• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے صدارتی انتخابات کی مہم اپنی تمام تر مہذب شدت کے ساتھ زبانی کلامی جملوں اور حملوں تک محدود ہے۔ نہ کسی سیاسی تصادم کی اطلاع ہے نہ کسی امیدوار کی جانب سے کسی فائرنگ، اغوا، مارکٹائی یا کسی دھمکی کی کوئی خبر یا رپورٹ سننے میں آئی ہے جبکہ دنیا بھر کی توجہ کے مرکز صدارتی الیکشن کے علاوہ امریکی ایوان نمائندگان کی 435 نشستوں کے علاوہ امریکی سینٹ کی ایک تہائی نشستوں کے انتخابات بھی ساتھ ہی ساتھ ہو رہے ہیں۔ امریکہ صدارت کے امیدوار ڈیموکریٹ بارک اوباما اور ری پبلکن مٹ رومنی اس کالم کی اشاعت تک اپنے تین مباحثوں کا راؤنڈ بھی مکمل کرچکے ہوں گے۔ ڈینور کلوراڈو لانگ آئی لینڈ نیویارک کے بعد بوکارٹان فلوریڈا میں ہونیوالے تیسرے اور آخری مباحثے کے بعد امریکی عوام کو دونوں امیدواروں کی قائدانہ صلاحیتوں، مختلف عوامی مسائل پر انکے موقف اور پرفارمنس کے بارے میں رائے قائم کرنے میں آسانی ہوگی اور اگلے 14 روز میں دونوں امیدواروں کی انتخابی مہم صورتحال مزید واضح کردے گی اور بالآخر 6نومبر کی ووٹنگ اور اسکے نتیجے میں دنیا کو پتہ چل جائیگا کہ اگلے چار سال کیلئے امریکہ کا صدر کون ہوگا؟ اور دنیا کی قیادت بارک اوباما اور مٹ رومنی میں سے کون کریگا؟ امریکی سینٹ میں اکثریت کس پارٹی کی ہوگی؟ ایوان نمائندگان اور اسکی کمیٹیوں کی باگ ڈور کس پارٹی کے پاس ہوگی؟ دنیا کو بھی اندازہ ہوجائیگا کہ اگلے چار سال تک عالمی مسائل اور معیشت کی صورتحال کی قیادت بارک اوباما کے ہاتھ میں رہے گی یا ری پبلکن مٹ رومنی کرینگے؟جی ہاں! امریکہ میں یہ تمام سیاسی تبدیلی آجائیگی۔ امریکی ووٹ کا استعمال کرکے یہ سب فیصلے بھی کر ڈالیں گے اور پُرامن انداز میں ۔
بہرحال صدر اوباما اور مٹ رومنی کے درمیان ہونے والے پہلے مباحثے میں ڈیموکریٹک امیدوار بارک اوباما کی کارکردگی خاصی خراب رہی جس سے مٹ رومنی کی مقبولیت اور امیج ہی بہتر نہیں ہوا بلکہ تبصرہ نگار اور عوامی حلقے بھی سوالات اٹھانے لگے کہ بارک اوباما کی اس خراب کارکردگی سے مٹ رومنی کے جیتنے کا امکان بڑھ گیا۔ نیویارک میں گزشتہ ہفتے امریکی صدارت کے دونوں امیدواروں کے درمیان ”ٹاؤن ہال میٹنگ“ کی شکل میں دوسرے مباحثے کے فوراً بعد مجھے کم و بیش 14/امریکی سینیٹرز اور کانگریس مینوں سے آن دی ریکارڈ“ اور ”آف دی ریکارڈ“ گفتگو کرنے کا موقع ملا جن میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں پارٹیوں کے ممتاز سینیٹرز اور کانگریس مین شامل تھے ان میں سینٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان کیری، جوڈیشری کمیٹی کے سینیٹر چارلس شومر کے ساتھ ساتھ شکاگو کے وہ تجربہ کار اور بااثر سینیٹر ڈک ڈربن بھی شامل تھے جو دراصل آج سے پانچ سال قبل دنیا میں غیر معروف امریکی بارک اوباما کو تاریخ کے پہلے سیاہ فام امریکی صدر کے لئے امیدوار بنانے اور کامیاب کرانے کی تحریک میں پیش پیش تھے اور صدر بارک اوباما اس کیلئے سینیٹر ڈک ڈربن احسان مند بھی ہیں۔ ان مذکورہ تین بااثر ممتاز اور سیاسی طور پر متحرک ڈیموکریٹ سینیٹرز کا کہنا ہے کہ صدر بارک اوباما نے پہلے مباحثہ میں اپنی خراب کارکردگی اور انداز کے باعث جو کچھ سیاسی نقصان اٹھایا تھا وہ انہوں نے دوسرے مباحثے میں بڑی مثالی اور جرأت مندانہ کارکردگی کے ذریعے عوامی مسائل پر موثر جواب اور اپنے مخالف امیدوار کو لاجواب کرکے اس نقصان کو نہ صرف پورا کر لیا ہے بلکہ مٹ رومنی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے سینیٹر چارلس شومر سے پوچھا کہ اب اوباما کہاں کھڑے ہیں تو ہنس کے کہنے لگے کہ ہمارا امیدوار اب آگے ہے اور جیت کی پوزیشن میں ہے۔ ہم عوامی پارٹی اور متوسط طبقہ کیلئے مواقع اور مراعات کے حامی ہیں صدر اوباما نے دوسرے مباحثے میں یہ واضح کردیا ہے۔ سینیٹر جان کیری تو خود بھی صدارتی امیدوار رہ چکے ہیں اور زبان و بیان کا اسلوب بھی خوب نکھرا ہوا ہے۔ انہوں نے بھی صدر اوباما کی کارکردگی کی بڑی تعریف کی جبکہ شکاگو کے بااثر سینیٹر اور بارک اوباما کے صدر بننے سے بھی بہت پہلے سے ان کو آگے لانے کی حمایت کرنے اور مشورے دینے والے ڈک ڈربن نے میرے پوچھنے پر پہلے مباحثے میں بارک اوباما کی خراب کارکردگی اور نقصان کا اعتراف واضح الفاظ میں کیا اور تعجب کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ مقابلہ سخت ہے۔ اوباما کی چار سالہ کارکردگی زیر بحث بھی ہے اور ری پبلکن پارٹی اس بار گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں نہ صرف بہت زیادہ منظم اور متحرک ہے بلکہ کئی سو ملین ڈالرز پہلے سے زیادہ انتخابات پر خرچ کر رہی ہے۔ جب ہار جیت کے بارے میں روایتی سوال اٹھایا کہ ”ان کے“ بارک اوباما الیکشن جیتیں گے یا ری پبلکن مٹ رومنی؟ تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ تم نے سنا کہ مٹ رومنی اپنے ری پبلکن صدر جارج بش (جونیئر) سے اس مباحثہ میں ”فاصلہ“ قائم کرکے کہہ گئے کہ وہ جارج بش سے ”مختلف“ ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد ڈیموکریٹ سینیٹرز اور کانگریس مینوں سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی اور اس کے امیدوار بارک اوباما کی والہانہ حمایت کی مگر ان کے جواب اور جواز مدلل تھے، جذباتی اور شخصی نعرے نہیں تھے۔ آن دی ریکارڈ گفتگو کے بعض حصے تو ”جیو“ پر نشر ہوئے لیکن زیادہ کھلی گفتگو ”آف دی ریکارڈ“ تھی مگر وہ بھی بارک اوباما کی کامیابی کی پیشگوئی اور خواہش پر مبنی تھی۔ اسی طرح ری پبلکن پارٹی کے آج کل مسلمان مخالف کانگریس مین پیٹر کنگ، سینیٹرز ران جانسن، سینیٹر جیمس ٹیلنٹ، ریاست نیویارک کے سابق گورنر جارج پٹاکی کے علاوہ دیگر ری پبلکن لیڈروں سے بھی سوال و جواب اور تبادلہ خیال کا موقع ملا تو وہ مٹ رومنی کی برتر کارکردگی اور پہلے مباحثے کی فتح پر نہ صرف مصر تھے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ بارک اوباما نے تو چار سال کی صدارت میں امریکہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ خراب کارکردگی رہی اور مٹ رومنی مباحثوں میں یہ بات ثابت کرچکے ہیں لہٰذا مٹ رومنی امریکی مسائل کو حل کریں گے۔ میری ان دونوں طرف کے قائدین سے گفتگو کی روشنی میں رائے ہے کہ پہلے مباحثہ میں بارک اوباما نے اپنے امیج کو خراب کارکردگی سے بہت نقصان پہنچایا لیکن دوسرے مباحثے میں بڑی مثالی کارکردگی سے نہ صرف گزشتہ نقصان پورا کرلیا بلکہ اس نفسیاتی ماحول سے بھی نکل آئے جو پہلے مباحثے نے پیدا کیا تھا۔
تازہ ترین