فاروق قیصر
بونگا : انکل سرگم جی، ہانکنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
سرگم : ہانکنے کا مطلب ہے گائے ، بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کو لاٹھی کے زور پرآگے آگے چلانا۔
بونگا : اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم سب گائے بھینسیں اور بھیڑ بکریاں ہیں۔
سرگم : ہاں یہ تو ہے،مگر تمہیں اپنے بارے میں اچانک کیسے پتہ چلا؟
بونگا : اخبار میں کسی نے لکھا تھا کہ عوام کا کیا ہے، عوام کو تو جو چاہے اپنی لاٹھی سے یا لالچ سے جدھر چاہے ہانک کے لے جائے، اس کا مطلب یہی ہوا ناں کہ ہم عوام بھیڑ بکریاں ہیں۔
سرگم : اگر تم عوام پڑھے لکھے ہو جاؤ تو تمہیں کوئی طاقت کی لاٹھی سے گائے، بھینس یا بھیڑ ،بکریوں کی طرح نہیں ہانک سکے گا۔
بونگا : لاٹھی سے مجھے یاد آیا سر جی " جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
سرگم : یہ ایک محاورہ ہے، اس کا مطلب ہے کہ جس کے پاس لاٹھی ہوگی، وہی بھینس کو ہانک سکتا ہے۔
بونگا : یہ محاورہ شہر میں چلتا ہو گا، ہمارے گاؤں میں تو بھینس والے کی لاٹھی کسی کام نہیں آتی۔
سرگم : کیا مطلب؟ گاؤں میں بھینس رکھنے والے کی لاٹھی اب کسی کےکام کیوں نہیں آتی؟
بونگا : اب لاٹھی کے مقابلے میں چور ڈاکوؤں اور اٹھائی گیروں کے پاس بندوق اور پستول جو ہوتی ہے۔ بھینس والا بیچارہ لاٹھی لہراتا رہ جاتا ہے اور اٹھائی گیر بندوق چلا کر بھینس چھین کر لے جاتا ہے۔
سرگم : تم نے ٹھیک کہا، اب ہمارے محاوروں کے معنی ہمارے لئے بے معنی ہو چکے ہیں۔
بونگا : جی سر جی، اب تو ہمارے بچوں کو بھی پرانے محاوروں میں استعمال ہونے والی چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں پتا۔ کل میں نے اسلام آبادمیں ایک بچے سے پوچھا کہ بھینس کیا ہوتی ہے تو بچے کی ماں مائنڈ کر گئی اور بولی، بونگے، میرا بچہ اسلام آباد کے انگریزی اسکول میں پڑھتا ہے۔ اس کو بھینس کا کیا پتا؟ ایسا سوال تو تمہیں کسی گاؤں کے بچے سے کرنا چاہیے۔
سرگم : بچے کی ماں نے ٹھیک ہی تو کہا، یہ محاورہ خالصتاً دیہاتی ہے اور اس کا شہری محاوروں سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ کسی دیہاتی بچے کا ڈبے کے دودھ سے ہو سکتا ہے۔
بونگا : سر جی، ہمیں اب اپنے محاورے یا ان کے معنی نہ صرف تبدیل کر دینے چاہیں،بلکہ شہری محاورے اور دیہاتی محاورے الگ الگ کر دینے چاہیے۔
سرگم : ہاں ہونا تو یہی چاہیے، مگر کیا کریں ہمارے نصاب میں یہی محاورے لکھے ہیں۔
بونگا : تو کیا ہوا؟ نصاب تو تبدیل بھی ہو سکتا ہے ناں، یہ کوئی ہمارا نصیب تو نہیں کہ جو لکھا جا چکا ہے وہ کسی طرح تبدیل نہیں ہو سکتا؟
سرگم : نصاب تو ہر حکومت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہی رہتا ہے۔ نصاب کے محاورے تبدیل نہیں ہوتے، اب دیکھو نا اسلام آباد میں اتنی بھینسیں نہیں پائی جاتیں جتنے افسر پائے جاتے ہیں، چنانچہ یہاں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے بجائے " جتنا عہدہ اتنی دھونس" کا محاورہ رائج کر دینا چاہیے، تاکہ لوگوں کی سمجھ میں اس کا مطلب تو آ سکے۔
بونگا : اس طرح تو ہمیں کئی اور محاورے بھی تبدیل کرنے پڑیں گے۔
سرگم : ہاں تو اور کیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے علاوہ بھینس کے آگے بین بجانا بھی بین بھی بندہو جانا چاہیے۔
بونگا : وہ کیوں سر جی؟
سرگم : اسلام آباد میں مویشی رکھنے کی ویسے بھی اجازت نہیں، اس لئے بھینس کی طرح بین بھی ایک پرانا میوزیکل انسٹرومنٹ شمار ہوتا ہے، جس کے بارے میں اسلام آباد کے رہنے والوں کو کچھ علم نہیں کہ وہ کیا ہوتا ہے،کب بجایا جاتا ہے اور کس موقع پر بجایا جاتا ہے۔
بونگا ،مگر ہم نے تو سنا ہے کہ بین بجا کر سانپ کو مست کر کے پکڑا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں تو سانپ بھی بہت ہوتے ہیں، اگر یہاں بین بجانے کی اجازت نہیں تو سانپوں کو کس طرح مست کر کے پکڑا جاتا ہو گا؟
سرگم ،بڑے شہروں میں سانپ اب ان ہی بینڈوں کی دھن پر مست ہوتے ہیں۔ اب شہر میں بین بجانے کا زمانہ نہیں رہا۔
بونگا ,اس کا مطلب ہے کہ اب بچارے بین والے کی بھی کوئی نہیں سنتا؟
سرگم ,بین کے علاوہ ہمارے کئی دوسرے ساز بھی ماڈرن سازوں کے سامنے ناساز ہو چکے ہیں۔
بونگا ،تو کیا اب ہمارے اصلی اور روایتی سازوں اور سازندوں کی بجائی ہوئی دھن پہ کوئی مست نہیں ہو گا؟
سرگم : کیوں نہیں مست ہو گا؟ اب ہمارا سازندہ اپنی دھن خود ہی سن کر اس پر " فاقہ مست " ہو گا۔ ہمیں اپنے دیسی سازندے کا نام تبدیل کر دینا چاہیے۔ انہیں سازندہ نہیں بلکہ " تھا زندہ " سمجھ کر پکارنا چاہیے۔