الف لیلوی کہانیوں نے ایک تصوراتی دنیا کو جنم دیا ہے جسے کو ہ قاف کہتے ہیں ۔لاس ویگاس کی پانچ روزہ دلفریب یاترا کے بعد میرا تبصرہ ہے کہ اگر دنیا میں کو ہ قاف نام کی کوئی چیز ہے تو وہ لاس ویگاس ہی ہے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں سال میں لگ بھگ 310 دن سورج نکلتا ہے اور 365دن رنگ ،رنگوں اور روپ کی برسات برستی رہتی ہے ۔نہ صرف سرد ریاستوں کی برفباری سے اکتائے ہوئے امریکی بلکہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ زندگی جینے کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ یہاں پہنچتے ہی لوگ رنگ نسل اور زبان کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں ۔یہاں ایک ہی فرقہ پایا جاتا ہے جس کا نام ’’ زندہ دلی ‘‘ ہے ۔ہر انسان کی باڈی لینگویج ، چہرے کی خوشی اور آنکھوں کی چمک یہی بتا رہی کہ ’’ زندگی زندہ دلی کا نام ہے ‘ ‘۔میں سرخ رنگ کے کوٹ میں ملبوس لاس ویگاس کی گلیوں بازاروں کے حسین نظاروں کو آنکھوں میں قید کر رہا تھا اور میرے راستے میں آنے والے اکثر مرد و خواتین اپنی اپنی زبان اور اپنے اپنے الفاظ میں تعریف کر کے ایسے گزر رہے تھے جیسے یہ تعریف کسی پچھلے جنم کا قرض تھی ۔ وضاحت کیلئے عرض کردوں ویگاس کامیرا یہ وزٹ رمضان کا چاند دکھائی دینے سے پہلے تھا ۔ میں نے یہ تصاویر فیس بک پہ شیئر کیں تو دوستوں نے بھی اپنی اپنی محبت کا اظہار کیا ۔ہر کمنٹ پڑھ کر چہرے پہ مسکراہٹ آتی رہی اور سب سے زیادہ جس کمنٹ پر ہنسی آئی وہ میرے دوست ڈاکٹر جاوید صوفی کا تھا جنہوں نے لکھا تھا کہ ’’ بلڈ بنک کے پریذیڈنٹ لگ رہے ہو ‘‘ ۔اس بار لاس ویگاس میں جو تبدیلی دیکھی وہ یہ کہ بہت سے کیسینوز گرا ئے جارہے ہیں ۔ان کیسینوز کا انہدام کسی تنظیم نے نہیں بلکہ تعمیر ِ نو کے لیے انتظامیہ نے کیا ہے ۔یہ منظر دیکھ کر سب سے پہلی بات جو ذہن میں آئی وہ یہ کہ کہیں خادم ِ اعلیٰ اس بار لاس ویگاس سے تو نہیں الیکشن لڑ رہے؟ یہ کنفیوژن اس وقت دور ہوئی جب خبروں میں خادم ِ اعلیٰ کو اورنج لا ئن میں سفر کرتے دیکھا۔ ویگاس میں کیسینوز ایک انڈسٹری کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں آنے والوں کو کوئی بدقماش نہیں سمجھتا ۔ان کیسینوز میں ہر عمر کے لوگ آتے ہیں اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کھیلتے ہیں اور اکثریت میرے جیسوں کی ہوتی ہے جو صرف دیکھنے آتے ہیں ۔ہر کیسینو اپنی ذات میں فن ِ تعمیر کا ایک نمونہ ہے یعنی ہر کیسینو کو دیکھ کریہ گمان ہوتا تھا گویا شاہجہان نے تعمیر کروایا ہو ۔لاس ویگاس سے نکلتے ہی سڑک کے ارد گرد پستہ قد پہاڑ اور صحرا شروع ہو جاتا ہے جو تقریباً سو میل تک پھیلا ہوا ہے۔ کیلیفورنیا کو امریکہ کی گولڈن ریاست کہا جاتا ہے۔ سونے کے پہاڑ اس خطے میں فرانسیسیوں اور انگریزوں کے حملہ آور ہونے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ ویگاس سے کیلیفورنیا آتے ہوئے مجھے وہ سونے کے پہاڑ دکھائی دےرہے تھے جنہیں Mckenna`s GoldاورGOLD FINGER جیسی مشہور فلموں میں کہانی کا موضوع بنایا گیا ہے۔
