میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
پاکستان کی برآمدات 25ارب ڈالرز سے کم ہو کر 20ارب ڈالرز ہو گئیں، اگر حکومت صنعت کاروں کے ری فنڈز اور ری بیٹ ادا کرتی، تو آج ایکسپورٹ میں کمی کے بہ جائے اضافہ ہوتا، موجودہ حکومت نئی حکومت کے لیے مشکلات کا انبار لگا کر جا رہی ہے،بجلی کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ عوام اسے خریدنے کی سکت ہی نہیں رکھتے،
تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ معیشت اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں اور ملک کو اس معاشی بحران سے نکالنے کی کوشش کریں، نئی حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا،سی پیک کے تحت 10انڈسٹریل زونز کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن حقیقت میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا، جب تک بجلی اور گیس کی قیمت کم نہیں ہوتی، پیداواری لاگت میں کمی واقع نہیں ہو گی، برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا،
زبیر طفیل
اگر حکومت 270ارب اورنج ٹرین پر خرچ کرنے کے بہ جائے صنعت کاروں اور تاجروں کو ری فنڈز دیتی، تو آج ہماری برآمدات 35ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہوتیں، موجودہ حکومت نے آتے ہی ہمارے ری فنڈز کے 470روپے سے گردشی قرضے ادا کیے، ہمارے نوجوانوں کو روزگار کی ضرورت ہے، لیکن صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں،
حکومت نے مہنگی بجلی خریدی،مہنگی بجلی کی وجہ سے ملکی معیشت کمزور ہے،جب تک بجلی، گیس اور پانی سستا نہیں ہوگا، ملک ترقی نہیں کر سکتا، حکومت نے کبھی برآمدات بڑھانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا،اگر نئی حکومت نے بھی موجودہ حکومت کی کمزوریوں پر قابو نہ پایا، تو پھر حالات مزید ابتر ہوتے جائیں گے،ہم آبی گزر گاہوں کو استعمال کر کے اپنے درآمد بل میں کمی کر سکتے ہیں
محمد جاوید بلوانی
موجودہ حکومت کو تیل کی قیمت کم ہونے کے نتیجے میں زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا موقع ملا تھا، لیکن یہ ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا نہ کر سکی اور اب آخری دنوں میں زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی تباہ حال ہیں اور تیل کی قیمت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، نئی حکومت کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہوگا اورآئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا، معاشی بحران کا سبب برآمدات میں کمی ہے،
موجودہ حکومت برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے، حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو منافع بخش بنایا جائے گا، لیکن اس کے بہ جائے اورنج ٹرین اور میٹرو سمیت دیگر منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کر دیے، حکومت کی ترجیحات درست نہیں تھیں،آج ملکی معیشت پہلے سے زیادہ مشکلات کی شکار ہے،حکومت نے انرجی پلانٹس تو نصب کر دیے، لیکن عوام میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ مہنگی بجلی خرید سکے
مزمل اسلم
ایکسپورٹ میں گارمنٹس انڈسٹری کا بڑا کردار ہے، جب تک حکومت گارمنٹس سیکٹر پر توجہ نہیں دے گی، برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا، گارمنٹس سیکٹر ملازمت کے مواقع پیدا کرتا ہے اور بیش تر ممالک میں اسے سبسڈی فراہم کی جاتی ہے،
ہمیں اپنے نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنی چاہئیں، اہم اپنا خام مال برآمد کر رہے ہیں، جس میں یارن بھی شامل ہے، لیکن ہمیں خام مال نہیں مل رہا، ہمیں خام مال کی برآمد پر پابندی عاید کرنی چاہیے، گارمنٹس سیکٹر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سارے قرضے ختم کر سکتا ہے، حکومت توانائی کو سستا کرے اور صنعت کاروں کو سہولت فراہم کرے،
