیم شخصیتوں کا انتخاب کیا ،ایک باپ اور ایک بیٹی۔
حضوراکرمﷺ کی کوئی اولاد نرینہ حیات نہ رہی۔ عرب میں ایسے شخص کو جو اولاد نرینہ سے محروم ہو، ابتر کہا جاتا ہے، ابتر یعنی جس کی نسل منقطع ہوگئی ہو۔ عرب اپنی جاہلانہ سوچ کے مطابق حضوراکرمﷺ پر نکتہ چینی ہرزہ رسائی کے لئے آپ کو ابتر کہنے لگے، دل رسالت پر چوٹ لگی تو قدرت نے کفار کی ہرزہ رسائی کا جواب ان الفاظ میں دیا:’’(اے ہمارے حبیبﷺ) ہم نے تجھے کوثر عطا کیا، پس اپنے پروردگار کی نماز ادا کیجیے اور قربانی دیجیے، بے شک، آپ کا دشمن ابتر ہے‘‘۔ (سورۂ کوثر)
کوثر کے معنی ہیں خیر و برکت کی کثرت فراوانی اور تسلسل، اس کے معنوں میں اولاد اور ذریت کی کثرت کا رخ بھی ہے۔اللہ نے اپنے حبیبﷺ کو کوثر عطا کیا، انہیں فاطمہ جیسی بیٹی سےنوازا ،وہ عرب جو بیٹی کو بوجھ، قطع نسل کا باعث سمجھتے تھے، ان کے افکار کے بہائو کا رخ موڑا گیا اور اس طرح معاشرے میں ایک عظیم فکری اور روحانی انقلاب کی بنیاد رکھی گئی۔ سیدہ فاطمہؓ کے توسط سے وہ فکری انقلاب برپا ہوا کہ اب بیٹے کی جگہ بیٹی اپنے خاندان کی عزت و بزرگی کی وارث قرار پائی، اب اپنے خاندان کی تمام قدروں کا تحفظ کرنے والی اور اپنے آباء و اجداد کے نام کو دوام بخشنے والی ہستی بیٹی ہے، یہ بیٹی ہی ہے جس کے ذریعے شجرہ آگے بڑھے گا، نسل کو دوام حاصل ہوگا۔
سیدہ فاطمہؓ اپنے عظیم خاندان کی تمام عز و شرف کی وارث ہے، انہی کے ذریعے اس عظیم خاندان کا تسلسل جاری ہے، جس کا سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہوتا ہے، یہ انسانی عز و شرف حرمت اور عظمت کا خاندان اور اس خاندان کی امین سیدہ فاطمہؓ ہیں۔
اسلام نے عورت کا جو تصور پیش کیا ہے، سیدہ فاطمہؓ کی شخصیت اس تصور کی روشن تعبیرہے۔ آپ ہر اعتبار سے ایک مثالی عورت ہیں، نسوانیت کی تمام گونا گوں جہتوں کے لئے ایک مثالی نمونہ۔ اپنے والد کے حوالے سے ایک مثالی بیٹی، اپنے شوہر کے حوالے سے ایک مثالی بیوی، اپنے بچوں کے حوالے سے ایک مثالی ماں۔
آپ دختر پیغمبرﷺہیں، حضرت علیؓ کی زوجہ ہیں، امام حسنؓ و امام حسینؓ اور سیّدہ زینبؓ و امّ کلثومؓ کی ماں ہیں، مگر آپ کی سیرت میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، اسی لئے ڈاکٹر شریعتی کہتے ہیں کہ اگر ایک جملے میں سیّدہ فاطمہؓ کا تعارف کرایا جاسکتا ہے، تو وہ تعارف یہ ہی ہے کہ ’’فاطمہ فاطمہ ہے‘‘ آپ کی زندگی وہ قابل تقلید نمونہ ہے، جس کی پیروی کے ذریعے عورت خود اپنی حقیقت کو دریافت کرسکتی ہے اور اپنی حیثیت مرتبہ اور مقام و شعور حاصل کرسکتی ہے اور بزم حیات میں اپنے لئے صحیح راستہ منتخب کرسکتی ہے۔
حضور اکرمﷺ سیّدہ فاطمہؓ سے خصوصی شفقت فرماتے، جب کبھی آپ ﷺسفر پر جاتے ،تو سب سے آخر میں سیدہ فاطمہؓ سے وداع ہوتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ سے ملاقات فرماتے۔ جب سیدہ فاطمہ ؓتشریف لاتیں، آپ اپنی جگہ پر کھڑے ہوجاتے اور سیدہ فاطمہؓ کو اپنی مسند پر بٹھاتے۔ (مستدرک، حلیۂ الاولیاء)
آپﷺ حضرت فاطمہؓ کے دونوں ہاتھوں کے بوسے لیتے، یہ محبت کا برتائو عرب کے اس ماحول میں ایک ضرب انقلابی کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں عورتوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جاتا تھا۔آپﷺ ہمیشہ اپنی بیٹی کی شان میں رطب اللسان رہا کرتے، آپﷺ نے فرمایا: تمام دنیا کی عورتوں میں چارعورتیں سب سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں، مریم، آسیہ، خدیجہ اور فاطمہ۔ (مسند امام احمدبن حنبل)
اللہ فاطمہ کی خوشنودی سے خوش اور ان کی ناراضی سے ناراض ہوتا ہے۔ (صواعق محرقہ ابن حجر)
سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ حضوراکرمﷺ کا یہ غیرمعمولی رویہ ہر عہد کے انسان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ سیدہ فاطمہؓ کی حیثیت، مقام اور عظمت کو رسول اکرمﷺ کے اس رویے کے حوالے سے پہچانیں، یہ صرف محبت پدری کا اظہارنہیں ہے، بلکہ اس رویے کا تعلق اس عظمت و بزرگی سے بھی ہے جو سیدہ فاطمہؓ کو پیش خدا حاصل تھی۔
اسلام کے استحکام کے لئے سیدہ فاطمہؓ اپنے بچپن سے ہی مصروف جہاد رہیں اور اپنے پدر بزرگوار کے قدم بہ قدم اس راہ دشوارمیں سرگرم سفر رہیں، آپ نے اس راہ میں فقر و فاقہ ،شعب ابی طالب کے قید و حصار ،بھوک غرض ہر طرح کی پریشانی کا مقابلہ کرتی رہیں، یہاں تک کہ ان کا تمام بچپن اور جوانی اسی آزمائش کی نظر ہوگئی ،ان کی تمام زندگی اس جدوجہد میں گزری کہ نخل اسلام بارآور ہوسکے۔ انہوں نے اپنے تمام ایمان احساس اورتوانائی کو اس مقصد کے لئے وقف کیا کہ حضوراکرمﷺ کا پیغام رسالت قدم جما سکے اور اس پیغام کی حق پرستی آزادی عدل تقویٰ مساوات اور اخوت کی قدریں جڑیں پکڑ سکیں۔آپ اپنے والد گرامی کے وصال کے صرف 3مہینے بعد11ھ ہجری کو دنیا بھر کی عورتوں کے لئے اپنی سیرت کے انمٹ نقوش چھوڑ کر دار بقاء کو سفر کر گئیں۔