Mckenna`s کا ڈائریکٹر جے لی تھامسن تھا جبکہ اداکاروں میں گریگری پیک، پامیلا سپاور، ٹیلی سوالس اور عمر شیرف شامل تھے۔ اس طرح گولڈ فنگر میں شین کونری، شرلی ایٹن اور عمر شیرف مرکزی کرداروں میں نظر آئے۔ یہ دونوں فلمیں پاکستان میں 70کی دہائی میں نمائش کی گئی تھیں۔ لاس اینجلس کی طرف آتے ہوئے آئی ففٹین روڈ پر ڈیتھ ویلی(موت کی وادی) بھی ہے۔ اس کی کہانی یہ ہے کہ 17 ویں صدی میں ریڈانڈینز کے مقابلے میں برطانوی فوج نے روٹ88 نامی ایک خفیہ راستہ بنا کر شب خون مارا تھا۔ اس ظالمانہ آپریشن میں برطانوی فوج نے ریڈ انڈینز کو موت کے گھاٹ اتار کر اس وادی کو ان کا قبرستان بنادیا۔ ایک روایت کے مطابق پہاڑ کی کھائی میں ریڈ انڈینز کی ہزاروں لاشیں گرائیں جس سے یہ کھائی پہاڑ کے برابربلند ہو گئی تھی جس کی وجہ سے وادی کو ڈیتھ ویلی کا نام دے دیا گیا۔ میں اس رستے سے گزرتے ہوئے یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر آج ریڈ انڈینز کی زندہ بچ جانے والی نسلوں میں سےکوئی برطانوی سامراج سے اس Genocide (نسل کشی) کے تاوان کا مطالبہ کرے تو عین ممکن ہے کہ برطانیہ سرکار اپنا آپ نیلام کر کے بھی ہرجانہ ادا نہ کر سکے۔ لگ بھگ دو گھنٹے کی مسافت کے بعد روڈ پر لاس اینجلس جسے ایلے بھی کہا جاتا ہے اس کے نشانات دکھائی دینے لگے ۔ اس راستے پر پہاڑوں کی چوٹی پر ایک بستی دکھائی دی جس کانام YORBA LINDAہے یہاں رچرڈ نکسن پیدا ہوئے تھے جو بعدازاں امریکی صدر منتخب ہوئے ۔ لاس اینجلس کے بریلوے سٹی پہنچ کر اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ میں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری یعنی ہالی وڈ کی گلیوں میں گھوم رہا ہوں۔ امریکہ میں محلے یا علاقے کو سٹی کانام دیا گیاہے۔ ہمارے ہاں لاہور میں سمن آباد اور بعدازاں گلبرگ فلمی ستاروں کا علاقہ تھا جہاں نورجہاں ،فردوس، محمد علی ،ندیم ، مصطفی قریشی ،منورظریف ،بابرہ شریف سمیت دوسرے ستارے رہائش پذیر تھے۔ ہالی وڈ واک آف فیم میں چلتے ہوئے آسکر اور گریمی ایوارڈ یافتگان کے ہاتھوں سے نصب کئے ہوئے وہ سنگ میل دیکھے جو ان فنکاروں نے کسب کمال سے حاصل کئے۔
یہاں میں نے مارلن برانڈو، مائیکل جیکسن، اسٹیون اسپیل برگ ، ٹام کروز، شیرن اسٹون، بی بی کنگ سمیت بیسیوں ستاروں کے ہاتھوں سے نصب گولڈن پلیٹس دیکھیں جن کی وجہ سے یہ گلی ہر دم سونے سے لدی پھندی دکھائی دیتی ہے۔ اس گلی میں عظیم باکسر محمد علی کے نام کی پلیٹ زمین کی بجائے دیوار میں کندہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد علی نے کہاتھاکہ ان کانام قدموں کے لئے نہیں ہے۔ امریکہ میں ، میں نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ نوجوان امریکی باشندے منشیات کی لت میں کس طرح جکڑے ہوئے ہیں۔
مجھے یہ بات عجیب لگی کہ حکومت کی طرف سے اس رجحان میں کمی واقع کرنے کے انتظامات اور قوانین کی بجائے وہ ان کو بڑھاوا دیتی دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے میرا اندازہ ہے کہ امریکی ریاست منشیات کے کاروبار سے پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ، نوجوان نسل کو سرمایہ دارانہ نظام سے کسی دوسرے معاشی نظام کی جانب بڑھنے سے روکنا چاہتی ہے ۔سنہری ریاست میں واقع ہالی وڈ کی ان پہاڑیوں پر National Observatory کا گنبد نظر آیا۔ یہ وہ ادارہ ہے جہاں پر گی لیلو کا وہ ٹیلی اسکوپ موجود ہے جس سے اس نے ستاروں اور سیاروں کو قریب ہو کر دیکھنے کا معرکہ سر کیا تھا۔ اسی سنٹر سے گوگل ارتھ کے گیٹ وے کے ذریعے دنیا کے چپے، چپے پر نگاہ رکھی جاتی ہے ۔ تمام ممالک میں ہونے والی خفیہ زمینی کارروائیوں کو واچ کرنے کا بندوبست بھی یہیں سے کیا جاتا ہے۔امریکہ کے بارے میں ایک بات مشہور ہے وہ یہ کہ امریکہ بہادر اپنی تین چیزوں کی حفاظت میں کبھی غفلت نہیں کرتا ، ایٹمی تنصیبات ، معدنیات اور جوئے کی آمدن ۔لاس ویگاس کی حالیہ یاترا میں، میں بھی اس نتیجے پہ پہنچا ہوںکہ جوا محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)