• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نئی منتخب حکومت کے لئے ’’اقتدار‘‘ کانٹوں کی سیج سے کم نہ ہوگا

نئی منتخب حکومت کے لئے ’’اقتدار‘‘کانٹوں کی سیج سے کم نہ ہوگا

الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول کر اعلان کر دیا ہے سیاسی جماعتو ں میں صف بندی کا آغاز ہو گا ہے۔ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ میں نگران سیٹ اپ کیلئے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور نگران وزیراعظم کاا بھی فیصلہ نہیں ہو سکا اور پیپلز پارٹی اور حکومت میں اتفاق رائے نہیں ہو سکا پیپلز پارٹی نے کرکٹ کنٹرول بورڈ کے سابق صدر ذکاء اشرف اور سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کا نام پیش کیا جو حکومت اور تحریک انصاف دونو ں نے مسترد کر دیا حکومت نے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی چیف جسٹس ناصر الملک اور سٹیٹ بینک کی سابق صدر ڈاکٹر شمشاد اختر اور ڈاکٹر عشرت حسین کانام پیش کیا۔ ادھر مسلم لیگ ن کے کئی پرندے اڑ کر تحریک انصاف کے پنجرے میں چلے گئے اور جو ن میں کئی مزید ارکان پارلیمنٹ کے مسلم لیگ ن چھوڑنے کیلئے پر تو ل رہےہیں۔ مگر میاں نواز شریف اب بھی پر اعتماد ہیں کہ چند لوٹو ں کے چلے جانے سے ہمیں فرق نہیں پڑے گا ۔ کیو نکہ تحریک انصاف کے پاس ووٹ نہیں ہیں مسلم لیگ ن کے پاس اب بھی حماتیو ں کی کمی نہیں کیونکہ لوگو ں کو علم ہے کہ مجھے اقامہ کی بنیاد اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی بنیاد پر نکالا گیا ہے اور میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ تحریک انصاف میں دھڑا دھڑ لوگ شامل ہو رہےہیں ۔ٹکٹو ں کی تقسیم کے وقت عمران خان کو بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گاکیو نکہ وہ اپنے پرانے ساتھیو ں کو اکاموڈیٹ کریں گے یا نئے لوگو ں کو کئینئے لوگوں کو ٹکٹ نہ ملنے پر مایوسی ہو گی تاہم سیاسی مبصرین کے مطابق تحریک انصاف پنجاب اور کے پی کے سے اتنی سٹیں نہیں لے سکے گی کہ وہ تنہا حکومت بنالے پنجاب میں پیپلز پارٹی وہ پوزیشن حاصل نہیں کر سکی جسکی انہیں توقع تھی تاہم سندھ میں پیپلز پارٹی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ پنجاب تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن( کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ جبکہ اس مقابلے میں تحریک انصاف کا ساتھ مسلم لیگ ق بھی دے گی ان دونوں جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد کا امکان ہے بہرحال تحریک انصاف اپنے طور پر اقتدار سنبھالنے کے لئے پوری طرح تیار ہے اس نے اگرچہ 100دن کا پروگرام بھی دے دیا ہے مگر پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اے این پی نے اس پروگرام کو ناقابل عمل قرار دیا ہے اور اسے خوش فہمیوں کا پلندہ قرار دیا ہے۔ اللہ کرے الیکشن خیر خیریت سے ہو جائیں اور خدا نخواستہ کوئی بڑا واقعہ نہ ہو جائے اور یہ نگران سیٹ اپ طوالت اختیار نہ کر جائے تاہم الیکشن کی صورت میںجو بھی پارٹی اقتدار میں آئی اس کے لئے حکومت پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہو گی۔ بالخصوص تحریک انصاف سے عوام کی توقعات انتہا درجے تک پہنچ گئی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اگر اقتدار میں آتے ہیں تو وہ عوام کو جو سبز باغ دکھا رہے ہیں اس پر کیسے عمل کر تے ہیں۔

