• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تراویح میں تلاوت کردہ قرآن کریم کی پارہ بہ پارہ تفہیم

فہم القرآن:مفتی عبدالمجید ندیم
لایحب اللہ …پارہ۶
چھٹے پارے کا آغا ز مظلوم کے حقوق کی نگہداشت سے ہو تا ہے ۔اسلا م اس کا ئنا ت میں ایک ایسا عادلا نہ نظام قائم کرنا چا ہتا ہے جہاں کسی پر ظلم نہ ہو ۔ایسی صورت میں اگر کسی فرد پر ظلم ہو تو اسلا م اسے اس با ت کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آواز اٹھائے اور مسلما نوں کا سارا معاشرہ اس کی حمایت و پشتیبا نی کرے۔جو لو گ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہو ئے یہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کے رسولوں پر ایما ن لائیں گے یا انکا ر کریں گے وہ پکے کافر ہیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں رسوا کن عذاب تیا ر ہے رہے وہ لو گ جو حقیقی معنوں میں اللہ اور اس کے رسولوں پر بلا امتیاز ایما ن رکھتے ہیں ان کا اجر وثواب اللہ کے ہاں متعین ہو چکا ہے ۔اے محمد ﷺ یہ اہلِ کتاب آپ سے الٹے سیدھے مطالبا ت کر رہے ہیں کہ آپ آسما ن سے ایک کتاب لے آئیں تو ہم اسے دیکھ کر آپ پر ایما ن لے آئیں گے حالانکہ ان کی تاریخ یہ بتا تی ہے کہ انہوں نے معجزات دیکھ کر بھی کفر ہی کی روش اختیا ر کی ۔انہوں نے حضرت مو سیٰؑ سے مطا لبہ کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چا ہتے ہیں۔ لیکن سارے دلا ئل ملنے کے باوجود انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا ۔اللہ کے سامنے جھکنے کے بجا ئے اور زیا دہ متکبر بن گئے اور پوری دیدہ دلیری سے ہفتے کے قانو ن کی خلاف ورزی کی۔چنا نچہ ان کی وعدہ خلافیوں،آیاتِ الٰہی سے انکار اور انبیا ء ؑ کو قتل کرنے کی پادا ش میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور وہ ہدایت سے محروم کر دیے گئے۔یہود کے اس دعوے میں بھی کو ئی سچا ئی نہیں ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو سولی پر لٹکا دیا ہے یا قتل کر دیا ہے ۔حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے معاملے کو ان کے لیے مشتبہ بنا کر حضرت عیسیٰؑ کوآسمانوں پر زندہ اٹھا لیا ۔یہودیوں کے ظلم ، ہٹ دھرمی، سودخوری اور لوگوں کا ما ل ناحق طور ہتھیا لینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بہت سی حلا ل چیزوں کو حرام قرار دیا اور وہ گمراہی کا شکا ر ہو کر عذابِ الیم کے مستحق بن گئے۔اہلِ کتاب میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیںجو سابقہ کتابوں پر ایما ن رکھنے کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید پر بھی ایما ن رکھتے ہیںاور ان کا ایما ن انہیں عملِ صالح پر آمادہ کرتا ہے ۔ان لوگوں کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہو چکا ہے۔آیت نمبر163اور 164میں بارہ اولوالعزم انبیاء کا تذکرہ فرما یا ہے جنہوں نے وحی الٰہی کے ذریعے انسانوں تک اللہ کا سچا پیغام پہنچا یا ۔یہ سارے نبی اور رسول خوشخبری سنا نے والے اور خبردار کرنے والے تھے تاکہ پیغام ِ الٰہی کے پہنچنے کے بعد لوگوںکے پاس گمراہی پر اصرار کرنے کا کو ئی جواز با قی نہ رہے۔وحی الٰہی کا یہی وہ تسلسل ہے جو حضرت محمد ﷺ پر آ کر مکمل ہوا لہٰذا اب اس کا انکا ر کرنے والے دُور کی گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گے۔