• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرد جنگ کے دور میں پروپیگنڈے کا گرم محاذ

دور حاضر میں دنیا ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں چاہے جتنی آگے نکل جائے لیکن جو اہمیت ٹی وی چینلز اور اخبارات کی کل تھی، آج بھی وہی ہے۔ میڈیا کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اسے ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے، اسے گھر کا تیسرا فرد تسلیم کیا جاتا ہے جو اہل خانہ کو بیرونی دنیا سے ہر پل باخبر رکھتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ذرائع ابلاغ عوام کی رائے قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، تو بے جا نہیں ہوگا۔ اسی لیے اس کی ذمہ داری ہے کہ غیر جانبداری کا مظاہر پیش کرتے ہوئے درست حقائق عوام تک پہنچائے۔ یہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے، جو اسے درست سمت سے آگاہی فراہم کرتے ہوئے ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتا ہے۔

اگر میڈیا بالخصوص خبر رساں ادارے چند مفاد پرستوں کے زیر اثر آجائیں اور جانبداری کا مظاہر کریں تو اندازہ کیجیے یہ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں انتشار پھیلانا ہو تو اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے، اگر کسی کی کردار کشی کرنی ہو تو خبر رساں ادارے بہترین ہتھیار ہیں، عوام میں من پسند رائے قائم کرنی ہو یا کوئی رواج عام کرنا ہو صحافیوں سے زیادہ بہتر ذریعہ اور کوئی نہیں۔ صحافت کا یہ انوکھا اندازہ آج سے نہیں بلکہ سرد جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ یہ ایک ایسا طاقت ور آلہ ہے جسے ہر دور کی حکومتیں خواہ ملکی ہوں یا غیر ملکی اپنے زیر اثر رکھنا چاہتی ہیں، تاکہ میڈیا ان کے حق میں رائے عامہ ہموار رکھے، جس کے لیے وہ چند اہم و قیمتی مراعات کے عوض کچھ صحافیوں اور اینکر پرسنز کو خریدتے ہیں اور جو نہیں بکتے انہیں جبراً یہ کام انجام دینا پڑتا ہے۔ یہ صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ ماضی میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی جانب سے ایسا ہی ایک خفیہ آپریشن کیا گیا، جس کے تحت کئی بڑے بڑے اور قابل احترام صحافیوں نیز خبر رساں اداروں تک کو خریدا گیا، انہیں ہتھیار بنا کر پروپیگنڈا کیا گیا، جب کہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی، جو اس حقیقت سے لا علم تھی کہ انہیں کسی بیرونی طاقت کے ذریعے استعمال کیا جا رہا ہے، جو خبر وہ رپورٹ کر رہے ہیں ان کے پس پردہ کیا کام انجام دیا جا رہا ہے، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اس خفیہ آپریشن کا نام ’’آپریشن موکنگ برڈز‘‘ تھا۔

واشنگ ٹن پوسٹ کی سی ای او، کیتھرین گراہم کی سرگزشت جو کہ ڈیبوہا ڈیوس نے 1979ء میں تحریر کی، اس میں انکشاف کیا گیا کہ، سرد جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی سوویت یونین نے ’’انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف جرنلسٹ‘‘‘ کی بنیاد کمیونسٹ فرنٹ گروپ کے طور پر رکھی، جس کا بنیادی مقصد کمیونسٹ کاز یعنی تحریک اشتراکیت کو فروغ دینا تھا، جس کے لیے آئی او جے کو ماسکو کی جانب سے مراعات فراہم کی جا رہی تھیں۔ اس تحریک کو فروغ دینے کے لیے یورپ کے تقریباً ہر بڑے اخبارات کے صحافیوں کو کنٹرول کیا جا رہا تھا۔

