گوھر علی خان
2013کے عام انتخابات میں90 روز میں تبدیلی لانے کے نعرے پر خیبر پختونخوامیں برسر اقتدار آنے والی پاکستان تحریک انصاف کی منتخب حکومت جوکہ اب چند دنوں کی مہمان ہے۔اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرکے 2018میں رخصت ہورہی ہے۔ مگر جاتے جاتے صوبے کی پولیس اور سرکاری ہسپتالوں میں بعض بنیادی اصلاحات کرکے عوام کو کسی حد تک ریلیف فراہم کرکے اُن کی نظروں میں نام تو کمایا مگر اس کے ساتھ ہی صوبے کے غریب عوام کو تین سو ارب روپے کے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا تاریخی تحفہ دے کر ایک آباد اور خوبصورت تاریخی شہر کو اُجاڑ کر چھوڑے جا رہی ہے ۔اقتدار سنھبالنے کے بعد اس حکومت نے صوبے کے عوام سے بڑے بڑے وعدے کئے تھے جن میں صوبے کی پولیس کے شعبے میں بنیادی اصلاحات اور سرکاری ہسپتالوں کے نظام میں بہتری لانا پی ٹی آئی حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے کے بنیادی مقاصدمیں شامل تھا جس میں گذشتہ پانچ سالوں کے دوران پی ٹی آئی حکومت کسی حد تک کامیاب رہی خصوصاً پولیس کے شعبے میں جواصلاحات کی گئیں اسے مخالفین نے بھی سراہا گیا اور ان اصلاحات کے نتیجے میں صوبے میں دہشت گردی اورشدت پسندی میں کمی لانے اور صوبے میں پائیدار امن کی بحالی بھی ممکن ہوسکی مگر صوبے میں مثالی احتساب کے قیام اور ترقی کے جو بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے اس میں پی ٹی آئی کو خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی خاص کر حکومت کی قائم کردہ احتساب کمیشن کا حشر دیکھنے کے بعد مثالی احتساب کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔اسی طرح صوبے کے عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے صوبائی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ بہت جلد صوبے کے کرپٹ عناصر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونگے اورمثالی احتساب کے علاوہ پسماندہ صوبے خیبر پختونخوا کی ترقی دوسرے صوبوں کے لئے مثال بنائیں گے آج پانچ سا ل پورے ہورہے ہیں اس حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں میں اب قریباً ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔بقول شاعر ’’ایک شخص سارے شہرکو ویراں کر گیا‘‘کے مصداق پوراپشاور شہر ویران ہے،شہر میں ہر طرف دیوقامت ستون ہی ستون ہیں اور پھولوں کے نام سے مشہور شہر پشاور اس وقت پھولوں کی بجائے ستونو ں کے شہر کا منظر پیش کررہا ہے ۔اور آج حالت یہ ہے کہ تبدیلی کے دعویداروں کے لئے صوبے میں سب سے بڑی کارکردگی ایک غیر حقیقت پسندانہ اور ناقص منصونہ بندی کے شکا ر ’’ پشاور ریپڈ بس‘‘ منصوبے تک محدود ہوچکی ہے۔ احتساب ، پولیس کے شعبے ، سود کے خاتمے ،کنفلیکٹ آف انٹرسٹ،عوام کو معلومات اور خدمات تک رسائی کے قوانین اور محکمہ تعلیم کیلئے ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے نہ صرف قانون سازی کی گئی بلکہ اس پر سیاست بھی کی گئی مگر ان قوانین پر عمل درآمد کا حشر سب نے دیکھ لیا ہے انہوں نے ادارے تو بنالئے ہیں مگر کسی ادارے کو بھی اختیار دیا گیا نہ ہی فری ہینڈ بلکہ زیادہ تر ادارے ،کمیشنز اور پبلک پارٹنر شپ کے کمپنیان اپنوں کو نوازنے کے لئے بنائے گئے ان میں منظورنظر افرادکو بھاری تنخواہوں پر بھرتی کیا گیا جس کی کارکردگی صفر رہی ہے ۔