اللہ تعالیٰ نہ تو انہیں معاف فرما ئیں گے اور نہ ہی انہیں سیدھی راہ کی ہدایت دیں گے ۔اب ہدایت کا واحد راستہ حضرت محمدﷺکی پیروی میں ہے ۔اہلِ کتاب (عیسائی) حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ کا بیٹا اوراللہ کی خدائی میں شریک ٹھہراتے ہیں ۔یہ با ت سراسر غلط ہے اس لیے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول اوراس کے بندے ہیں جن کا خدا کی خدائی میں کو ئی حصہ نہیں ۔اس با ت کا اعتراف حضرت عیسیٰؑ واضح الفا ظ میں فرماچکے ہیں۔ساری انسانیت کو مخاطب کر کے فرما یا گیا ہے کہ اب تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح برہان اور نورِ مبین آ چکا ہے لہٰذا جو لو گ اللہ پر ایما ن لا کر اس کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہو جا ئیں گے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے ما لا ما ل فرما کر راہِ ہدایت پر رواں دواں فرما دیں گے۔سورت کے آخر میں عورتوں کے حقوق اور وراثت کے متعلق مزید ہدایات دی گئی ہیں۔
سورہ مائدہ
سورہ ما ئدہ مدنی سورت ہے جس میں ایک سو بیس آیات اورسولہ رکوع ہیں ۔عربی زبا ن میں ’’مائدہ‘‘ کا مطلب دستر خوان ہے ۔اس سورت کے سولہویں رکوع میں اس لفظ کے استعما ل کی وجہ سے اسے اس سورت کا عنوان قرار دیا گیا ہے اس سورت میں اسلا م کے تشریعی قوانین اور مسلما نوں کی مذہبی،تمدنی اور سیا سی زندگی کے حوالے سے واضح ہدایات دی گئی ہیں۔مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ مشکل حالا ت کے بعد غلبہ تمہیں ہی حاصل ہوگا لیکن تمہیںہر حال میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی پیروی کرنا ہو گی اورما ضی کی قوموں کی نقالی سے پرہیز کرنا ہو گا ۔اس سورہ مبا رکہ میں اہلِ کتاب کو بھی مخاطب کر کے ان کی غلطیوں پر متنبہ فرما یا گیا ہے انہیں بتا یا گیا ہے کہ اگر تم دنیا اور آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو نا چا ہتے ہو تو تو تمہیں نبی آخرالزما ن پر ایمان لانا ہو گا۔ سورت کا آغاز عہد و پیما ن کی پابندی سے ہوتا ہے ۔احرام کی حالت میں الٰہی قوانین کی پیروی کا حوالہ دے کر مسلما نوں کو اس بات کی یا د دہا نی کرائی جا تی ہے کہ تمہیں ہر حال میں انصاف کے علمبردار بننا ہے ۔کسی قو م کی دشمنی تمہیں راہِ راست سے منحرف نہ ہو نے دے ۔نیکی اور خداترسی کے معلا ملا ت میں سب سے تعاون کرو لیکن گناہ اور زیا دتی کے کا موں میں کسی سے تعاون نہ کرو۔حرام و حلال کے حوالے سے ہدایات دینے کے بعد آیت نمبر3میں دین کی تکمیل اور اتما م کا اعلا ن فرمایا گیا ہے اور یہ با ت واضح فرما ئی گئی ہے کہ اب انسانیت کی ابدی فلاح و کامرانی کا ضامن صرف اور صرف اسلا م ہے ۔ آیت نمبر4میں حلال و حرام کے حوالے ہدایات دیتے ہو ئے کتابی عورتوں سے نکا ح کو جائز قرار دیا گیا ہے۔آیت نمبر5تا 10میںوضو اور تیمم کے مسائل بیا ن فرما کر یہ بتلا یا گیا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں ہر حال میں پاک و صاف دیکھنا چا ہتے ہیں ۔تم خود بھی پاکیزگی کا اہتما م کرو اور ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی جدوجہد کرو جہاں عدل و انصاف کا بول با لا ہو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرما ئیں گے اور تمہارے دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا دیں گے۔