نئی منتخب حکومت کے لئے ’’اقتدار‘‘کانٹوں کی سیج سے کم نہ ہوگا

ملک خطرات میں گھر چکا ہے آئندہ دو تین ماہ میں اہم تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ کرپشن نے ملک کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے ملک کے اربوں ڈالر لوٹ کر بیرون ملک منتقل کردیئے ہیں ان کے بچے ملک سے باہر عیاشیاں کر رہے ہیں پاکستان میں لوگ بھوک افلاس کا شکار ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ مہنگائی نے غریبوں کی زندگی اجیرن کردی ہے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف آج ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ہیں تو پھر انہوں نے ماضی میں ملنے والے ووٹ کو عزت کیوں نہیں دی انہوں نے اہم معاملات پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جو معاملات آج جلسوں میں اٹھا رہے ہیں وہ پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھائے۔ ان سے پانچ چھ وزراء کے علاوہ کوئی وزیر نہیں مل سکتا تھا نہ ہی ان کی وزیر اعظم ہائوس تک رسائی تھی۔ جب آپ نے خود پارلیمنٹ ، اپنی کابینہ اور ارکان اسمبلی کو اہمیت نہیں دی تو پھر الزام اسٹبلشمنٹ کو کیوں دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں عدلیہ سے نا اہلی کے بعد میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ زور پکڑ رہا تھا کہ مجھے کیوں نکالا مگر اچانک میاں صاحب نے اپنے پارٹی پر کلہاڑا مارا اور غلط موقع پر غلط بیان دیدیا۔ ان کے بیان کو بھارت اور امریکہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا بھارت نے عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف طوفان کھڑا کردیا جبکہ امریکی محکمہ خارجہ اور پنٹا گان کے ترجمان نے بھی میاں صاحب کے بیان پر فوری رد عمل ظاہر کیا کہ نواز شریف کا بیان پاکستان کے لئے فیصلہ کن موڑ ہے ۔

سیاسی ناقدین کے مطابق میاں نواز شریف کو یقین ہوگیا ہے کہ اب انہیں احتساب عدالت سے سزا بھی ہونے والی ہے ، وہ اب غیر ملکی قوتوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ بہر حال اس صورت حال سے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی میں کھلبلی مچ گئی ہے اور ارکان اسمبلی دھڑا دھڑ مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں پارٹی چھوڑنے والے ابن الوقت لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے جیتنے کے امکانات کم ہو گئے اور پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کا امکان روشن ہے لہٰذا بعض حکومت کے مزے لینے کے بعد آخر دنوں میں پارٹی کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے نامور لوگوں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بہت پر اعتماد لگ رہے ہیں کہ وہ ان کی جماعت اقتدار لازمی آجائے گی اسی لئے انہوں نے سو دن کا منشور اور پروگرام بھی پیش کر دیا ہے اور عمران خان نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں انہیں اور ان کی پارٹی کو کوئی تجربہ نہیں تھا اب کے پی کے حکومت کیوجہ سے انہیں خاصہ تجربہ ہو گیا ہے اور وہ بہتر انداز میں انتخابات لڑیں گے۔ عمران خان کا پروگرام تو بہت اچھا ہے خدا کرے اس پر عملدرآمد ہو جائے اگر عمران خان صاحب کی جماعت انتخابات جیت کر اقتدار میں آجاتی ہے اسے ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنا بالخصوص عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف پابندیوں قرضوں کی ادائیگی معاشی بدحالی امن و امان کی صورت حال پر کنٹرول کرنے سمیت بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر آنے والوں سے ٹکٹوں کی فراہمی کے وعدے کئے جا رہے ہیں اور ایسی صورتحال میں پرانے پارٹی ورکروں اور امیدواروں کا کیا مستقبل ہو گا یقیناً ہر حلقے میں تحریک انصاف کے دو دو امیدوار ہونگے تحریک انصاف کا مسلم لیگ ق کے ساتھ انتخابی اتحاد طے ہو چکا ہے مسلم لیگ ق کے ساتھ بھی ان کے پرانے ساتھیوں نے دھوکہ کیا ہے ان کے اچھے اچھے امیدوار پہلے ہی تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں ہمیں اب بھی یقین ہے کہ آئندہ انٓتخابات میں اگر تحریک انصاف پنجاب سے اچھی خاصی نشستیں لے لیتی ہے تو دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی ہو گی اور عمران خان کو بادل نخواستہ پیپلزپارٹی کو ہی ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔ مسلم لیگ ن کو آئندہ چل کر مشکلات ہی مشکلات درپیش ہونگی ،چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار صاحب ان دنوں روس اور چین کے دورے پر ہیں اوران کی واپسی 28مئی تک متوقع ہے ان کی آمد کے بعد سپریم کورٹ میں بہت اہم کیسوں کی سماعت ہوگی۔ ان میں خواجہ آصف، دانیال عزیز اور طلال چوہدری سمیت کئی اہم کیس زیر سماعت ہونگے جبکہ 9جون 2018 تک احتساب عدالت میں کسی ایک ریفرنس کا فیصلہ لازمی آسکتا ہے۔ احتساب عدالت نے میاں نواز شریف سے27سوالات پوچھے ہیں جس میں ایک اہم سوال بیرون ملک کاروبار کے حوالے سے منی ٹریل دینے کا سوال ہے جس کا جواب آج تک نہیں دیا گیا۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر منی ٹریل دے دیتے ہیں تو نواز شریف کی بچت ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین