• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پارہ نمبر12،(خلاصۂ تراویح)
(ڈاکٹر عامر عبداللہ محمدی)
اس پارے میں سورۂ ہُود مکمل (اس کی ابتدائی پانچ آیات گیارہویں پارے میں ہیں)اور سورۂ یوسف کے ابتدائی پانچ رکوع شامل ہیں۔ پارے کے آغاز میں فرمایا گیا کہ روئے زمین پر ایسی کوئی مخلوق نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری اللہ نے اپنے ذمہ نہ لے رکھی ہو، پھر آخر ہم کیوں رزق کے لیے اس قدر پریشان رہتے ہیں،اگر اللہ تعالیٰ پر توکل ہوجائے تو یہ فکر ہی دم توڑ دے گی۔سورۂ ہود میں چار باتوں پر اہم مضامین ہیں، جن میں سب سے پہلے قرآن کی عظمت کو بیان کیا گیا ۔منکرین قرآن کو چیلنج دیا گیا کہ اگر واقعی قرآن انسانی کاوش ہے تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں بناکر لے آؤ۔اسی طرح توحید اور دلائل توحید بیان کرتے ہوئے فرمایا گیاکہ ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ ہی ہے، خواہ وہ مخلوق انسان ہو یا جنات ، چوپائے ہوں یا پرندے، پانی میں رہنے والی مچھلیاں ہوں یا کہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے، آسمان اور زمین کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔
اس کے بعد رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔حضرت نوح علیہ السلام کا تذکرہ کہ ان کی قوم کے چند لوگوں کے سوا کوئی ایمان نہیں لایا ، انہوں نے اللہ کے حکم سے کشتی بنائی، ایمان والے محفوظ رہے، باقی سب غرق ہوگئے۔حضرت ہود علیہ السلام کا ذکر کہ جنہیں قوم عاد کی طرف نبی بناکر بھیجاگیا،وہ بہت طویل القامت اور زبردست قوت کے حامل لوگ تھے انہوں نے بھی اسی طرح سرکشی کی جس طرح یہ مشرکین کررہے ہیں ،ان کی قوم میں سے جو ایمان لے آئے، وہ کامیاب ہوئے، باقی سب پر (بادِ صرصر یعنی مسلسل چلنے والی آندھی کی صورت میں) اللہ کا عذاب آیا۔حضرت صالح علیہ السلام اور ان کی اونٹنی کے بطور معجزہ پیدائش کا ذکر ہے کہ ان کی قوم کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ سے اونٹنی نکالی، مگر قوم نے اسے قتل کر ڈالا، ان پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ کیا گیا کہ ان کی اہلیہ کو اللہ نے بڑھاپے کی حالت میں بیٹا اسحاق عطا فرمایا ، جو اللہ کا معجزہ ہے اللہ جو اور جیسے چاہے کرسکتا ہے ۔حضرت لوط علیہ السلام کا تذکرہ کہ ان کی قوم کے لوگ بدکار تھے، لڑکوں کی طرف مائل ہوتے تھے، حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھایا کہ قوم کی لڑکیوں سے شادی کرلو، مگر وہ نہ مانے، ان پر اللہ کا عذاب آیا ، اس بستی کو زمین سے اٹھا کر الٹادیا گیا اور ان پر پتھروں کا عذاب نازل کیا گیا۔اس کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ ہوا کہ ان کی قوم کے لوگ اصحابِ مدین ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جن لوگوں نے نبی کی بات مانی،وہ بچ گئے،جب کہ نافرمانوں پرایک تیز چیخ کی آوازکا عذاب آیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ آیا کہ فرعون نے ان کی بات نہ مانی ، اللہ نے اسے اور اس کے ماننے والوں کو ناکام کردیا۔
ان واقعات میں ایک طرف تو عقل و فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے بے پناہ عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اور دوسری طرف حضور اکرم ﷺ اور مخلص اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے، آپﷺ کا کام دین کی تبلیغ ہے ،فرمایا گیا کہ جو آج آپ کے ساتھ ہورہا ہے، اس پر آپ دل شکستہ نہ ہوں ،یہ گزشتہ انبیاء کے ساتھ بھی ہوتا رہاہے، اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہے۔باور کرایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا قوم پر ظلم نہیں کرتا بلکہ قومیں خود اپنی فکر وعمل کی وجہ سے ظلم کرتی ہیں اور نتیجتاً ہلاک کردی جاتی ہیں۔
اس کے بعد قیامت کا تذکرہ کیا گیا کہ روزِ قیامت انسانوں کی دو قسمیں ہوں گی، بد بخت اور نیک بخت۔بدبختوں کے لیے ہولناک عذاب ہوگا (حالتِ کفر پر مرنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔)جب کہ نیک بختوں کے لیے اللہ نے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بے حساب نعمتیں رکھی ہیں۔(اللہ ہم سب مسلمانوں کو ان نیک بختوں میں شامل فرمائے۔ آمین)
