موجودہ حکومت کو اب 3سال ہونے کو آرہے ہیں۔ نہ بجلی کا وعدہ وفا ہوا نہ کرپشن رکی، تیل، ڈیزل، پیٹرول کی عالمی منڈی میں زبردست کمی کے باوجود قوم کو اس میں سے صرف ایک تہائی فائدہ پہنچایا گیا اورمخالفین کہہ رہے ہیں کہ درپردہ خود ہمارے وزیر خزانہ نے پیٹرولیم کی وزارت سے مل کر قیمتوں کو حکومت کے خسارے سے منسلک کر کے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر دیں۔ قوم حیران ہے کہ ہماری حکومت ایک ہاتھ سے تو آئی ایم ایف کی من مانی شرائط پوری کر کے دن رات قوم کو قرضوں میں جکڑ رہی ہے اور دوسری طرف اضافی موٹر وے ، میٹرو ٹرین ، اورنج ٹرین ، میٹرو بسیں وغیرہ بنائی جارہی ہیںان منصوبوں میں ناقدین کرپشن کے الزام لگارہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب اربوں نہیں کھربوں میں بیوروکریٹس حکومت سے مل کر ملک کو کھوکھلا کرنے کے در پےہیں۔ اینٹی کرپشن کا ادارہ تو دونوں جمہوری حکومتوں نے پہلے ہی مفلوج کر دیا تھا اب کسی ادارے پر عوام کو اعتبار نہیں رہا ہے ۔ ایسے میں خود ہمارے فوجی سربراہ نے دہشت گردی اور کرپشن کو روکنے کے لئے رینجرز کے ذریعے اقدامات کئے ۔ بہت حد تک رینجرز نے اس پر قابو بھی پا لیا ، خصوصاً سندھ میں کراچی شہر جو بھتہ مافیا ، ٹارگٹ کلنگ ، لوٹ مار اور دہشت گردی میں دوسرے صوبوں کی بہ نسبت بہت آگے تھا۔ عوام کو اس سے نجات تو دلا دی مگر کرپشن کوروکنے میں قطعی ناکام رہی ۔ اس کے پاس صرف 90دن کا مینڈیٹ ہوتا ہے وہ بھی حکمران جماعت سے اجازت کی شرط درکار ہوتی ہے مگر اس میں بھی غیر سیاسی شخصیتیں ان کی گرفت میں آتی ہیں۔ ایسےسیاستدان جو کرپشن میں اپنا جواب نہیں رکھتے وہ اس سے مبرا ہیں۔ وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اگلا مرحلہ پولیس کا ہوتا ہے ۔ خود ملزم اقراری بیان معہ ثبوتوں سے مکر جاتا ہے ۔ گواہ غائب کر دیئے جاتے ہیں ،عدلیہ عدم ثبوت پر بری کر دیتی ہے ۔ اس سے فوج اور رینجرز کی سبکی ہوتی ہے ، اب وہ پیچھے ہٹنے لگی ہے ۔ خصوصاً چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت بڑھانے پر انکار کر دیا تو کرپٹ لوگوںکو اطمینان ہو گیا ہے کہ وہ 9ماہ بعد دوبارہ کھل کر میدان میں پھر اتریں گے ۔
عوام کی خواہش تھی کہ آرمی چیف دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کرپشن کا بھی خاتمہ کر کے جاتے ، جیسا ماضی میں فوجی سربراہان بخوشی اپنی مدت ملازمت میں توسیع کو قبول کر لیتے تھے۔ اگر ہمارے سیاسی حالات کا تجزیہ کیا جائے تو صرف 2فوجی حکومتوں میں پاکستان کو معاشی خوشحالی نصیب ہوئی تھی۔ ایک جنرل ایوب خان کے گیارہ سالہ دور میں اور دوسری جنرل مشرف کے دور میں، ضیاء الحق کا دور افغان جنگ اور لسانی جماعتوں کی آبیاری، اسلام کے نام پر مذہب کا بے دریغ استحصال کر کے اقتدار کو طول دینے کا دور تھا۔ 2دو مرتبہ جمہوری دور میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں کرپشن کے الزامات سے شروع ہو کر انہی الزامات پر ختم ہوئی تھیں دونوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں ڈالر 32روپے تھا جس کو ان دونوں نے مل کر قرضے لے لے کر آج کہاں پہنچا دیا ہے ۔ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف صاحب نے راتوں رات ڈالر 58روپے کر کے غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ منجمدکر دئیے اورمرحوم بھٹو کی نیشنلائزیشن کی طرح ایک اور خطرناک تجربہ کر ڈالا۔ ہماری دھاک تو بیٹھ گئی مگر ساتھ ساتھ معیشت بھی بیٹھ گئی۔ پھر اس کا رد عمل سامنے آیا۔ آرمی چیف کی اچانک برطرفی ان کو بھی لے ڈوبی اس میں خود ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے وزراء، مشیران شامل تھے۔ خیر اس کے بعد پرویز مشرف صاحب نے بھی معاشی بحالی کے لئے متعدد تجربے کئے۔ وہ 8سال تک تو فوجی اور جمہوری حکومتوں کے کاندھوں پر صحیح جارہے تھے کہ اچانک ان کے بھی مشیروں نے وہی حرکت کی جو وہ پہلے میاں نواز شریف کے ساتھ کرتے آئے تھے۔ چیف جسٹس صاحب سے تنازع اور ساتھ ساتھ لال مسجد اور نواب اکبر بگٹی کا قتل بھاری پڑ گیا۔اس دور میںنہ مہنگائی کا رونا، نہ کرپشن، دہشت گردی تھی۔ میں فوجی حکومتوں کی ترجمانی نہیں کرتا مگر دونوں ادوار کو دیکھیں کہ عوام کو کہاں سکھ ملا، یہاں یہ لکھنا ضروری ہےکہ جب سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز کیانی آئے تو ان تک بہت سی کرپشن کی معلومات فوج اور متعلقہ اداروں نے پہنچائیں مگر انہوں نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔ خیر 2013میں الیکشن کا میدان سجا تو اچانک مشرف پر مقدموں کی بھرمار کر دی گئی۔ اس وقت ان کے رقیب چیف جسٹس صاحب کا اثر و رسوخ تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف بھی ان سے نالاں تھے کسی نے ان کی 9سالہ خدمات کو نہیں سراہا۔ بلکہ 2تین غلطیوں کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا اور اس طرح ان کی تمام ایمانداری کو نظر انداز کر کے ان کی سیاسی بصیرت کو جمہوری دور کی نذر کر دیااور خود سب نے مل کرانہیں الیکشن سے دور کر دیا۔ نتیجہ اب قوم کے سامنے ہے، پہلے 5سال تک پی پی پی قوم کا خون چوستی رہی اور پھر مسلم لیگ (ن)،پی پی پی کی کرپشن، دہشت گردوں کی سرپرستی، مہنگائی، بجلی، گیس کی کمیابی کے تیر برسا کر اقتدار میں آئی۔ اب قوم ان 3سالو ں کے بعد آج بھی ان ہی مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ عمران خان اپنی پہلی ہی اننگ میں ناکام ہوگئے ہیں۔ پورے ملک کا بوجھ تو کجا صرف ایک چھوٹے صوبے میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے۔ کراچی میں جہاں انہیں پذیرائی ملی تھی وہاں بھی ثابت قدم نہ رہے اور اس پڑھے لکھے شہر کے عوام کو بھی مایوسی کے غار میں دھکیل دیا۔ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں شکست ان کی سیاسی بصیرت کا کچا چھٹا کھول گئی۔ بعض حلقوں کی خواہش ہے کہ جنرل راحیل شریف صاحب، جنرل پرویز مشرف کے لئے سیاسی راہیں کھولیں۔ مولانا عبدالعزیز نے بھی انہیں معاف کر دیا ہے۔ بگٹی مرحوم کے فرزند بھی 2حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اگر اس کو بھی حل کرا کر پرویز مشرف کی عدلیہ سے بھی گل خلاصی ہوجاتی ہے تو مشرف کے خاموش حامی جو ان کی کارکردگی کو آج بھی سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، آنے والے 2سال بعد کے الیکشن میں ان کا ساتھ دیں گے۔ ویسے بھی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) 3تین بار سیاست میں آکر کچھ نہیں کرسکیں تو پرویز مشرف کو دوسرا چانس کیوں نہیں ملنا چاہئے جو ہر لحاظ سے ان دونوں سیاسی جماعتوں سے بہت بہتر کارکردگی دکھا چکے ہیں۔