طارق منیر
مسلم لیگ (ن) کی حکومت 31مئی کو اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کررہی ہے 2013میں جب یہ حکومت برسراقتدار آئی تھی تو اس وقت پاکستانی معیشت کو کافی چیلنجز درپیش تھے ۔ آج جب وہ اپنی مدت مکمل کررہے ہیں تو ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ پچھلے دورِ حکومت کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں معیشت میں کتنی بہتری آئی؟ حکومت نے کتنی کامیابیاں حاصل کیں اور کہاں کہاں ناکام رہی؟ گزشتہ پانچ برس کے دوران حکومت نے ملکی معیشت کی کوئی سمت متعین کی؟ اس عرصے میں حکومت کی ترجیحات کیا رہیں اور کیا ہونی چاہئیں تھیں؟ عوام کا معیارِ زندگی کس قدر بہتر ہوا اور غربت میں کتنی کمی ہوئی اور اس سلسلے میں حکومت نے اپنے منشور پر کس قدر عملدرآمد کیا؟ نیز، پاکستانی معیشت اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہے، اس کی وجوہ کیا ہیں اور آیندہ حکومت کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات کے لیےگزشتہ دنوں پاکستان ہوزری مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (پی ایچ ایم اے) کے کانفرنس روم میں ’’حکومت کی پانچ سالہ معاشی کارکردگی‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر، زبیر طفیل، سائٹ ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان ایپرل فورم کے چیئرمین، محمد جاوید بلوانی، ماہر معیشت اور ای ایف جی ہرمیس، پاکستان کے سی ای او، مزمل اسلم اور پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن ( پی ایچ ایم اے) کے چیئرمین، طارق منیر نے اظہارِ خیال کیا۔فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ:آپ 2013ء اور 2018ء کی معاشی صورتحال میں کس طرح موازنہ کرتے ہیں اور موجودہ حکومت نئی گورنمنٹ کے لیے کیا چھوڑ کر جا رہی ہے؟
مزمل اسلم:میں 2003ء سے ملکی معیشت کا جائزہ لوں گا۔ 2003ء، 2008ء اور 2013ء میں نئی حکومتیں بنیں اور تینوں ہی مرتبہ معاشی صورتحال خراب تھی۔ ہر حکومت نے اپنے ابتدائی برسوں میں مختلف حربوں سے معیشت کو مستحکم رکھا، لیکن ان کے اقتدار کے آخری چند ماہ کے دوران معیشت زوال پزیر ہو گئی۔ موجودہ حکومت کو تیل کی قیمت کم ہونے کے نتیجے میں زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا موقع ملا تھا، لیکن یہ ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا نہ کر سکی اور اب آخری دنوں میں زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی تباہ حال ہیں اور تیل کی قیمت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی 2018ء میں آنے والی نئی حکومت کو بھی پچھلی تین حکومتوں کی طرح معاشی چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ اسی طرح ان تینوں حکومت نے اپنے آغاز میں آئی ایم ایف سے رجوع کیا اور نئی حکومت کو بھی یہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اب آئی ایم ایف سے رجوع کیے بغیر گزارا ممکن نہیں، کیونکہ ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر 16.5ارب ڈالرز تک گرگئے ہیں، جس میں سے 10ارب ڈالرز پر مشتمل حکومت کے ذخائر ہیں اور ہمارا سالانہ درآمدی بل 60ارب ڈالرز پر پہنچ چکا ہے۔ یعنی ماہانہ 5ارب ڈالرز۔ اس حکومت کے پاس دو مہینے کے درآمدی بل کے لیے ذخائر موجود ہیں، جبکہ کم از کم 12ہفتوں کے درآمدی بل کے لیے ذخائر موجود ہونے چاہئیں۔ پھر اگلے دو سے تین ماہ کے دوران 3سے 3.5ارب ڈالرز قرضوں کی مد میں ادا کیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لہٰذا درآمدی بل کی موجودگی میں ہم صرف اپنے مالی ذخائر پر انحصار نہیں کر سکتے اور نئی حکومت کو آئی ایم سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اس وقت غیر ملکی قرضوں کی صورتحال یہ ہے کہ پی پی کی حکومت نے گزشتہ 60برس کے غیر ملکی قرضوں کو دگنا کیا اور موجودہ حکومت نے ان قرضوں میں بھی دگنا اضافہ کیا۔ اس وقت ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم 73ارب ڈالرز ہے اور یہ جی ڈی پی کا 30فی صد ہونے والا ہے۔ قرض لینا بری بات نہیں، لیکن پھر آمدنی بھی ڈالرز میں ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی برآمدات کی وجہ سے ڈالرز میں آمدنی ہوتی تھی، لیکن اس دور حکومت میں برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی۔ پی پی کے دور میں ایکسپورٹس کا حجم 25ارب ڈالرز تھا، جو کم ہو کر 23ارب ڈالرز رہ گیا ہے۔ ہمارے معاشی بحران کا سبب برآمدات میں کمی ہے۔ موجودہ حکومت برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ اس حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو منافع بخش بنایا جائے گا، لیکن اس کے بہ جائے حکومت نے اورنج ٹرین اور میٹرو سمیت دیگر منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کر دیے۔ اگر یہی رقم سرکاری اداروں کا قرضہ اتارنے پر خرچ کی جاتی، تو یہ اب تک بحال ہو چکے ہوتے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملتے اور ہمارے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوتی۔ حکومت نے منصوبوں کی تیاری میں سمجھداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔
جنگ:یعنی حکومت کی ترجیحات درست نہیں تھیں؟
مزمل اسلم:جی ہاں۔ اسی طرح رقم ضایع بھی کی گئی ۔ مثلاً بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے ایک ارب 25کروڑ روپے مختص کیے گئے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس سے کسی شہری کی زندگی میں تبدیلی واقع ہوئی ہو۔ آج ملکی معیشت پہلے سے زیادہ مشکلات کی شکار ہے۔ مالی اور رواں خسارہ بڑھ چکا ہے۔ ملک قرضوں کے گرداب میں پھنس چکا ہے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب اس وقت 10فی صد سے زیادہ نہیں۔ موجودہ حکومت نے ٹیکس نیٹ میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا اور موجودہ ٹیکس دہندگان ہی کو نچوڑا جا رہا ہے۔
جنگ:حکومت نے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اگرچہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، لیکن لوڈ شیڈنگ اب بھی جاری ہے؟
مزمل اسلم:حکومت نے انرجی پلانٹس تو نصب کر دیے، لیکن عوام میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ اتنی مہنگی بجلی خرید سکے۔ حکومت نے صرف حجت پوری کی، لوڈ شیڈنگ کا کوئی حل نہیں نکلا۔ ایسا لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ منصوبے ’’سفید ہاتھی‘‘ بن جائیں گے۔ اب جہاں تک ایل این جی کی درآمد کی بات ہے، تو تیل کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے اس کے درآمدی بل میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے ہمیں ایک اور بحران کا سامنا ہے۔
جنگ :پھر اگر کوئی سولر پلانٹ 100میگاواٹ کا ہے، تو بجلی 20سے 25میگاواٹ بن رہی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
مزمل اسلم:اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی انرجی پراجیکٹ بالخصوص سولر پراجیکٹ اپنی پوری استعداد کے مطابق چل رہا ہو، تو تبھی وہ پوری بجلی پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح اورنج لائن منصوبہ، جس پر 270ارب خرچ کیے گئے اور میٹرو ٹرین بھی خسارے کا منصوبہ ہے۔ یہ مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے، جب تک حکومت این ایف سی ایوارڈ پر نظرِ ثانی نہیں کرتی۔ صوبائی حکومتیں اس مد میں ملنے والی رقم کو غیر مفید منصوبوں پر بے دریغ خرچ کر رہی ہیں۔ کسی بھی صوبے نے صنعتوں کو ترقی دینے کی کوشش نہیں کی۔
جنگ:آپ موجودہ حکومت کی پانچ سالہ معاشی کارکردگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟
محمد جاوید بلوانی:میں مزمل اسلم سے اتفاق کرتا ہوں۔ اگر حکومت 270ارب اورنج ٹرین پر خرچ کرنے کے بہ جائے صنعت کاروں اور تاجروں کو ری فنڈز دیتی، تو آج ہماری برآمدات 35ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہوتیں۔ اسی طرح پی پی کی طرف سے دیا گیا ٹیکسٹائل پیکیج بھی جاری نہیں رکھا گیا۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی ہمارے ری فنڈز کے 470روپے سے گردشی قرضے ادا کیے۔ مجھے برآمدات کا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے، کیوں کہ حکومت ہمیں کسی قسم کی سہولتیں فراہم نہیں کر رہی۔ پھر خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہمارے لیے توانائی اور مزدوری بھی مہنگی ہے۔ ماضی میں پاکستانی مزدور کی دنیا بھر میں مانگ تھی، لیکن اب کم از کم تنخواہ میں اضافے کے باوجود مزدور کا آئوٹ پٹ کم ہوتا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے بہت زیادہ بیرونی قرضے لیے، لیکن اگر وہ صنعت کاروں کو سہولت فراہم کرتی اور برآمدات میں اضافہ ہوتا، تو وہ زیادہ فائدہ مند تھا۔ ہمارے نوجوانوں کو روزگار کی ضرورت ہے، لیکن صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں۔ اگر تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوان بیرون ملک منتقل ہو گئے، تو پھر یہاں صرف کچرا ہی رہ جائے گا۔ حکومت نے مہنگی بجلی خریدی اور آر ایل این جی سے تیار ہونے والی بجلی فرٹیلائزر سیکٹر کو دی جا رہی ہے، حالانکہ فرٹیلائزر کو درآمد بھی کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں بجلی سستی ہونے کی وجہ سے پاکستان خطے میں معاشی طور پر ایک مضبوط ملک تھا، لیکن اب بجلی مہنگی ہو چکی ہے، تو ہماری معیشت بھی کمزور ہے۔ جب تک بجلی، گیس اور پانی سستا نہیں ہوگا، ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ پاکستان تجارتی ملک نہیں ہے، بلکہ یہ انڈسٹری کے لیے بہت مناسب ملک ہے اور صنعت کاری کے لیے یوٹیلٹیز کے نرخ مسابقتی ممالک کے مساوی کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں توانائی امریکا سے بھی مہنگی ہے اور ہماری لیبر بھی کارکردگی کے اعتبار سے مہنگی پڑتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں ہمیشہ اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر منصوبے تیار کرتی ہیں۔ آپ اورنج ٹرین کی مثال ہی لے لیں۔ کیا اس منصوبے کا فائدہ پوری قوم کو پہنچ رہا ہے۔ حکومت کو برآمدات میں اضافے کے لیے کراچی پر توجہ دینی ہو گی، جو 50فی صد ایکسپورٹ کرتا ہے۔
جنگ :برآمدات میں کمی کا بنیادی سبب کیا ہے؟
محمد جاوید بلوانی:پیداوار پر آنے والی لاگت میں اضافہ۔ ہمارے رواں سرمائے میں ہر سال 6سے7فی صد کمی واقع ہو رہی ہے، کیوں کہ ہمارے ری فنڈز نہیں مل رہے۔ آخر ہم کہاں جائیں۔ حکومت نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بینرز لگانا شروع کیے، تو میں نے فیصل آباد میں بینر لگوائے کہ ’’ایکسپورٹ کو عزت دو‘‘، جس پر رانا افضل نے فون پر کہا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ پھر میاں عبدالمنان اور عابد شیر علی کافون بھی آیا۔ اسی طرح مفتاح اسمٰعیل بھی ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔ دراصل، حکومت کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ اس نعرے سے فیصل آباد میں اس کا ووٹ بینک متاثر ہو سکتا ہے۔ اس موقع پر مفتاح اسمٰعیل سمیت دیگر حکام نے ری فنڈز کی ادائیگی کے وعدے کیے، لیکن میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ تمام ٹیکسز، ڈیوٹیز کو یوٹیلیٹی میں ایڈجسٹ کر دیں، تو یہ زیادہ بہتر رہے گا اور اس سے ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا۔ اسٹیٹ بینک کو 180دن تک ادائیگی نہیں ہوتی، تو وہ ہمیں نوٹس بھیج دیتا ہے، جب کہ ہمیں 11ماہ بعد ری بیٹ ملتا ہے۔ حکومت نے کبھی برآمدات بڑھانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا۔ میں نے ایک موقع پر اسحٰق ڈار سے کہا تھا کہ حکومت تاجروں سے ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ کی صورت پیسے وصول کرتی ہے۔ فنڈ میں اب تک 25ارب روپے جمع ہو چکے ہیں، جن میں سے حکومت سالانہ 1.5سے 2ارب روپے خرچ کرتی ہے۔ لہٰذا ای ڈی ایف کے لیے فنڈز لینا بند کر دیا جائے۔ اگر نئی حکومت نے بھی موجودہ حکومت کی کمزوریوں پر قابو نہ پایا، تو پھر حالات مزید ابتر ہوتے جائیں گے۔
جنگ :اس عرصے میں آپ ایف پی سی سی آئی کے صدر رہے اور آپ کی اسحٰق ڈار سے دوستی بھی رہی؟
زبیر طفیل:یہ دوستی کسی کام نہیں آئی۔ ہماری ایکسپورٹ اور انڈسٹری مستقل بحران کا شکار ہے۔ پوری دنیا میں برآمدات میں اضافہ ہوا، جب کہ پاکستان کی برآمدات 25ارب ڈالرز سے کم ہو کر 20ارب ڈالرز ہو گئی اور جون 2018ء تک 23ارب ڈالرز ہونے کا امکان ہے۔ اس کا سبب ری بیٹ ملنا اور کپاس کی قیمت میں اضافہ ہے۔ حکومت کی پالیسیوں سے برآمدات کو نقصان پہنچا۔ اگر حکومت صنعت کاروں کے ری فنڈز اور ری بیٹ ادا کرتی، تو آج ایکسپورٹ میں کمی کے بہ جائے اضافہ ہوتا۔ اسی طرح حکومت نے بہت سے وعدے پورے نہیں کیے۔ پھر مہنگی توانائی کی وجہ سے بھی ہماری برآمدات متاثر ہوئیں اور اس وقت
توانائی کی قیمت کم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ ملک میں کہیں بھی ہائیڈل پاور منصوبہ زیرِ تکمیل نہیں ہے۔ بھاشا ڈیم کا سنگِ بنیاد تین وزرائے اعظم نے رکھا، لیکن یہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ توانائی مہنگی ہونے کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت بڑھ رہی ہے اور پھر ایف بی آر جب چاہتا ہے کہ ہمارے اکائونٹس سے پیسے نکال لیتا ہے۔ اس پر پابندی عاید کی جانی چاہیے اور ایف بی آر کے افسر کے پاس کسی کے اکائونٹ سے رقم نکالنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ ہر سال 25لاکھ افراد مارکیٹ میں آ رہے ہیں۔ انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو یہ جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت نئی حکومت کے لیے مشکلات کا انبار لگا کر جا رہی ہے۔ نئی حکومت کا جہاں ان مشکلات سے سامنا ہو گا، وہیں تیل کی قیمت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور تیاری پر آنے والی لاگت کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ بینکوں کو چاہیے کہ وہ فوراً تاجروں کو ادائیگی کر دیں۔ پھر اس حکومت نے قرضے بھی بہت زیادہ لیے، جو اس وقت 90ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں۔ ان میں سے 27ارب ڈالرز موجودہ حکومت نے لیے، جو ہمارے قرضوں کا 45فی صد ہیں۔ اب یہ قرضے کون ادا کرے گا؟ ان قرضوں سے اورنج ٹرین تو بن گئی، جس سے لاہور کو فائدہ پہنچے گا، لیکن باقی پورے ملک کو کیا ملا۔ لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ مالی سال 2018-19ء نئی حکومت کے لیے ایک مشکل سال ہو گا اور اس کے لیے معیشت کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اب جہاں تک درآمدات کی بات ہے، تو 30جون 2018ء کو ہماری امپورٹس 61ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی، جب کہ برآمدات کا حجم 23ارب ڈالرز ہے۔ اگر ہمیں 19ارب ڈالرز کی ترسیلاتِ زر بھی مل جائیں، تو پھر بھی 17سے 18ارب ڈالرز کا خسارہ برقرار رہے گا۔ پھر حکومت نے سستی بجلی کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ 10ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو چکی ہو، لیکن وہ عوام تک نہیں پہنچ سکی اور بجلی کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ عوام اسے خریدنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ پھر کہا جا رہا ہے کہ گردشی قرضے 900ارب ڈالرز تک پہنچ چکےہیں، تو یہ کس طرح ادا ہوں گے اور یہ بتایا بھی نہیں جا رہا کہ انہیں کیسے ادا کیا جائے گا۔ وزیرِ خزانہ، مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ وہ مئی میں 100ارب کے ری فنڈز ادا کر دیں گے۔ حکومت کی مدت ختم ہونے میں پانچ روز باقی ہیں، تو کیا وہ یومیہ 20ارب روپے ادا کریں گے؟ ایسا ممکن نہیں۔ اگر حکومت نے وعدے کے مطابق 10ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے شروع کر بھی دیے، تو اس کی ترسیل نہیں ہو سکی اور عوام کو بجلی نہیں مل رہی ہے۔ ایندھن خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ پی ایس او کے پاس ایل سی کھولنے کے لیے رقم موجود نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں اور اس سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ معیشت اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں اور ملک کو اس معاشی بحران سے نکالنے کی کوشش کریں۔ معاشی ماہرین مل بیٹھ کر مستقبل کے اہداف کا تعین کریں۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ نئی حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا، بلکہ نگراں حکومت کو جانا پڑے گا۔ موجودہ حکومت اپنی ناک کٹنے کے ڈر سے نگراں حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس بھیجے گی اور نگراں حکومت یہ سوچ کر آئی ایم ایف سے رجوع کرے گی کہ اسے ملکی معیشت کو مشکل سے نکالنے کے لیے یہ قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اب دیکھیں کہ آئی ایم ایف کتنی سخت شرائط عاید کرتی ہے۔ آئی ایم ایف قرضہ دے گی، لیکن اس کے ساتھ سخت شرائط بھی عاید کرے گی، جب کہ اس وقت پہلے ہی عام افراد پر بہت زیادہ معاشی دبائو ہے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بڑی مشکل سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ اس صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں یہ کہوں گا کہ 2018ء سے 2020ء تک کے حالات خاصے سخت ہوں گے اور چاہے کسی کی بھی حکومت ہو، اسے مینج کرنا بہت مشکل ہو گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بہتری ممکن نہیں۔ سب کچھ ممکن ہے، لیکن اس مقصد کے لیے ماہرینِ معیشت مل کر بیٹھیں اور ایک ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ بنائیں۔ اسی طرح ہی یہ مسئلہ حل ہو گا، ورنہ ممکن نہیں۔ ہمیں نوجوانوں کے لیے نئی ملازمتیں پیدا کرنی ہوں گی، جو اس وقت کہیں نظر نہیں آ رہیں۔ ہمارے ہاں بجلی مہنگی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میں پچھلے سال ایک کانفرنس کے سلسلے میں امریکا گیا تھا۔ یہ کانفرنس ہر سال ہوتی ہے اور رواں برس جون میں بھی ہو گی۔ اس کانفرنس میں امریکی ریاستوں کے گورنرز تک شریک ہوتے ہیں اور یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں سے ملاقات کرتے ہیں۔ اگر کسی غیر ملکی نے ایک کروڑ ڈالرز کی سرمایہ بھی کرنی ہو، تو اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ آپ فلاں جگہ چلے جائیں، جہاں آپ کو 5سے6سینٹ میں بجلی ملے گی۔ اسی طرح زمین تک مفت فراہم کی جاتی ہے۔ امریکی حکام صرف یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کتنے امریکی شہریوں کو ملازمت فراہم کریں گے اور پھر جو فرد جتنی زیادہ ملازمتیں فراہم کرتا ہے، اسے اتنی زیادہ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ یو ایس انوسٹمنٹ کانفرنس 2017ء میں میری ملاقات نیو یارک کی خاتون گورنر سے ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ہمارے پاس نیویارک سے 100میل دور جگہ ہے۔ ہم وہ آپ کو فراہم کرتے ہیں، آپ کتنے افراد کو ملازمتیں دیں گے۔