اس کے بعد سورۂ یوسف شروع ہوتی ہے ،قرآن کریم میں تمام انبیائے کرام ؑکے قصے پھولوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ پورا کا پورا صرف اسی سورت میں ہے، دوسری سورتوں میں ان کا نام تو آیا ہے، مگر قصہ تھوڑا سا بھی کسی اور سورت میں مذکور نہیں ہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام ان میں سے غیرمعمولی طور پر حسین تھے، ان کی سیرت اور صورت دونوں کے حسن کی وجہ سے ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا اور اپنے والدِ گرامی کو اپنا خواب سنایا کہ گیارہ ستارے اورچاند اور سورج مجھے سجدہ کر رہے ہیں، ان کے والد جو خود پیغمبر وقت تھے نے انہیں منع کیا کہ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت سنانا، باپ کی بیٹے سے اس محبت کی وجہ سے بھائی حسد میں مبتلا ہوگئے، انہیں والد کا یوسف علیہ السلام کی طرف التفات پسند نہ آیا،ایک دن جذبۂ رقابت سے مجبور ہوکر انہوں نے اپنے والد سے اجازت لی اور تفریح کا کہہ کر حضرت یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے اور آپ کو کنویں میں گرادیا، اور کپڑوں پر بھیڑ کا خون لگا کر مصنوعی رونے ۜپیٹنے لگے کہ انہیں بھیڑیا کھاگیا ہے۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے مثالی صبر کا مظاہرہ کیا، جسے قرآن نے صبر جمیل قرار دیا۔دوسری طرف حکمتِ الہی دیکھیں کہ یوسف علیہ السلام کو کنویں سے شاہی محل پہنچادیا گیا،ہوا یوں کہ وہاں سے ایک قافلہ گزرا، انہوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا تو اندر سے آپ نکل آئے، قافلے والوں نے مصر جاکر بیچ دیا، عزیزِ مصر نے خرید کر اپنے گھر میں رکھ لیا، آخر ایک مرحلہ وہ آیا کہ آپ کو جیل میں قید کردیاگیا، قیدخانے میں بھی آپ نے دعوتِ توحید کا سلسلہ جاری رکھا، جس کی وجہ سے قیدی آپ کی عزت کرتے تھے،دو قیدیوں کے خواب کی تعبیر دینے کے بعد ایک سے وعدہ لیا کہ بادشاہ کے محل پہنچو تو اس سے میرا ذکر کرنا،اللہ تعالی نے اب انہیں بادشاہی میں شریک فرمانا تھا، بادشاہ نے ایک ایسا عجیب خواب دیکھا جس کی تعبیر کسی کے پاس نہ تھی،بادشاہ مسلسل اس خواب کے بارے میں فکرمند تھا آخرکارعزیز مصر کی بیوی نے آپؑ کی پاکدامنی اور اپنے قصور وار ہونے کی گواہی دی،سیدنا یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر بیان فرمائی کہ 7سال فصل کی فراوانی کے ہوں گے اور اس کے بعد مسلسل 7سال قحط پڑے گا۔اس کہ تدبیر یہ کی جائے کہ ہر سال آنے والی فصل کا ایک حصہ استعمال کیا جائے اور دوسرا حصہ گودام میں محفوظ کرلیا جائے، بادشاہِ وقت کے خواب کی صحیح تعبیر اور تدبیر بتانے کی وجہ سے آپ اس کی نظروں میں ممتاز ہوگئے، اس نے آپ کو خزانے، تجارت اور مملکت کا خود مختار وزیر بنادیا، مصر اور گردوپیش میں قحط کی وجہ سے آپ کے بھائی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر آئے، ایک دو ملاقاتوں کے بعد آپ نے انہیں بتایا کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں، پھر آپ کے والدین بھی مصر آگئے اور سب یہیں آکر آباد ہوگئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کےاس قصے میں جسے احسن القصص قرار دیا گیا ہے درج ذیل بصائر و عبر اور نکات پنہاں ہیں کہ:مصیبت کے بعد راحت ہے۔ حسد خوفناک بیماری ہے۔ اچھے اخلاق ہر جگہ کام آتے ہیں۔ پاکدامنی تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ ایمان کی برکت سے مصیبت آسان ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالی کی معصیت اور نافرمانی پر مصیبت کو ترجیح دینی چاہیے۔سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو معاف فرمادیا ان کا اپنے والد،سوتیلی والدہ اور سب بھائیوں کو عزت و تکریم کے ساتھ محل میں رکھنا اس خواب کی تعبیر بنا جو اللہ تعالی نے انہیں بچپن میں دکھایا تھا۔ان ہی بارہ بھائیوں سے بعدمیں بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے بنے، اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا، جو عبرانی زبان کا لفظ ہے حس کے معنی عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ کے ہیں۔
تازہ ترین