آیت نمبر 12سے اہلِ کتاب کے دونوں گروہوں یعنی یہود و نصارٰی کے کردار پر بحث کی گئی ہے۔یہود کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کا یقین دلا تے ہو ئے فرما یا تھا کہ تم نما ز و زکٰوۃ کا نظام کرو اور میرے بھیجے ہو ئے انبیاء کی نصرت و تا ئید کرو تو میں تمہیں دنیا اور آخرت میں اپنی رحمت سے مالا ما ل کروں گا لیکن وہ اللہ سے کیے ہو ئے عہد و پیما ن کو بھول گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرما ئی اور ان کے دل ہدایت کے لیے بند کر دیے ۔اب ان کی زندگی خیانت ، کتاب الٰہی کی تحریف اوردنیا پرستی میں بسر ہو رہی ہے ۔رہے نصارٰی تو انہوں نے بھی یہود ہی کے نقشِ قدم کی پیروی کی جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے دشمن بن کر راہ ِ راست سے بھٹک گئے لہٰذا ان دونوں گروہوں کو مخاطب کر کے فرما یا جا رہا ہے کہ اب تمہیں اپنی اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر نبی آخرالزما ن ﷺ کی پیروی اختیا ر کرنی ہو گی اور اگر تم کا میا بی و کا مرانی چا ہتے ہو تو تمہیں نورِ قرآنی سے اپنے دلوں کو مزین کرناہو گا ۔حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ اللہ کی خدائی میں ہر گز شریک نہیں ہیں۔یہود و نصارٰی کے اس دعوے میں بھی کو ئی جا ن نہیں ہے کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی جا نب سے ان کی نا فرما نیوں پرعذاب اور سزائیں ان کے اس دعوے کی نفی کے لیے کافی ہیں۔آیت نمبر 20سے 26تک حضرت موسیٰؑ اور ان کی بزدل قوم کاتذکرہ ہے جو بیت المقدس میں جا نے سے کتراتے تھے ۔ان کی اس بزدلی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر ذلت و مسکنت طاری فرما دی اور وہ چالیس سال تک صحرا میں بھٹکتے رہے ۔یہاں تک کہ بزدلوں کی نسل ختم ہو ئی اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو اٹھا یا جو ایمان کی دولت سے ما لا مال ہو کر بہادری کے جوہر دکھانے کے لیے تیار تھے ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بیت المقدس کی فتح سے ما لا ما ل فرمایا۔آیت نمبر27سے نسلِ انسا نی کے پہلے قتل کی روداد بیان فرما ئی گئی ہے جس کی بنیاد حسد و عداوت پر تھی۔قابیل نے ہابیل کو ایک معمولی بات پر قتل کر ڈالا اور نسلِ انسانی میں پہلا قاتل بن کر راندہ درگاہ ہوا جسے رہتی دنیا کے قاتلوں کے گنا ہ کا حصہ ملتا رہے گا۔اس ضمن میں چوری ،ڈاکے اور فساد فی الارض کی سزائیں بھی بیا ن فرما ئی گئی ہیں تا کہ انسانی معاشرہ جرائم سے پا ک ہو جا ئے۔اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیا ر کرنے ، اعما لِ صالحہ کے ذریعے قربِ الٰہی کو پانے اور جہاد فی سبیل اللہ کی تلقین فرما ئی گئی ہے ۔نبی اکرم ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ کفار ،مشرکین اور منا فقین کی ریشہ دوانیاں آپ کو کسی پریشانی میں مبتلا نہ کریں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی ان کے منصوبوں کا توڑ فرما ئے گا ۔یہ اہلِ کتاب جھوٹ کے نما ئندے،سود خور اور دنیا پرست ہیں جنہیں کتاب الٰہی میں تحریف پر بھی کو ئی ندامت نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو نجس اور پلید ہی رکھنے کا ارادہ فرما یا ہے لہٰذا انہیں طہارت و نظافت نصیب نہیں ہو سکتی۔یہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہو ں گے اور آخرت میں ان کے لیے بہت ہی بڑا عذاب ہے ۔اے نبی ﷺ اگر یہ آپ کے پاس آئیں تو آپ کو اختیار ہے کہ ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما ئیں یا ان سے اپنا رخ پھیر لیں لیکن کسی بھی صورت یہ آپ کا با ل بھی بیکا نہیں کر سکتے کیوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہیں ۔یہ با ت تاریخی طور پر ثابت ہے کہ انہوں نے تورات کے احکامات نہیں ما نے لہذا وہ اپنی فطرت کے عین مطا بق قرآن کی دعوت کو بھی مسترد کردیں گے۔تورات میں صاف طور پر لکھا تھا کہ جان کے بدلے جان،آنکھ کے بدلے آنکھ،نا ک کے بدلےناک،کان کے بدلے کان اور زخموں میں بھی قصاص لیا جا ئے گا لیکن یہود نے اللہ کے قوانین کی کو ئی پرواہ نہیں کی ۔قوانینِ الٰہی کی پیروی کی تلقین حضرت عیسیٰؑ نے بھی فرما ئی لیکن عیسائیوں کا رویہ بھی یہود سے مختلف نہ تھا۔اے محمد ﷺ اب شریعتِ اسلا می کا ابدی نظام آپ کو دیا جا رہا ہے لہٰذا مسلما نوں کو اس کے مطا بق چلنا ہو گا ۔یہ بات بھی جا ن لوکہ جو لو گ بھی اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر، ظالم اور فا سق ہیں۔اب جا ہلیت کا کو ئی نظام نہیں چلے گا ۔انسانیت کی فلاح و کامیابی الٰہی قوانین کی پیروی ہی میں ہے۔آیت نمبر 51میں واضح الفاظ میں یہود و نصارٰی سے دوستی اور گہرے تعلقات سے منع کیا گیا ہے ۔اس کی وجہ یہ بتا ئی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے سے با ہم تعاون کرتے ہیں لہٰذا وہ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔منا فقین کی یہ دلیل کہ ہمیں حالات کی سنگینی کفار کی دوستی پر مجبور کرر ہی ہے اپنے اندر کو ئی وزن نہیں رکھتی۔آج اگر مسلمانوں کو فتح مل جا ئے تو انہیں اپنی سوچ و فکر اور فعل وعمل پر ندامت ہو گی ۔یہ با ت سب پر عیاں رہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کی حاجت و ضرورت نہیں ہے ۔آج اگر کوئی اپنے دین سے پھر جا ئے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ بھی ان سے پیار کرے گا ۔وہ کفار پر سخت اور اہلِ ایما ن پر نرم ہو ں گے۔وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیںہوں گے۔کامیابی و کا مرانی ان کے قدم چومے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ما لا ما ل ہو جا ئیں گے۔آیت نمبر59میں اہلِ کتاب کو شدید الفاظ میں جھنجھوڑا گیا ہے کہ آخر تم مسلمانوںسے کس چیز کا انتقا م لے رہے ہو حالا نکہ وحی الٰہی کے اسی منبع سے انہیں بھی فیضیاب کیا جا رہا ہے جس سے تم ہدایت پاتے رہے ہو لیکن تم ہو کہ طاغوت کی بندگی پر کاربند ہو کر اپنی شخصیت کو مسخ کر چکے ہو یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے تم جیسے لوگوں کو بند ر اور خنزیر بنا دیا تھا ۔اب تمہاری حالت یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی محفل میں تم اپنا کفر لیے ہو ئے آتے ہو اور وہاں بیٹھنے کے باوجود بھی ہدایت کی کو ئی با ت تم پر اثر نہیں کرتی اور تم اسی گمراہی کو لیے ہو ئے وہاں سے رخصت ہو جا تے ہو ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تم گنا ہ اور زیا دتی کے کا موں میں سرگرم ہو جا تے اور سودخوری تمہاری شخصیت کا جزوِ لا زم بنی ہو ئی ہے ۔