جنگ :حکومت نے بھی تو بہت سارے انڈسٹریل زونز کا اعلان کیا ہے، تو ان کا کیا ہوا؟
زبیر طفیل:سی پیک کے تحت 10انڈسٹریل زونز کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن حقیقت میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ان میں سے کراچی میں دھابیجی انڈسٹریل زون مناسب لگتا ہے، لیکن بلوچستان میں کوئی خاطر خواہ صورتحال دکھائی نہیں دے رہی۔ ان انڈسٹریل زونز میں صرف چین سرمایہ کاری نہیں کر رہا، بلکہ ہم بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ سی پیک بہت اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت عوام کو ان کے آبائی علاقوں ہی میں روزگار کے مواقع ملنے چاہئیں، کیوں کہ اب یہ شہر مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ ہر صوبے میں اسپیشل اکنامک زونز بننے چاہئیں اور حکومت کو اپنے اخراجات کم کر کے انہیں سبسڈی دینی چاہیے۔
جنگ :آپ کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟
مزمل اسلم :پاکستانی معیشت کے مسائل کا حل برآمدات میں اضافے میں پوشیدہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں زراعت پر بھی توجہ دینی ہو گی۔ ہم نے زراعت کے میدان میں کھویا ہی کھویا ہے، کچھ پایا نہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، لیکن اس کے باوجود زرعی پیداوار اور کسانوں کے حالات ابتر ہیں۔ ہمیں اپنے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہو گا، جو زراعت سے وابستہ ہیں۔ پھر ہمیں عوام کو تعلیم، صحت، بجلی، گیس اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی اور ان کا معیارِ زندگی بہتر بنانا ہو گا۔ علاوہ ازیں، ہمیں امیر اور غریب کے درمیان پائے جانے والے امتیاز کو ختم کرنا ہو گا اور مڈل کلاس کو مضبوط کرنا ہو گا، جب کہ ہم اس مد میں پیسہ خرچ کرنے کے بہ جائے اسے خسارے میں چلنے والے اداروں پی آئی اے اور اسٹیل ملز وغیرہ پر خرچ کر دیتے ہیں۔
جنگ:کیا یہ خسارہ 1200ارب تک پہنچ چکا ہے؟
مزمل اسلم :جی کل خسارہ 1200ارب ہے، لیکن یہ صرف گردشی قرضوں کی مار ہے۔ اگر ہم گردشی قرضوں کو مینج کر لیتے ہیں، تو یہ خسارہ بھی ختم ہو جائے گا۔ پھر ہمیں اپنے ریونیو پول کو بھی دیکھنا ہو گا۔ صوبے لڑ جھگڑ کر این ایف سی ایوارڈ کے تحت حکومت سے اپنا حصہ تو لے لیتے ہیں، لیکن وہ ملک کے لیے کیا خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یعنی نہ وہ قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری لیتے ہیں، نہ دفاعی اخراجات کی، نہ ترقیاتی منصوبوں کی، لیکن اپنا حصہ ضرور مانگتے ہیں۔ سندھ کا بجٹ 1500ارب روپے ہے، لیکن میں حیران ہوں کہ یہ رقم کہاں جاتی ہے۔ یعنی ہمیں این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ اگر ہم صوبوں کو فنڈ دے رہے ہیں، تو ہمیں ان پر ذمے داریاں بھی عاید کرنی چاہئیں۔ یہاں اکنامک زونز کی بات ہوئی، تو یہ سارے صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہیں، وفاقی حکومت کی نہیں، لیکن ہم سارا زور وفاق، مفتاح اسمٰعیل اور اسحٰق ڈار ہی پر دیتے ہیں، مگر مراد علی شاہ کی بات نہیں کرتے، پنجاب کی خاتون وزیرِ خزانہ کی بات نہیں کرتے۔ ہمیں ان کا بھی احتساب کرنا چاہیے اور ان کو ذمہ داری کا احساس دلانا چاہیے۔
محمد جاوید بلوانی:ہمیں ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ برآمدات بڑھے گی، تو صنعتوں میں اضافہ ہو گا اور لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں زراعت پر بھی توجہ دینی ہو گی۔ اسی طرح ہم آبی گزر گاہوں کو استعمال کر کے اپنے درآمد بل میں کمی کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں نقل و حمل کے لیے دریائوں اور ندیوں کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں پیٹرول کا استعمال کم ہو گا اور ہمارے درآمد بل میں بھی کمی واقع ہو گی۔ ہمارے327ارب پیکیج اور 400ارب سیلز ٹیکس کی مد میں بقایا ہیں۔ ہمیں ان مسائل پر توجہ دینی ہو گی۔
