• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی جارحیت اور امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کے بعد فلسطین کی موجودہ صورت حال پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ساتواں غیر معمولی اجلاس گزشتہ روز ترکی کے دارالحکومت استنبول میں ہوا جس میںمسلم حکمرانوں نے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیل کے وحشیانہ مظالم سے نجات دلانے کے لیے پرزور الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا اور عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ اگر یہ اظہار جذبات محض زبانی جمع خرچ تک محدود نہ رہے بلکہ عمل کے سانچے میں بھی ڈھل سکے تو یہ کانفرنس مسلم دنیا کے مسائل کے حل کے حوالے سے یقینا امید کی کرن ثابت ہوگی۔اسلامی تعاون تنظیم کے اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کی۔ اسرائیلی مظالم کی آزادانہ اورشفاف تحقیقات کا مطا لبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اپنی قراردادوں پرعمل کرائے۔ فلسطینیوں کی جدوجہدآزادی کودہشتگردی سے جوڑے جانے کو بے انصافی قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے اسرائیلی مظالم اور مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی کی مذمت اور آزادفلسطینی ریاست کی حمایت کے عزم کااعادہ کیا۔انہوں نے اجلاس میں شریک مسلم ملکوں کے سربراہوںپر واضح کیا کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارت بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے۔ انہوں نے فلسطین اور کشمیر میں مظالم کے خاتمے کے لیے ذمہ دار ملکوںکے خلاف مسلم دنیا کی جانب سے معاشی اوردیگراقدامات کو ضروری قرار دیا۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے اور امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔انہوں نے فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھانے کا اعلان بھی کیا۔فلسطینی وزیر اعظم رامی حمداللہ نے بالکل درست طور پر فلسطین کی آزادی کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن کو ناممکن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطینیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا اور اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کرائی جانی چاہئے۔ایرانی صدر حسن روحانی نے اسرائیلی مظالم پر اقوام متحدہ کا خصوصی اجلاس بلائے جانے اور اسرائیل کے خلاف سیاسی و معاشی اقدامات عمل میں لائے جانے پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے ممالک کو چاہئے کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے سیاسی اور معاشی تعلقات پر نظر ثانی کریں۔ فلسطینی مسلمانوں کے مبنی بر حق ہونے پر عالمی ضمیر کی گواہی عالمی مبصرین کے تجزیوں، عالمی مراکز میں نکالی جانے والی ریلیوں اور اقوام متحدہ کی اسرائیلی مظالم کے خلاف قراردادوں کی شکل میں مسلسل منظر عام پر آتی رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے اس بارے میں ایک قرارداد گزشتہ روز بھی منظور کی ہے جس میں اسرائیل کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے علاوہ طاقت کے بے جا استعمال کی مذمت کی گئی ہے۔قرارداد کے حق میں 29جبکہ مخالفت میں 14ارکان نے ووٹ دیا۔استنبول کانفرنس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بے عملی کی بناء پر فلسطین کے معاملے کو جنرل اسمبلی میں اٹھانے کا فیصلہ اگرچہ درست ہے تاہم یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ مسلم دنیا کے مسائل کے حل نہ ہونے اور اس کے مختلف حصوں کا عشروں سے مختلف طاقتوں کے مظالم کا نشانہ بنے رہنے کا اصل سبب اس کا اپنا انتشار و افتراق ہے۔ پچھلے چند برسوں میں کئی مسلم ملکوں کے اختلافات اس انتہا تک جاپہنچے ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی محال تھا۔ شام اور یمن میں جنگ کے بھڑکتے شعلے ایران اور سعودی عرب سمیت پورے شرق اوسط کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ جو لشکر آپس ہی میں دست و گریباں ہو وہ دشمنوں کے حربوں، چالوں اور سازشوں سے کیسے نمٹ سکتا ہے۔ استنبول کانفرنس کے نتیجے میں مسلم حکمرانوں میں یہ احساس و شعور بیدار ہوسکے تو یہی اس کانفرنس کی اصل کامیابی ہوگی۔

تازہ ترین