پاکستان میں کرپشن کا عفریت ملک کے اہم ترین اداروں کو نگلتا جارہا ہے۔پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملزکی تباہ حالی کے بعد پاکستان ریلوے نےضلع سانگھڑ کے شہروں ٹنڈوآدم اور شہدادپورسمیت کئی اہم شہروں میں ریلوے سروس معطل کی ہوئی ہے اور حال ہی میں اس محکمے میں 60ارب روپے کرپشن کے میگا اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے جس پرچیف جسٹس آف پاکستان ، جناب جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے ، خواجہ سعد رفیق، سیکرٹری ریلوے اوربورڈممبران کو آڈٹ رپورٹس سمیت طلب کر لیاہے۔چیف جسٹس نے اس موقع پر اپنے ریمارکس میںبھارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کا وزیر ریلوے لالو پرشاد ان پڑھ آدمی تھا، لیکن اس نےادارے کو منافع بخش بنایا، آج لالو پرشاد کی تھیوری کو ہاورڈ یونیورسٹی میں پڑھایا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں صرف جلسوں میں ریلوے کے منافع بخش ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں جب کہ اصل صورت حال اس کے قطعی برعکس ہے۔چیف جسٹس نے دوران سماعت استفسار کیا کہ ریلوے کے خسارے کا تخمینہ کتنا ہے، جس پر کمرہ عدالت میں موجود ایک ریلوے افسر نے کھڑے ہو کر بتایا کہ محکمہ میں 60 ارب روپےکا خسارہ ہے۔چیف جسٹس نےحکم دیا کہ ریلوےافسران آئندہ سماعت پر پیش ہو کر 60 ارب روپے کے نقصان کی وجوہات بتائیں۔انہوںنے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو آئندہ سماعت پرطلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ ریلوے میں کرپشن اور خسارے کے حوالے سے ریکارڈ پیش کیا جائے۔
خواجہ سعد رفیق نے سوشل میڈیا پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کارکردگی کے بارے میں عدالتی ریمارکس سے دلی دکھ ہواہے۔محض ایک آڈٹ رپورٹ پاکستان ریلویز کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ نہیں ہوسکتی، پاکستان ریلوے کو اقربا پروری اور کرپشن سے پاک کرنے کے لئے ہماری ٹیم نے دن رات کام کیا اور دم توڑتی ریلوے کو دوبارہ اپنےقدموں پر لا کھڑا کیا۔ اٹھارہ ارب روپے کمانے والے محکمے کی آمدنی اس وقت 50 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کاچیف جسٹس کی طرف سے لیے گئے سوموٹو ایکشن کے بارے میں کہنا ہے، ’’ریلوے میں ہر سطح پر کرپشن اور بد انتظامی ہے۔ ملازمین کام نہیں کرتے، انجنوں کا تیل تبدیل نہیں کیا جاتا جب کہ افسران ان کے خراب ہونے اور نئے انجنوں کی خریداری کا انتظار کرتے ہیں تاکہ ان کے سودےسےکمیشن کمایا جا سکے‘‘۔
وفاقی وزیر ریلوے کے دعووں کے برعکس ریلوے ذرائع نے محکمہ کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ بتائی ہے۔ 2008 سے لے کر اب تک 204 میں سے 104 ٹرینوں کی سروس کو بند یا معطل کیا جا چکا ہے، درجنوں شہروں میں ریلوے اسٹیشن بند کردئیے گئے ہیں اور وہاں کے مسافروں کو دور درازعلاقوں میں جانے کے لیے بسوں یا ویگنوں کا پر صعوبت اورنسبتاً مہنگا سفر کرنا پڑتا ہے۔
2013میںنواز شریف حکومت قائم ہونے کے بعد پہلے سال ہی اس ادارے میں مجموعی طور پر 42 ارب روپے کی کرپشن کی نشان دہی کی گئی تھی جو اب بڑھ کر 60ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔وفاقی وزیر ریلوے کی محکمے پرگرفت کمزور ہوچکی ہے جس کی بین مثال یہ ہے کہ مختلف یارڈز سے مبینہ طور پرچوری ہونے والے 6 ارب کے روپے کے آلات اب تک برآمد نہیں کیے جاسکے۔ آڈیٹر جنرل کی طرف سے کرپشن میں ملوث افسران کی نشان دہی کرنے کے باوجودمحکمے کے سیکرٹری اور وزیر ریلوے نے کرپٹ مافیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔16اپریل2015ء کو ایک دستاویزمیں بتایا گیا کہ ریلوے کے شعبہ فنانس میں بھاری کرپشن ہے ،وہاں قواعد و ضوابط پر عمل نہیں ہوتا۔ ورکشاپس میں ریلوے انجن کی بروقت مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ادارہ کو 4 ارب روپےکا نقصان ہوا ہے۔ صحافیوں کو سہولتیں دینے کے کے نام پر بھی مبینہ طور پر 3 کروڑ روپےکے گھپلے کیے گئے۔