سرد جنگ کے دور میں پروپیگنڈے کا گرم محاذ

1948ء میں شروع ہونے والے امریکی قومی سلامتی کونسل کے خفیہ آپریشن ’’آفس آف پالیسی کوآرڈی نیشن‘‘ کے ڈائریکٹر ’’فرینک وائسز‘‘ نے جب یہ دیکھا کہ سوویت یونین صحافیوں کو پیسے دے کر امریکا کے خلاف مہم چلا رہا ہے، جس کے باعث بین الاقوامی سطح پر عوام امریکا کے خلاف ہو رہے ہیں تو انہوں نے بھی آئی او جے کے اس عمل کی جوابی کارروائی کے طور پر’’آپریشن موکنگ برڈز‘‘ کا آغاز کیا۔ جس کے سربراہ کے لیے انہوں نے کیتھرین گراہم کے شوہر اور واشنگ ٹن پوسٹ کے مالک ’’فیل گراہم‘‘ کو منتخب کیا، یہ دیگر ذرائع ابلاغ جن میں نیو یارک ٹائمز، نیوز ویک، سی بی ایس وغیرہ میں نہ صرف اپنا اثر ورسوخ رکھتے بلکہ ان اداروں میں اہم عہدوں پر فائز بھی رہ چکے تھے۔

1950ء میں شروع ہونے والا یہ آپریشن مبینہ طور پر امریکی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا بڑے پیمانے پر شروع کیا جانے والا آپریشن تھا، جس کا مقصد پروپیگنڈا پھیلانے کی خاطر مختلف خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا تھا۔ اس کام کے لیے انہوں نے طلبہ اور ثقافتی تنظیموں کے علاوہ خبر رساں اداروں کو بھی فرنٹ گروپ بنا کر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ (فرنٹ گروپ سے مراد وہ گروہ یا آرگنائزیشنز ہیں، جن کے پس پردہ دیگر گروہ یا آرگنائزیشز کارفرما ہوتی ہیں، جن کا عوام الناس کو علم نہیں ہوتا)۔ 1950ء کی دہائی میں سرگرم فرنٹ گروہ کی حقیقت اس وقت عیاں ہوئی جب ماہانہ سیاسی میگزین ’’ریمپارٹ‘‘ نے سی آئے اے کے خلاف 1967ء میں رپورٹ شائع کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ، سی آئی اے ادارتی بجٹ سے ’’نیشنل اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن‘‘ (این۔ ایس۔ اے) کی فنڈنگ کرتا تھا، بعدازاں ستر کی دہائی میں کانگریس کی جانب سے کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی اس کی پیروی کی گئی کہ، خفیہ ادارے کے تعلقات کا ناتا مختلف نامور صحافیوں اور سِوک گروپس سے ہے۔ لیکن ان دونوں تحقیقاتی رپورٹز میں سے کسی نے بھی براہ راست آپریشن موکنگ برڈز کا ذکر نہیں کیا۔ ہم یہ بتاتے چلیں کہ، 1951ء میں سی آئی اے کے آفیسر ’’کورڈ میئر‘‘ نے اس آپریشن کی ہاگ دوڑ سنبھال لی تھی، جب کہ 1963 میں فیل گراہم نے خودکشی کر لی اور 1975ء میں سب سے زیادہ اشاعت (سرکیولیشن) کے باوجود ریمپارٹ بینک کرپٹ ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔

ستر اور اسی کی دہائی میں امریکا میں کئی ایسے اخبارات بھی تھے جنہوں نے ملک میں جاری لفافہ جرنلزم کلچر کے خلاف آواز بلند کی اور ان صحافیوں اور اداروں کے باقاعدہ نام تک شائع کیے، ان ہی میں ایک ’’رونلگ اسٹون‘‘ میگزین بھی تھا، جس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ، ’’کئی صحافی براہ راست سی آئی اے کے پے۔رول پر ہیں‘‘، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ، ایسے صحافی اپنی خبروں میں جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرتے، جب کہ ایک صحافی کو غیر جانب دار رہتے ہوئے صرف حقائق ہی سامنے لانے چاہیں، کسی سے ڈرے بغیر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ سی آئی اے کے اس آپریشن میں جن صحافیوں نے قلم بیچنے سے انکار کیا، انہیں ڈرایا دھمکایا گیا، ان پر مختلف ذرائع سے دباؤ بھی ڈالا گیا، اس سلسلے میں کئی صحافیوں کو جان سے مروا بھی دیا گیا، جب کہ ایسے لا تعداد امریکی خبر رساں ادارے ہیں جن کے مالکان نے اپنے صحافیوں کو جھوٹی معلومات فراہم کیں تاکہ وہ ان کے ذریعے پروپیگنڈا پھیلا سکیں اور وہ ہی لکھیں اور بولیں، جو سی آئی اے اور ملکی حکمران ان سے کہلوانا چاہتے ہیں۔

