• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خواتین کے تعلیمی حقوق اور معاشرتی ترقی

اہل دانش نے ایک مر د کی تعلیم کو ایک فر د کی تعلیم جبکہ ایک عورت کی تعلیم کو پورے خاندان کی تعلیم قرار دیا ہے۔ جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ عورتوں کی تعلیم نہ صرف خاندان کی فلاح و بہبود بلکہ اگلی سطح پر پورے معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کی ضامن ہے۔ تمام الہامی مذاہب اور ترقی پسند معاشروں نے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے حق اور ضرورت و اہمیت کو معاشرتی ترقی کا لازمی جزو قرار دیا ہے۔ترقی پذیر ممالک میں صنفی تفریق اور صنفی عدم مساوات کی وجہ سے عورتوں کو شدید مسائل اور عصبیت کا سامنا ہے۔ گو کہ ان ممالک میں عمومی طور پر بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال اچھی نہیں لیکن خواتین خاص طور پرشدید صنفی مسائل ( جسمانی، ذہنی، نفسیاتی ،مالی ،ثقافتی ،جنسی ، جذباتی تشدد وغیرہ) کا شکار ہیں۔تعلیم کا حق ہر فرد کو بلا تخصیص رنگ و نسل و جنس و شہریت حاصل ہے مگر افسوسناک طور پر پوری ترقی پذیر دنیا میں مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کی شرح خواندگی کا اعشاریہ بہت نیچے ہے۔ 

ایسے تمام معاشرے جہاں دیگر حقوق میں لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے وہاں لڑکیوں کو تعلیم کے حق میں بھی شدید صنفی تفریق کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور نتیجتاََ وہاں معاشرتی ترقی کی رفتار مایوس کن ہے۔حقوق اطفال کنونشن( CRC) 1989 کے حلیف تمام ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ اپنے ممالک میں ہر قسم کی صنفی تفریق اور تشدد کے خاتمہ کے لیے قانون سازی کریں اور صنفی ترقی کی پالیسیوں اور قوانین کے عملی نفاذ کو ہر ممکن حد تک یقینی بنائیں۔ اس کے علاوہ فروری 1996 میں ہونے والے ایک اور بین الاقوامی معاہدے CEDAW کے مطابق تمام حلیف ممالک لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کی حفاظت اور ترویج و ترقی کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان بھی ان معاہدوں کا حصہ ہے۔

خواتین کے تعلیمی حقوق اور معاشرتی ترقی

تعلیم ہی وہ بنیادی اور موثر ترین ہتھیار ہے جس کی مدد سے نہ صرف ہمہ قسم صنفی تفریق ، صنفی تشد د اور عدم مساوات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ مستقبل میں ان مسائل سے مستقل چھٹکارا بھی پایا جا سکتا ہے۔ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلی کچھ دہائیوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں سامنے آنے والی صنفی تفریق کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے اگرچہ دیگر عوامل مثلََا رسوم و رواج، مذہب وغیرہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی معاشرہ ایک پدر سری معاشرہ ہے جہاں لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان میں بھی لڑکیوں کی تعلیم صنفی عدم مساوات کا شکار ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں صورتحال خاصی تشویشناک ہے۔ 

اسکولز میں داخلوں کی تعداد، روزانہ حاضری کی شرح، سالانہ امتحان میں شمولیت کی فیصد اور ڈراپ آؤٹ کی شرح، عورتوں اور مردوں میں شرح خواندگی کا تقابلی جائزہ اس صنفی تفریق کا واضح اشارہ ہے جبکہ دوسری طرف ملکی آبادی میں خواتین کی شرح مردوں سے زیاہ ہے۔صنفی امتیاز اور صنفی عدم مساوات کے خاتمہ کے لیے معاشی طور پر خواتین کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اور ایسا ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک لڑکیاں تعلیم یافتہ اور ہنر مند نہ ہوں۔2008 کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 47 ملین باروزگار افراد میں خواتین صرف 09ملین ہیں اور ان میں بھی 70% زراعت کے شعبہ (مزدوری) سے وابستہ ہیں یعنی پڑھی لکھی ہنرمند ،تربیت یافتہ خواتین ورکرز انتہائی کم ہیں۔ 

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح کو متاثر کرنے والے عوامل میں سماجی اور معاشی دونوں ہی کارفرما نظر آتے ہیں۔خاندانی رسوم و رواج، عورتوں کے تحفظ کے بارے میں مخصوص اندازِ فکر، کم عمری کی شادیاں، معاشی کمزور حالات، پڑھی لکھی خواتین کی بیروزگاری، لڑکیوں کے لیے اسکول کا دور ہونا یا الگ اسکول نہ ہونا، بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر نہ سمجھنا اور بیٹی کو پرائی امانت سمجھتے ہوئے اس کے تعلیمی اخراجات کو بے فائدہ سمجھنا جیسی وجوہات عام نظر آتی ہیں۔حکومت لڑکیوں کی تعلیم کی شرح میں بہتری کے لیے کافی کوششیں کر رہی ہے مثلََا پرائمری اسکولز میں بلا تخصیص خواتین اساتذہ کی بھرتی تاکہ الگ اسکول نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں تعلیم سے محروم نہ رہیں۔

تازہ ترین