کراچی (نیوز ڈیسک) پاکستان کےسابق فوجی صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اگر وہ اس وقت ملک کے صدر ہوتے تو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرکے امریکا کے حوالے کرنے پر رضامند ہو جاتے، بشرطیکہ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے تحت، امریکا کے ساتھ کوئی سمجھوتا طے پا جاتا۔ امریکی ریڈیو ’وائس آف امریکا‘ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں ایک وفادار ساتھی کی حیثیت سے امریکا کا ساتھ دیا ہے لیکن امریکا نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ اسی وقت بڑھایا جب اسے پاکستان کی ضرورت پیش آئی۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’امریکا میں موجودہ انتظامیہ کے دور میں پاکستان امریکا تعلقات خراب ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دونوں ملک اختلافات دور کرنے کیلئے مذاکرات کریں‘‘۔ پرویز مشرف نے کہا کہ ’’دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی وجہ افغانستان کی صورتحال ہے اور امریکا کا یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان امریکا کو افغانستان کے حوالے سے ڈبل کراس کر رہا ہے، پا کستا ن کو بھی امریکا سے شکایات ہیں اور امریکا کو یہ بات سمجھنی چاہئے‘‘۔ پرویز مشرف نے کہا کہ ’’امریکا کا مکمل جھکاؤ بھارت کی طرف ہوگیا ہے اور اس بات سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’بھارت افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور یوں امریکا کی طرف سے بھارت کی طرف مکمل جھکاؤ پر پاکستان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے‘‘۔