• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

درانی اور دولت کی مشترکہ کتا ب کو مثبت انداز میں دیکھوں گا،مشرف

کراچی (ٹی وی رپورٹ)را اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہوں کی مشترکہ کتاب جو اے ایس دولت اور اسد درانی کی جانب سے لکھی گئی کے حوالے سے ایک انٹرویو دیتے ہوئے جنرل مشرف نے کہاہے کہ بھئی اس کو تو میں مثبت انداز میں دیکھوں گا میں تو ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان میں امن ہونا چاہئے اور امن تبھی آئے گا جب ہم جن معاملات پر تنازعات ہیں جیسے کشمیر ،سیاچن جب تک اس کو حل نہیں کرلیتے ۔ اب یہ جو انڈین گورنمنٹ ہے اس کا تو موڈ نظر ہی نہیں آتا وہ تو ایک ہندو بالادستی لانا چاہ رہے ہیں انڈیا میں تو اب اگر وہ اپنا نظریہ تبدیل کرتے ہیں اور ہمارے چیف کو مدعو کرتے ہیں تو بہت اچھا ہوگا اور کرنا بھی چاہئے اور یہاں سے جانا بھی چاہئے اچھی بات ہے اگر ہم مسائل کو آگے لے جاسکتے ہیں اور اس کا کوئی پرامن حل نکال لیتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے علم نہیں کہ را نے حملوں میں میری جان بچائی،بھارت کلبھوشن کی رہائی کے لئے دبائو ڈال رہا ہو گا، اسددرانی کو اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہئے۔کارگل کے حوالے سے ایک سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ نہیں اس میں کوئی ایسی باتیں نہیں تھیں ہاں انہوں نے پتہ نہیں کیسے وہ سن لیں لیکن اس میں کوئی خاص ایسی بات نہیں تھی کہ گورنمنٹ کے حلقوں کو بتایا نہیں گیا ۔کلبھوشن کی رہائی کے حوالے سے ایک سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ مجھے یقین ہے یہ پورا پریشر ڈلوارہے ہوں گے ، امریکا سے بھی ڈلوا رہے ہوں گے ، خود بھی ڈال رہے ہیں تو کوشش تو ان کی پوری ہوگی لیکن افسوسناک ہوگا میرے خیال میں پبلک آف پاکستان میں عام آدمی میں یہ بالکل غلط نگاہ سے دیکھا جائے گا اورغیر مقبول اقدام ہوگا ۔ 2003ء میں جو آپ پر حملہ ہوا تھا ’’را‘‘ نے آئی ایس آئی کو پہلے ہی اطلاع دیدی تھی اور ’’را‘‘ نے ہی آپ کی جان بچائی ہے اس سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ پتہ نہیں مجھے نہیں معلوم ، کوئی مجھے علم نہیں ہے کہ را نے میری جان بچائی ہے ۔نہیں میرا نہیں خیال ایسا ہے ، جان کیسے بچائی میری تو جان بچ گئی تھی وہ کچھ نہیں کرسکے تھے ۔ اس وقت دو حادثے ہوئے تھے چکلالہ برج کے اوپر جب میں برج سے گزرا تھا میں خوش قسمت تھا اللہ تعالیٰ نے ساتھ دیا ، ایک دو سیکنڈ پہلے اگر وہ بلاسٹ کرتا تو میں اس کے اندر مارا جاتا ۔ دوسرا جو تھا اس میں گاڑیاں آئیں انہوں نے بلاسٹ کیا اس میں بھی بچ گئے ، ٹائر وائر ختم ہوگئے ،خود کش حملہ آور تھے جو میری گاڑی کے اوپر تھے لیکن میں پھر بھی بچ گیا تو انہوں نے کیا بچایا مجھے سمجھ نہیں آئی کیسے بچایا انہوں نے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پوزیشن سے جنرل محمود کو جو آپ نے ہٹایا تھا امریکا کے کہنے پر ہٹایا تھا اس سوال پر جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ مکمل طو رپر غلط بات،ہر چیز پر کہہ دیتے ہیں امریکا ،امریکا بیچارہ نہیں بھی کہے تو کہہ دیتے ہیں امریکا نے کروایا ، وہ بات الگ تھی اس وقت وہ الگ یوں ہوئے کہ وہاں مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ آرمی چیف کون بنے اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کون بنے ،میرے Loyalist ہوتے ہیں جو تین تھے محمود بھی تھا اور اپنا مجھے نام نہیں سوجھ رہا دوسرا تین لوگ تھے اور تین میں سے میں دو کو ایڈجسٹ کرسکتا تھا ایک تھے جنرل محمود عزیز اور ایک جنرل جو کراچی کے کور کمانڈر تھے اب ان تین میں سے میں دو کو بنا سکتا تھا تین کو تو نہیں بناسکتا تھا تو میں نے ان دونوں سے کہا کہ آپ میرے پر چھوڑیں کہ میں کس کو آرمی چیف بناتا ہوں وائس چیف آف آرمی اسٹاف،کس کو چیئرمین بناتا ہوں اور جو تیسرا رہے گا اس کو میں ایک اچھی اپائنمنٹ دینا چاہوں گا یعنی گورنر پنجاب یا پھر کچھ اور تو آپ میرے پر چھوڑ دیں ۔ تو یہ محمود جو تھے یہ مانے نہیں کہنے لگے نہیں میں تو وائس چیف ہی بنوں گا میں نے کہا دیکھو تین لوگ ہیں فیصلہ میں نے کرناہے کہنے لگے نہیں وائس چیف میں بنوں گا یہ وجہ تھی تو میں نے کہاکہ اگر تم اصرار کرتے ہو تو پھر چھوڑ دو ، کہنے لگے نہیں I will not compromise on my authority میری اتھارٹی کو وہ کمپرو مائز کبھی نہیں کرتے ۔اسامہ بن لادن کے حوالے سے ایک سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ مجھے پتہ نہیں ہے Frankly اتنا Confused issue ہے کچھ کہتے ہیں وہاں مارا ہی نہیں گیا وہ پہلے مار کے کہیں لے گئے تھے ،کوئی کہتے ہیں وہاں تھا ہی نہیں وہ ۔ تو اتنی زیادہ کنفیوژن ہے اس میں Franklyمیں کمنٹ نہیں کرنا چاہوں گا مجھے معلوم نہیں ۔ اصل حقیقت کیا ہے اور کس نے کس کو بتایا ۔ کس کو پتہ تھا کس کو نہیں پتہ تھا ۔ میری نظر میں کسی کو نہیں پتہ تھا میں اس کی دو باتیں بتاتا ہوں کیونکہ لوگ کہتے ہیں وہاں پانچ سال سے تھا وہ اگر پانچ سال سے تھا تو اس کے دو سال جو تھے وہ میرے دور حکومت کے نیچے تھے میں اس وقت صدر تھا اور میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم تھا۔ اب مجھے کیوں نہیں معلوم تھاکیا مجھ سے چھپارہے تھے ، کیا آئی ایس آئی میرے سے چھپا سکتی تھی ، کیا آئی ایس آئی کے آفیسرز جو نچلے لیول کے بھی ہیں وہ بھی میرے سے ملتے تھے ، یہاں میں ایسا نہیں تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھا رہوں کسی سے ملتا نہیں سب لوگ میرے سے ملتے تھے میرے بہت قریب ہوتے تھے ان میں سے کوئی بتادیتا ،دو سال تک مجھے کسی نے نہیں بتایا یہ کیسے ہوسکتا ہے اور میں یقین سے کہتا ہوں مجھے نہیں پتہ تھا کیونکہ جو انٹرویوز ہوئے اس واقعہ کے بعد تو تمام ٹی وی چینلز نے جاکر وہاں سویلینز سے انٹرویو کیا کسی نے نہیں کہا کہ ہمیں معلوم تھا کہ یہاں اسامہ بن لادن ہے اور ہماری انٹیلی جنس جو ہے ناں آئی ایس آئی وہ Human inelegance تھی یعنی اگر کوئی بتادے کہ فلاں بندہ وہاں بیٹھا ہے تو وہ اس کے پیچھے لگ جاتی تھی ۔مشترکہ کتاب میں اس طرح کی باتیں ان کو کرنا چاہئے قومی سلامتی سے متعلق اہم معاملات کے حوالے سے ، آپ کیا کہتے ہیں ؟اس سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ نہیں کرنا چاہئے میں بھی حیران ہوں کہ انہوں نے ایک کتاب ’’را‘‘ کے چیف کے ساتھ مل کر ، مطلب جو دشمن ملک ہے اس کے انٹیلی جنس کے چیف کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھی انہوں نے میرے خلاف کیا لکھا ہے آپ نے جو کہا ہے مجھے معلوم نہیں ہے لیکن معلوم ہو تو اس کا میں جواب ضرور دینا چاہوں گا۔
تازہ ترین