کراچی(جنگ نیوز) سینئرتجزیہ کاروں نے نواز شریف کی تقریر کے حوالے سے کہاہے کہ نوازشریف نے کہیں پوراسچ اور کہیں آدھاسچ بتایا‘مسئلہ پرویز مشرف نہیں بلکہ ان کی نااہلی ہے ‘نواز شریف نے یہ دوسری قسط دی ہے تیسری کا انتظار کریں ۔نواز شریف کے ترکش سے کئی تیر نکل چکے ہیں کئی نکلنے والے ہیں۔ انا خیالات کا اظہار ممتاز تجزیہ کار حامدمیر‘شہزادچوہدری ‘ ارشاد بھٹی ‘مظہرعباس اور حفیظ اللہ نیازی نے جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سینئر اینکر حامد میر نے نواز شریف کی تقریر پر تجزیہ دیتے ہوئے کہاہے کہ نواز شریف نے اپنے تحریری بیان کے آخر میں ایک ایسی بات کر دی ہے جس کی وجہ سے مجھ جیسے آدمی کا کام آسان ہوگیا ہے‘ نواز شریف نے آخر میں کہا کہ ہم سب نے ایک دن اللہ کو جواب دینا ہے اور آخری عدالت اللہ کی عدالت ہوتی ہے بالکل ٹھیک انہوں نے کہا ہے‘ جو انہوں نے باتیں کیں ہیں کچھ پورا سچ ہیں کچھ آدھا سچ ہیں ‘کچھ باتوں کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا‘ نئی بات کوئی نہیں کی‘میں نے نومبر 2013 ء میں کہا تھا کہ 2014 ء میں ایک لانگ مارچ ہوگا اور اس کا مقصد پرویز مشرف کو غداری کے مقدمے سے بچانا ہوگا لیکن اب اس میں نواز شریف نے بعض جگہوں پر آدھا سچ بولا ہے‘یہ نہیں بتایاکہ دھرنوں میں اگر ایک فریق سازش کر رہا تھا تو کون کون سے لوگ ساتھ کھڑے تھے‘غداری کا مقدمہ نہ بنانے کا مشورہ دینے والے کون لوگ تھے ‘یہ نواز شریف نہیں بتا رہے‘ یہ مشورہ دینے والے اُن کی اپنی ہی پارٹی اور خاندان کے لوگ تھے‘ وہ لوگ ناصرف نواز شریف پر دباؤ ڈالتے تھے ہمیں بھی کہتے تھے کہ آپ بھی یہی بات کریں کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ نہیں چلنا چاہیے‘ایٹمی دھماکوں کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں بنتا‘ایٹمی دھماکوں سے متعلق لوگوں کے پاس کئی راز ہیں ‘اگر وہ راز سامنے آگئے تو نواز شریف کے لئے بڑا مسئلہ ہوجائے گا لگتا ہے‘ انہوں نے اپنے پورے بیان کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ یہ لگے کہ جو اِن کے خلاف کیس بنا ہے وہ اس لئے بنا ہے کہ انہوں نے مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا حقائق اس سے مختلف نظر آرہے ہیں‘ مشرف کے خلاف مقدمہ 2013 ء میں شروع ہوا ور مارچ 2016 ء میں پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دے دی گئی‘ سپریم کورٹ کے آرڈر میں یہ نہیں لکھا گیا تھا کہ یہ پاکستان سے باہر جاسکتے ہیں ‘سپریم کورٹ نے کہا تھا ان کی موومنٹ کو ریگولیٹ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلتا رہے گا‘مشرف کے جاننے کے بعد پاناما کا اسکینڈل آیا اس لئے نواز شریف کا یہ بیانیہ کسی طور درست نہیں مانا جاسکتا‘ یہ درست ہے دھرنے کے دوران میسج بھیجا گیا تھاکہ آپ استعفیٰ دے دیں یا چھٹی پر چلے جائیں لیکن انہوں نے اس کا نام نہیں بتایا لیکن ہم اُن کا نام بھی بتا چکے ہیں‘1997 ء میں جب پہلی دفعہ میں نے لندن فلیٹس کے بارے میں لکھا تھا تو اس وقت مجھ پر بہت دباؤ آیا تھا پھر مجھے اخبار کی ایڈیٹر شپ سے بھی استعفیٰ دینا پڑا‘جو باتیں نواز شریف نے کی ہیں یہی باتیں جب مشاہد اللہ نے کیں تھیں تو نواز شریف نے اُن کو وزارت سے ہٹا دیا تھا تو کیا یہ اُصول پسند اور نظریاتی لیڈر کا کردار تھا‘ پھر شہباز شریف چوہدری نثار اور بہت سے لوگ تھے انہوں نے کہا مشرف کو جانے دیں انہوں نے جانے دیا میں عینی شاہد ہوں‘ ڈان لیکس کے معاملہ دیکھ لیں کیا وہ ایک نظریاتی آدمی کا کردار تھا کوئی ثبوت نہیں آئے پرویز رشید کے خلاف اور انہوں نے سمجھوتہ کر لیا۔