زبیر طفیل:مستقبل میں توانائی اہم کردار ادا کرے گی۔ توانائی سستی ہو گی، تو برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت ہماری برآمدات 23ارب ڈالرز ہیں، لیکن ہم سے کم آبادی والے ملک ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور وغیرہ کی ایکسپورٹ 300سے 350ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح ویت نام کی ایکسپورٹ 160ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے اور ترکی کی برآمدات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جب تک بجلی اور گیس کی قیمت کم نہیں ہوتی، پیداواری لاگت میں کمی واقع نہیں ہو گی، برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا۔
جنگ:آپ حکومت کی پانچ سالہ معاشی کارکردگی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
طارق منیر: ایکسپورٹ میں گارمنٹس انڈسٹری کا بڑا کردار ہے، جب تک حکومت گارمنٹس سیکٹر پر توجہ نہیں دے گی، برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا، گارمنٹس انڈسٹری میں کہا جاتا ہے کہ ایک سلائی مشین کے پیچھے تین فرد ہوتے ہیں، یعنی اگر کوئی فرد یہ کہے کہ اس کے پاس ایک سو سلائی مشینیں ہیں، تو اس کے پاس 300افراد ہوں گے۔ گارمنٹس سیکٹر ملازمت کے مواقع پیدا کرتا ہے اور بیش تر ممالک میں اسے سبسڈی فراہم کی جاتی ہے۔ بنگلا دیش اور چین نے سبسڈی فراہم کی ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنی چاہئیں۔ پھر اہم اپنا خام مال برآمد کر رہے ہیں، جس میں یارن بھی شامل ہے، لیکن ہمیں خام مال نہیں مل رہا۔ ہمیں خام مال کی برآمد پر پابندی عاید کرنی چاہیے۔ حکومت کو ملازمتوں کی فراہمی پر توجہ دینی چاہیے اور اس سلسلے میں گارمنٹس سیکٹر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ گارمنٹس سیکٹر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سارے قرضے فراہم کر سکتا ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ گارمنٹس سیکٹر کو سہولتیں فراہم کرے گی، تو اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
جنگ: آپ تجاویز کیا دینا چاہیں گے؟
طارق منیر :میں بھی یہی تجویز دینا چاہتا ہوں کہ حکومت توانائی کو سستا کرے اور صنعت کاروں کو سہولت فراہم کرے۔
زبیر طفیل :گزشتہ دنوں میرا لندن کی ایک کانفرنس میں جانا ہوا، تو بنگلا دیشی حکومت کے ایک نمایندے نے مجھے بتایا کہ ان کی برآمدات 50ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی، حالاں کہ وہ ہم سے کاٹن خریدتا ہے۔ گارمنٹس سیکٹر سب سے زیادہ ملازمت کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔
جاوید بلوانی :پاکستان ایک ملین بیلز کو 1.17بلین ڈالر، بنگلا دیش 5بلین ڈالر اور جنوبی کوریا 10بلین ڈالرز میں تبدیل کرتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ویلیو ایڈیشن سے 10گنا منافع کمایا جا سکتا ہے۔ کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے میں نے یہ تجویز دی تھی کہ زیادہ کپاس اگانے والوں کو ایوارڈ دیا جائے، تاکہ ان میں مسابقت پیدا ہو۔
مزمل اسلم :موجودہ حکومت نے ایکسپورٹ کی طرح زراعت پر بھی توجہ نہیں دی۔ کپاس کی پیداوار 14ملین بیلز سے کم ہو کر 10ملین بیلز تک پہنچ گئی۔ یعنی ہر سال 4ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
جنگ :آپ سی پیک کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
مزمل اسلم :پاکستان میں چینی باشندوں کا آنا کوئی بری بات نہیں، لیکن ہمیں انہیں ریگولرائز کرنا ہو گا، کیوں کہ اب پاکستانی مزدوروں کی کارکردگی پہلے جیسی نہیں رہی اور چینی باشندے ان سے زیادہ آئوٹ پٹ دیں گے، تو ہمیں ان کی نگرانی کرنی ہو گی۔