میرٹ کے نام پر این ٹی ایس نامی نجی ادارے کو صوبے کے عوام پر مسلط کیا گیا جس نے صوبے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا استحصال کیا ان سے ٹسٹ کے نام پر کڑوڑوں روپے بٹورے گئے مگر اس صوبے کو ایک پائی کا ٹیکس ادانہیں کیااین ٹی ایس ایک ایسا اداروہ تھا جس کے اپنے سربراہ کی ڈگری جعلی نکلی ان کی کریڈیبلیٹی سوالیہ نشان بنی رہی مگر خیبر پختونخوا کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے مستقبل سے کھلتا رہا اوریہاں حکمرانوں کی مرضی کے مطابق بھرتیاں کرنے اور صوبے کے غریب عوام سے ٹسٹ کے نام پر کروڑوں سمیٹ کر چلاگیا ۔اسی طرح صوبائی احتساب جس کے بارے میں وزیراعلیٰ نے اپنے پہلے خطاب بڑے بڑے دعوے کئے تھے کہ ہم ایسا احتساب کا ایسا نظام قائم کریں گے کہ دوسرے صوبوں کے لئے مثال بنے گا ،بڑے بڑے مگر مچھ جلد جیل کی سلاخوں کے پھیچے ہونگے۔ حکومت کے دن پورے ہوگئے مگر نہ تو نام نہاد احتساب کا ادارہ پہلے ہی دم توڑ چکا ہے نہ ہی کوئی بڑی مچھلی پکڑی گئی جن ایک آدھ رکن اسمبلی پر اربوں کے کرپشن کے الزامات عائد کرکے اسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ان پرچار سال میں ایک پائی کی کرپشن ثابت کرسکے ۔ معلومات تک رسائی اور خدمات کی فراہمی کے لئے قائم کمیشنز کی کارکردگی بھی ورکشاپ ،سمینارز اور اخباری اشتہارات سے آگے نہ بڑھ سکی البتہ عوام کے پیسوں پر چند ریٹائرڈ بیورو کریٹ کو خوش کرنے اورمن پسند افراد کو بھرتی کرنے کے مواقعے ضرور پیدا کئے گئے ۔تاہم ہیلتھ کیئر کمیش اور ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی عدلیہ کے نوٹس کے بعد کارکردگی دکھانے کی کوشش کی جس میں حکومت کا کوئی کمال نہیںا گرعدلیہ ان کے پیھچے ڈنڈا نہ اٹھاتا تو ان اداروں کی کارکردگی بھی محض نشستً خوردًاور برخواستً تک محدود رہتی ۔اس حکومت کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ وفاق سمیت تمام صوبے نئے مالی سال کا اپنا اپنا بجٹ پیش کرچکے ہیں مگر یہ واحد حکومت ہے جس نے ابھی تک مالی سال2018-19 کا صوبائی بجٹ تک پیش نہیں کرسکی اور ا س معاملے میں بلوچستان سے بھی پیھچے رہ گیا ہے ۔ رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے شہر میں ناجائز منافع خوروں اور گرانفروشوں نے بازار گرم کررکھا ہے مگر صوبائی انتظامیہ کہیں پر بھی نظر نہیں آتی۔ محض اخباری کے ذرئیے بازاروں کو کنڑول کرکے عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے جبکہ بازاروں میں گرانفروشوں کو کھلی چھٹی دی گئی ہے جو اس مقد س ماہ رمضان میں غریب روزہ داروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔اور ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ ادھر اپوزیشن نے گورنر کو درخواست دی ہے کہ چونکہ وزیر اعلیٰ ایوان میں اکثریت کھو چکے ہیں اس لئے انہیں ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا جائے۔تاہم بجٹ پاس نہ ہونے کی وجہ سے جہاں جولائی میں صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبے متاثر ہونگے وہاں عین ممکن ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہونے والے اضافے میں بھی ایک ماہ کی تاخیر ہو جائے۔پی ٹی آئی کی حکومت کی رخصتی میں اب چند دن میں ختم ہورہی ہے لیکن اسکے باوجود وفاق کے ساتھ روز اول سے جاری محاذآرائی اور نواز شریف دشمنی میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ رخصت ہوئے بھی صوبائی وزیر شاہ فرمان نے (ن) لیگ کے نواز شریف کے حالیہ متنازع بیان کے خلاف خیبر پختونخوا اسمبلی میں قرارداد جمع کرادی ہے ۔