بلاشبہ ہر حکومت یہ ہی چاہتی ہے کہ وہ میڈیا کو زیر اثر رکھتے ہوئے عوام کو کنٹرول کرئے، ایسا ہی امریکی حکومت بھی چاہتی تھی، جس کے لیے وہ کئی خبروں کو توڑ مروڑ کے عوام کے سامنے پیش کرتی رہی، دلچسپ بات یہ ہے کہ 1972ء سے 1974ء تک جاری رہنے والے واٹر گیٹ اسکینڈل کے بعد امریکی حکومت، سی آئی اے کی سرگرمیوں سے متعلق مزید فکر مند ہو گئی۔ لیکن ان ہی کی فکر و پریشانی ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ ہوا کچھ یوں کہ سی آئی اے کے حکم پر ایک رپورٹ، جو ستر کی دہائی میں مرتب کی گئی، اُس میں موکنگ برڈز آپریشن کا ذکر اس کے نام کے ساتھ کر دیا گیا، جو بعدازں تحقیقات کے دوران چرچ کمیٹی کے ہاتھ لگ گئی، جس سے سی آئی اے کے تمام راز ان پر فاش ہو گئے۔ اس سے قبل کہ چرچ کمیٹی یہ حقائق رپورٹ کی صورت میں عوام کے سامنے لاتی، سی آئی اے نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام صحافیوں کو جنہیں کسی زمانے میں جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے استعمال کیا تھا، عہدوں سے ہٹا دیا یا پھر مروا دیا۔ ممکنہ طور پر واشنگ ٹن پوسٹ کے مالک فیل گراہم کی موت اور ریمپارٹ کا بینک کرپٹ ہونا بھی، اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو سکتا ہے۔

1976ء میں سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر اور سابق امریکی صدر جارج ڈبلو بش نے اعلان کیا کہ، ’’سی آئی اے نے کبھی کسی صحافی کو پیسے دے کر کام نہیں کروایا اور نہ ہی کبھی جھوٹی خبر پھیلانے کے لیے ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا‘‘۔ جس کے بعد چرچ کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کا وہ اثر جو عوام اور میڈیا آرگنائزیشنز پر ہونا چاہے تھا وہ نہ ہوسکا۔

2007 میں، سی آئی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر، ’’جان میک کان‘‘، نے اس آپریشن کے حوالے سے خفیہ رپورٹ کا ایک حصّہ جاری کرتے ہوئے عتراف کیا کہ، انٹیلی جنس ادارہ 70 کی دہائی کے اوائل میں ‘‘آپریشن موکنگ برڈز’’ پر کام کر رہا تھا، جس میں سی آئی اے تین ماہ کے مختصر دورانیے یعنی 12 مارچ 1963 ے 15 جون 1963ء تک مخصوص افراد کے رابطوں کی جاسوس کرتا رہا، اسی سلسلے میں اس نے ان دو صحافیوں اور میڈیا آرگنائزیشن کے مالکان کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کی، جنہیں سی آئی اے اور دیگر خفیہ اداروں کی جانب سے کثیر تعداد میں خفیہ معلومات مہیا کی جاتی تھیں اور انہیں مکمل اختیار تھا کہ وہ ان معلومات یا خبروں کس طرح استعمال کریں یا پھر دیگر میڈیا آرگنائزیشن کو فراہم کر دیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ، سی آئی اے نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کی صرف جاسوسی کی ہے، انہیں پیسوں کے عوض خبر شائع کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا۔ اس بیان کی روشنی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، کیا ستر کی دہائی سے قبل جارہی رہنے والا سلسلہ بھی آپریشن موکنگ برڈز کا حصہ تھا اور کیا یہ آج بھی جاری ہے؟، کیا آج بھی سی آئی اے صحافیوں کی نگرانی و جاسوسی کرتا ہے؟، کیا خفیہ ادارہ آج بھی جعلی خبروں اور پروپیگنڈے میں ملوث ہے؟ کیوں کہ سرکاری سطح پر آپریشن موکنگ برڈز کے ختم کرنے کا اعلان کبھی نہیں کیا گیا۔

تازہ ترین