اب تمہارے مذہبی راہنما بھی تمہارے رنگ میں رنگے جا چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ تمہیں برے کا موں سے روکنے کے لیے تیا ر نہیں ہیں۔یہود کا یہ کہنا کہ نعوذ با للہ ’’اللہ کے ہاتھ بندھے ہو ئے ہیں‘‘۔اپنے اندر کو ئی سچا ئی نہیں رکھتا ۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں اور وہ ایسا سخی ہے کہ جیسے چا ہتا ہے خرچ کرتا ہے۔آیاتِ الٰہی کا نزول ان ہٹ دھرم اہلِ کتاب کی گمراہی میں مزید اضافہ ہی کیے جا رہا ہے اب وہ ایک دوسرے کے خلاف عداوت کی آگ میں تاقیا مت جلتے رہیں گے۔اہلِ کتاب کو اس حقیقت کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ اگر تم تورات و انجیل کا نظام قائم کرتے تو زمین اپنے سارے خزانے تمہارے لیے اگل دیتی اور آسمان اپنی ساری برکتیںتم پر نچھاور کر دیتا ۔ان آیات کے ذریعے اہلِ ایما ن کو بھی یہ خاموش پیغام دیا گیا ہے کہ اگر رحمتِ الٰہی سے فیضیاب ہونا چا ہتے ہو تو نظامِ الٰہی کو اپنے معاشروں اور ممالک میں نافذ العمل کرو ۔آیت نمبر 67نبی اکرم ﷺ کو فریضہ رسالت کی ادائیگی کی تلقین کرتے ہو ئے یہ خو ش خبری بھی دے رہی ہے کہ دشمنوں کی کو ئی بھی چا ل آپ کو گزند نہیں پہنچا سکتی اس لیے کہ اب آپ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرما یا تھا کہ اب مجھے تمہارے پہرے اور حفاظت کی کو ئی ضرورت نہیں ہے اس لیے اب میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں براہ راست دے دیا گیا ہوں۔اسلا م پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے ۔یہودی ہو یا عیسائی،آتش پرست ہو یا بت پرست جو بھی اللہ پر ایما ن لا کر دینِ اسلا م کا سچا پیروکار بن جا ئے گا کامیابی اس کا مقدر بن جا ئے گی ۔اسے نہ تو کو ئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ کسی غم سے دوچار ہو گا ۔بنی اسرائیل کی تاریخ ان واقعات سے بھری ہو ئی ہے کہ انہوں نے جس بھی نبی کو نا پسند کیا اسے یا تو ہجرت پر مجبور کیا یا اسے قتل کر ڈالا جب کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت کا دعویٰ کیا حالانکہ خودحضرت عیسیٰؑ واضح الفاظ میں ارشاد فرما چکے ہیں کہ ’’اے بنی اسرائیل صرف اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی ۔یہ با ت بھی جا ن لو کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیں گے اور اس کا ٹھکا نہ جہنم کی آگ ہو گی اور ایسے ظالموں کاکو ئی بھی مددگار نہیں ہو گا‘‘۔آخر میں اہلِ کتاب کو دین میں غلو سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ بنی اسرائیل پر امر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ چھوڑنے کی پاداش میںاللہ تعالیٰ کے دو اولوا لعزم نبیوں حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰؑ کی زبا نی لعنت فرما ئی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دینے اور برا ئی سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں اگر وہ اس فریضے کی ادائیگی میں کو تاہی کریں گے تو ان کی دعائیں مسترد ہو جا ئیں گی اور اللہ تعالیٰ ان سے اپنی رحمت کا ہاتھ کھینچ لیں گے۔
تازہ ترین