محمد عبدالمتعالی نعمان
پیغمبرِ آخر و اعظم ،سیدِ عرب و عجم،حضرت محمد ﷺکی ازواج مطہراتؓ یعنی امت کی مقدس مائوں امہات المومنینؓ کی حیات و خدمات اور سیرت و کردار تاریخ اسلام کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ ازواج مطہراتؓ کے حجرات درحقیقت علوم اسلامی کی ترویج و اشاعت کی جامعات اور علوم نبویؐ کی درس گاہیں تھیں، جہاں سے دنیا علوم نبویؐ سے فیض حاصل کرتی رہی، حتیٰ کہ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کی جملہ تعلیمات اور قرآن و سنت کی تفسیر و تشریح امت تک پہنچی۔ گویا نبی کریمﷺ کی گھریلو زندگی امت تک پہنچانے کا فریضہ ازواج مطہراتؓ نے احسن طریقے سے بہ حسن وخوبی انجام دیا۔ سرورِ عالم حضرت محمد ﷺکی مقدس ازواج مطہراتؓ میں خلوص و وفا کی پیکر، محسنہ اسلام، خیرالنساء حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریؓ کا نام نامی اسم گرامی اولین اور سرفہرست ہے، جن کی سیرت و کردار اور خدمات سے اسلامی تاریخ کے ادوار اور باب روشن و منور ہیں۔
آپ کا اسم مبارک خدیجہؓ، ام ہند کنیت اور طاہرہ لقب ہے۔ سلسلۂ نسب یہ ہے:۔ خدیجہؓ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی (قصی حضرت خدیجہؓ کے پر دادا اور حضرت محمدؐ کے جد اعلیٰ تھے)۔ قصی پر پہنچ کر سیدہ خدیجہؓ کا خاندان رسول اکرمﷺ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ آپؓ کی والدہ محترمہ کا نام فاطمہ تھا، وہ لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھیں۔ آپؓ عام الفیل سے 15 سال قبل پیدا ہوئیں۔ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے والد خویلد بن اسد ایک کامیاب تاجر تھے اور نہ صرف اپنے قبیلے میں باعظمت شخصیت کے مالک تھے ،بلکہ اپنی خوش معاملگی و دیانت داری کی بدولت تمام قریش میں بے حد محترم اور ہر دلعزیز تھے ۔
حضرت خدیجہؓ سن شعور کو پہنچیں تو زمانہ جاہلیت کی آلودگیوں سے پاک اور ان تمام صفات حسنہ سے متصف تھیں، جو عورت کو مثالی بناتی ہیں۔ آپؓ کی عادات پاکیزہ، ذوق لطیف اور زندگی مطہر تھی،اسی لیے معاشرے میں ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے معروف تھیں۔ دولت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت خدیجہؓ کو بہترین کاروباری ذوق اور صلاحتیں بھی عطا کی تھیں یہی وجہ ہے کہ آپؓ عرب کی بے حد مالدار اور کامیاب تاجرہ تھیں۔ مشہور ہے کہ اہل مکہ کا کاروان تجارت بیرون ملک جاتا تو اکیلا ان کا مال تجارت باقی تمام تاجروں کے سامان تجارت سے زیادہ ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرکار دو عالمﷺ کی شہرت ’’صادق و امین‘‘ کے لقب سے تمام مکے میں پھیل چکی تھی اور آپﷺ کی راست بازی، سچائی و دیانت داری اور اخلاق کریمانہ کی عام شہرت تھی۔ چناں چہ حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کو پیغام بھیجا کہ ’’آپ میرا مال تجارت لے کر شام جائیں اس کے صلے میں تجارت کے منافع میں جتنا نفع اوروں کو دیتی ہوں، آپﷺ کو اس سے دوگنا ادا کروں گی، اگر آپﷺ اس کام میں ہماری معاونت فرمائیں، ہادی اعظمﷺ نے حضرت خدیجہؓ جنہوں نے آگے چل کر آنے والے ایام میں اولین مومنہ اور ام المومنین بننا تھا کا فعال شریک تجارت بننے کی پیشکش قبول کرلی اور حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ کے ہمراہ مال تجارت لے کر بصریٰ تشریف لے گئے اور یوں رحمۃ للعالمینﷺ کے مجسم برکت والے دست مبارک سے اللہ تعالیٰ نے جو تجارتی نفع اس بار کی تجارت میں عطا کیا اسے دیکھ کر حضرت خدیجہؓ کی خوشگوار حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی اور اس پر میسرہ نے آپﷺ کی تجارتی حکمت عملی اور دیگر اوصاف حمیدہ کی بہت تعریف کی،جس سے حضرت خدیجہؓ نہ صرف بے حد متاثر ہوئیں،بلکہ آپ ﷺ کوخصوصی مراعات دیں اور کئی مرتبہ اپنا سامان تجارت لے کر بیرون ملک بھیجا۔ ہر سفر و شرکت کے بعد حضرت خدیجہؓ پر آپﷺ کی شخصیت کے جوہر اور مکارم اخلاق کھلتے چلے گئے اور اان کے اثرات بتدریج گہرے اور مستحکم ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ آپؓ نے آنحضرتﷺ کو شریک کاروبار کے ساتھ شریک حیات بنانے کا بھی فیصلہ کرلیا۔ چناںچہ اپنی ایک قریبی سہیلی کے ذریعے آپﷺ کے پاس پیغام بھیج کر نکاح کی درخواست کی، جسے سروردوعالمﷺ نے منظور فرمالیا۔ شادی کی تاریخ مقرر ہوئی اور مقررہ تاریخ کوحضرت ابوطالب اور خاندان کے دیگر معززین جن میں آپﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ بھی تھے۔ حضرت خدیجہؓ کے گھر تشریف لائے۔ حضرت خدیجہؓ نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کیا، حضرت ابوطالب نے دستور کے مطابق خطبہ نکاح پڑھایا اور یوں عالم ارض کی دو بابرکت ہستیوں کو مالک ارض و سما نے یکجا کردیا۔ شادی کے وقت آپﷺ کی عمر مبارک 25سال اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی عمر 40سال تھی اور یہ بعثت نبوی سے پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔
پندرہ برس بعد آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبوت عطا ہوئی۔ یہ عالم انسانیت کے لئے ایک حسین و منور اور مثالی معاشرے کی تشکیل، ہمہ گیر اور عظیم ترین انقلاب کی نوید تھا۔ حضرت خدیجہؓ نے لبیک کہتے ہوئے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ صحیح بخاری ’’باب بدألوحی‘‘ میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
بعثت کے بعد حضور اکرمﷺ کی پیغمبرانہ جدوجہد کے ایک ایک مرحلے پر اس شادی کی برکتیں پوری آب و تاب کے ساتھ عیاں نظر آئیں۔ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے نہ صرف سب سے پہلے نبوت کی تصدیق کی، بلکہ دعوت اسلام میں آنحضرتﷺ کی سب سے بڑی معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ تاریخ بیان کرتی ہے کہ حضرت خدیجہؓ مکے کی امیر ترین خاتون تھیں اور آپؓ کی تمام دولت شجر اسلام کی آبیاری پر صرف ہوئی۔ ام المومنین حضرت خدیجہؓ نے اپنی ذہانت ، خلوص و جاں نثاری اور خدا ترسی کے سبب ہادی برحقﷺ کے دل میں وہ مقام حاصل کیا جو کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا۔
ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے فرائض نبوی ادا کرنے چاہے تو کوہ حرا، وادی عرفات، جبل فاران غرض تمام جزیرۃ العرب آپﷺ کی آواز پر پیکر تصویر بنا ہوا تھا، لیکن اس عالمگیر خاموشی میں ایک آواز تھی جو فضائے مکہ میں تموج پیدا کررہی تھی اور یہ آواز حضرت خدیجہؓ کے قلب مبارک سے بلند ہوئی تھی جو اس ظلمت کدہ کفر میں انوار الٰہی کا دوسرا تجلی گاہ تھا۔
سن7 نبویؐ میں قریش مکہ (معاندین اسلام) نے اسلام اور اسلامی تحریک کو ختم کرنے کے ارادے سے جب سوشل بائیکاٹ کی تدبیر پر عمل کیا تو خاندان بنو ہاشم کے تقریباً 75 افراد مکہ سے باہر گھاٹی شعب ابی طالب میں محصور و مقید ہوگئے، اس سماجی اور معاشی مقاطعے میں نبی کریمﷺ اور آپﷺ کے خاندان کے ساتھ حضرت خدیجہؓ بھی قید رہیں، جس کی وجہ سے آپؓ کی صحت بے حد متاثر ہوئی۔ چناں چہ اس اذیت ناک اور صبر آزما سماجی مقاطعے (سوشل بائیکاٹ) جوکہ مسلسل تین سال جاری رہا کے خاتمے اور شعب ابی طالب سے نکلنے کے چند دن بعد رمضان المبارک 10نبوی ہجرت سے تین سال قبل آپﷺ کی دیرینہ ساتھی، خلوص و وفا کی پیکر رفیقہ حیات اپنے محبوب شوہر کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور چلی گئیں۔ رسول اللہﷺ خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کو داعی اجل کے سپرد کیا۔
ازواج مطہراتؓ میں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کو بعض امتیازی خصوصیتیں حاصل ہیں۔ کتب احادیث میں حضرت خدیجہؓ کے فضائل و مناقب میں بہت سی احادیث مبارکہ مروی ہیں۔ حضرت خدیجہؓ کا اللہ تعالیٰ کے یہاں کیا مقام و مرتبہ تھا، اس کا اندازہ بخاری شریف کی اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ایک بار جبرائیل امین ؑنے سید المرسلینﷺ کے پاس آکر فرمایا ’’یارسول اللہﷺ حضرت خدیجہؓ آپ کے پاس پیالے میں کھانے کی کچھ چیز لے کر آنے والی ہیں، وہ آئیں تو انہیں اللہ کا اور میرا سلام کہئے‘‘۔
اسی طرح ترمذی شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’چار عورتوں کو دنیا کی تمام عورتوںپر فضیلت حاصل ہے۔ حضرت مریمؑ بنت عمران، حضرت آسیہ زوجہ فرعون، حضرت خدیجہؓ بنت خویلد اور حضرت فاطمہؓ بنت محمدؐ۔
آنحضرتﷺ اور اسلام کو حضرت خدیجہؓ کی ذات سے جو تقویت تھی وہ سیرت نبویؐ کے ایک ایک صفحے سے نمایاں ہے۔ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ’’وہ اسلام سے متعلق آنحضرتﷺ کی سچی مشیرہ کار تھیں‘‘۔ (ابن ہشام/ السیرۃ النبویہ)
حضرت خدیجہؓ اپنی دولت، اثر و رسوخ اور فہم و فراست سے کام لے کر مکی دور میں ہر نازک موقع پر اسلام کے لئے ڈھال بنی رہیں۔ علم و حکمت سے بھرپور فہم و فراست سے لبریز ایثار و قربانی کی پیکر، دکھ سکھ میں اپنے شوہر حضرت محمدﷺ کی معاون حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی حیات پاک مسلم خواتین کے لئے ایک مثالی اور قابل تقلید نمونہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ ہم آپؓ کے حالات زندگی کا بغور مطالعہ کریں اور دین و دنیا کی فلاح کے لئے ان کی اتباع کریں۔