کیا پنجاب اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف بیانیے کو قبول کرے گا یا نہیں ؟ یہ سوال ان اطلاعات کے بعد پیدا ہوا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ مسترد کر دیا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس اگلے روز اسلام آباد میں منعقد ہوا ، جس کی صدارت وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کی، جنہوں نے اپنے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد پارٹی کی صدارت سنبھالی ہے۔ اجلاس کے حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں اور تادم تحریر جن کی واضح تردید نہیں ہوئی ، ان خبروں کے مطابق مسلم لیگ (ن) اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ ’’ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ تصادم ‘‘ والے نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ آئندہ عام انتخابات میں نہیں جائے گی ۔ اجلاس کی اندرونی کہانی ایک وفاقی وزیر کے حوالے سے میڈیا میں سامنے آئی ، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ اس معاملے پر تقسیم تھے ۔ کچھ ارکان سابق وزیر اعظم کے بیانیہ کے حامی تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ بیانیہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر فائدہ پہنچا سکتا ہے جبکہ بعض ارکان نے اپنی پارٹی کے نئے صدر میاں شہباز شریف کے موقف کو درست قرار دیا ۔ اس حوالےسے ان کی دلیل یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے بیانیہ سے انہیں سیاسی طور پر نقصان ہو گا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاسی طاقت کا مرکز چونکہ پنجاب ہے ۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ نے اپنی رائے پنجاب کے عوام کے سیاسی رحجانات کو مدنظر رکھ کر دی ہو گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ ، عہدیداروں اور رہنماؤں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال موجود ہے کہ کیا پنجاب اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف بیانیہ کو قبول کرے گا یا نہیں ؟
ملکی تاریخ میں اس طرح کا سیاسی بیانیہ واضح طور پر پہلے کبھی اختیار نہیں کیا گیا ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں میڈیا نے پہلے کبھی اس طرح کے بیانیہ کو رائج ہی نہیں ہونے دیا ۔ روایتی بیانیے سے اختلاف رکھنے والوں یا مختلف بیانیہ اختیار کرنے والوں کو ’’ غدار ‘‘ قرار دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا تھا ۔ اس لیے تاریخ کے تناظر میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ پنجاب میاں محمد نواز شریف کے بیانیہ کو قبول کرے گا یا نہیں ۔ یہاں یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ دنیا کے ہر ملک میں ’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ‘‘ اور ’’ پرو اسٹیبلشمنٹ ‘‘ سیاسی بیانیہ ہوتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ‘‘ بیانیہ بعض ملکوں میں رائج نہیں ہونے دیا جاتا ۔ جیسا کہ پاکستان میں ہوتا رہا ہے۔ آمرانہ حکومتوں کے دور میں چھوٹے صوبوں کے عوام اور سیاسی قیادت نے ’’ فرسٹریشن ‘‘ میں یہ بیانیہ اختیار کیا لیکن وہ رائج نہیں ہو سکا اور غداروں کا بیانیہ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا رہا لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ پاکستانی میڈیا خصوصاً اردو میڈیا کے معیارات (Norms) بوجوہ تبدیل ہوچکے ہیں۔ میاں صاحب کی مخالفت اور حمایت کرنے والے میڈیا کے دونوں گروپ ان کے بیانیے کو رائج کررہے ہیں ۔ دوسری طرف اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پنجاب کے اس لیڈر کی جانب سے اختیار کیا گیا ہے، جسے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں کسی زمانے میں ’’اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی چہرہ ‘‘ قرار دیتی تھیں ۔ یعنی غیر سیاسی قوتوں کا سیاسی چہرہ۔
ماضی میں چھوٹے صوبوں کے سیاسی قائدین باچا خان ، ولی خان ، شیر محمد مری ، عطاء اللہ مینگل ، غوث بخش بزنجو ، جی ایم سید ، ذوالفقار علی بھٹو اور یہاں تک کہ محترمہ بے نظیر بھٹو پر غداری کے الزامات عائد ہوئے یا انہیں سیکورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا ۔ یہ دراصل اس وقت رائج پرو اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی وجہ سے تھا ، جس کی آبیاری پاکستانی میڈیا کرتا رہا ۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس ’’ پرو اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ‘‘ کی سب سے زیادہ حمایت پنجاب خصوصاََ وسطی پنجاب اور کراچی میں پائی جاتی تھی ۔ اس حقیقت کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب کا میاں نواز شریف کے بیانیے پر کیا ردعمل ہو گا لیکن یہ محض اندازہ ہی ہے ۔ کوئی وثوق کے ساتھ سیاسی پیش گوئی نہیں کر سکتا ۔ شاید یہی وجہ ہےکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس معاملے پر تقسیم ہے ۔
جہاں تک میاں محمد نواز شریف کے ممبئی حملوں سے متعلق بیان کا تعلق ہے ، اسے بھارت کی قیادت اور میڈیا نے اپنے حق میں اچھالا ہے اور وہ اس بیان کو اس بھارتی موقف کی تائید قرار دیتے ہیں کہ بھارت میں دہشت گردی پاکستان کرا رہا ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کے اس بیان سے نہ صرف ان کی اپنی سیاسی جماعت میں حمایت کمزور ہوئی ہے بلکہ بھارت کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ عالمی برادری میں پاکستان کی پوزیشن خراب کرے ۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب سید اکبرالدین اویسی نے میاں نواز شریف کے اس بیان کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف ایسی سفارت کاری کی ہے ، جس کی ان سے توقع نہیں تھی ۔ میاں صاحب کے اس بیان سے پاکستان کو نقصان پہنچا ہے ۔ اگر میاں نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ صرف داخلی صورت حال تک محدود رکھتے تو شاید ان کے لیے ایسے حالات پیدا نہ ہوتے ۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے لیے حالات بہت تبدیل ہیں ۔ ان سے پہلے جنرل (ر) پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چل رہا ہے اور عدالت کے حکم کے باوجود میاں صاحب کی تقاریر ٹی وی چینلز پر نشر اور اخبارات میں شائع ہوتی ہیں ۔ لیکن میاں صاحب کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی یہ کہہ دیا ہےکہ ’’ اینٹ سے اینٹ بجانے ‘‘ والا ان کا بیان میاں نواز شریف نے دلوایا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اس بیان کونہ صرف غلطی قرار دے رہے ہیں بلکہ اس کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرا رہے ہیں ۔
مسلم لیگ (ن) کے نئے صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو بھی اندازہ ہے کہ آصف علی زرداری کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ اب پوری قوم کی نظریں مسلم لیگ (ن) اور پنجاب پر ہیں کہ مسلم لیگ (ن) عام انتخابات میں کیا بیانیہ اختیار کرتی ہے اور پنجاب کا اس بیانیہ پر کیا ردعمل ہوتا ہے۔ بہر صورت پنجاب کا مینڈیٹ پاکستان میں سیاست کے ایک نئے عہد کا آغاز کرے گا ۔ اگر پنجاب میاں نواز شریف کا بیانیہ مسترد کرتا ہے تو بھی سیاست کا ایک عہد شروع ہو گا اور اگر قبول کرتا ہے تو پاکستان ایک نئی سیاسی ڈگر پر ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)