2016-17میںمحکمہ کی ایک آڈٹ رپورٹ میںبتایا گیا کہ36 ارب روپے آمدنی والے ادارے کے اخراجات 63 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جب کہ خسارہ 27 ارب کے قریب ہے، محکمے میںغیر ضروری اخراجات کی بھرمار ہے۔ پاکستان ریلوے کو رواں دواں رکھنے کے لیےوفاقی حکومت سے سالانہ 37 ارب روپے کی گرانٹ لی جا تی ہے ۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق ٓ72 ارب روپے مالیت کی ریلوے اراضی پر نجی و سرکاری ادارے اور افراد قابض ہیں ،جب کہ 12 ایکڑ اراضی پنجاب حکومت نے صرف 8 کروڑ روپے کے عیوض ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی بہاولپورکو فرخت کردی ہے ۔ریلوے سگنلز اور لیپ ٹاپس کی خریداری میں اربوں کے گھپلے ہیںجب کہ ناقص آٹو میٹک ٹرین پروٹیکشن سسٹم کی خریداری سے قومی خزانے کو ایک ارب 55 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے ۔ریلوے کا 13 کروڑ روپے کا سامان چوری ہوا۔80 لاکھ روپے تو نجی بینک اکاونٹس میں منتقل کیےگئےجب کہ کیٹرنگ سروس اوربزنس ڈیویلپمنٹ سے بھی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دو سال قبل قومی احتساب بیورو کراچی نے پاکستان ریلوے کے سابق ڈائریکٹر جنرل، غلام محمدقریشی کے خلاف تحقیقات کیں جن سے معلوم ہوا کہ ان کے مبینہ طور پرصرف کراچی میں 80 کروڑ سے زائد مالیت کے بنگلوں سمیت اربوں روپے کی املاک ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق سابق ڈی جی ریلوے نے آمدن سے زائد اثاثے بنائے ہیں ۔ جی ایم قریشی کے ڈیفنس میں 80 کروڑ سے زائد مالیت کے 6 بنگلے، پلاٹ اور دیگر اثاثے ہیں۔ دوسری جانب جی ایم قریشی نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ املاک غیر قانونی طریقے سے کمائی گئی رقم سے نہیں بلکہ ان کے بیٹے کی جانب سے دی گئی رقم سے خریدی گئی ہیں۔
رواں سال جنوری میں لاہور کے ایک شہری نے پاکستان ریلوے میں 16 ارب روپے کی خرد برد کی تحقیقات کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دی تھی جس میں عدالت عالیہ سے نیب کے ذریعے ریلوے میں مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرانے کی استدعا کی گئی تھی۔ مقامی وکیل رانا علم الدین نے درخواست میں دعویٰ کیا کہ ریلوے میں 16 ارب روپے سے زائد کی کرپشن ہوئی ہے اور افسران نے مل کر یہ رقم خرد برد کی جس سے محکمہ کو مالی نقصان پہنچا۔ درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ آڈٹ ٹیم کے پہنچنے پر افسران دفاتر سے غائب ہو گئےتھے۔ درخواست گزار کے وکیل نےاس موقع پر استدعا کی کہ ریلوے میں 16 ارب روپے کی کرپشن کی تحقیقات کا حکم دیا جائے۔
دوسری جانب ریلوے کے ذرائع نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ محکمے میںکرپشن کا آغاز مبینہ طور سےسابق وزیر ریلوے، جاوید اشرف قاضی کے زمانے سے ہوا۔ 2012میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے عارف عظیم نے کمیٹی کو بتایاتھا کہ ریلوے کا سالانہ خسارہ 40 ارب روپے تک پہنچ چکاہے۔ میاں نواز شریف کے 2013میںاقتدار سنبھالنے کے بعد ایک سال کے عرصے میں اس خسارے میں مزید دو ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا جب کہ رواں سال یہ خسارہ 42ارب روپے سےبڑھ کر ساٹھ ارب روپے ہوگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریلوے میں کرپشن کی تحقیقات ایف آئی اے اور نیب کے ذریعے کرائی جائیں اور ان کا آغاز مشرف دور سے کیا جائے ۔ واضح رہے کہ فروری 2018ء میں نیب نے جاوید اشرف قاضی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان کے ازخود نوٹس اور نیب و ایف آئی اے کی شفاف تحقیقات سے ریلوے جیسے قومی ادارے کو لوٹنے والی کئی شخصیات بے نقاب ہوسکتی ہیں۔
یہ تو کرپشن کی وہ داستانیں ہیں جو بڑے لوگوں نےوسیع پیمانے پر کی ہیں لیکن اس بہتی گنگا میں نچلے درجے کے ملازمین بھی ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کراچی سے پنجاب اور شمالی علاقوںکی جانب جانے اور وہاں سے آنے والی ٹرینوں میں رش کی وجہ سے مسافروں کو بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی اور تہواروں کے دوران تو یہ عالم ہوتا ہے کہ ٹرینوں کی چھتوں پربھی مسافربیٹھےنظرآتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود ریلوےکی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا ۔جنگ کے نمانئدے نے جب سندھ کے مختلف اسٹیشنوں کاسروےکیاتو زیادہ تر مسافروں نے ٹکٹوں کی اصل رقوم سے زائد پیسےلیے جانے کی شکایت کی۔ اس دوران نمائندہ جنگ کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ ٹکٹوں پردرج رقم کو کاٹ کراس کی جگہ زائد رقم کی اسٹیمپ لگا کر وصولی کی جاتی ہے۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ریلوے پولیس کے اہل کار، عملے کی ملی بھگت سے بیشتر مسافروں سے ٹکٹ کی نصف رقم لے کر بغیر ٹکٹ سفر کراتے ہیں جس سے پاکستان ریلوے کو کروڑوں روپے ماہانہ کا نقصان ہوتا ہے۔