کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب نےگفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ اسد درانی نے اپنی کتاب کا مسودہ جی ایچ کیو سے کلیئر نہیں کروایا جو ملٹری کوڈآف کنڈکٹ کا حصہ ہے، اسد درانی جی ایچ کیو میں اطمینان بخش جوابات نہیں دے سکے جس کے بعد ان سے تفصیلی انکوائری کا فیصلہ کیا گیا ہے، اسد درانی سے انکوائری کی بنیاد پر جج ایڈووکیٹ جنرل ڈپارٹمنٹ اس کے قانونی پہلوئوں کے مطابق آرمی چیف سے قانونی ایکشن منظور کروائے گا، اگر معلومات اور لوگ دستیاب ہوں تو اسد درانی کیخلاف انکوائری چھ سات دن میں مکمل ہوسکتی ہے، اسد درانی نے اگر کہیں سے دستاویزات منگوانی ہوں تو کچھ دیر لگ سکتی ہے۔امجد شعیب کا کہنا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب کا مسودہ جی ایچ کیو سے کلیئر کروایا تھا، مشرف کے پاس کلیئرنس سرٹیفکیٹ ہے توان پر کوئی کیس نہیں بنایا جاسکتا نہ ہی انہیں وضاحت دینے کیلئے بلایا جاسکتا ہے، اسد درانی نے اپنی کتاب میں کوئی راز منکشف نہیں کیا ہے، اسد درانی حالیہ کچھ معاملات پر جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ انہیں ثابت کرنا ہوگا، اسد درانی کی کتاب چھپنے کی ٹائمنگ دیکھیں تو یہ انڈیا کی طرف سے ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہوسکتا ہے۔ سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ اسد درانی کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ کشمیریوں کے خلاف بھارت کے گواہ بن گئے ہیں،اسد درانی نے کتاب میں کوئی ایسا راز افشا نہیں کیا جو قومی سلامتی کیلئے خطرناک ہو،پاکستان کی قومی سلامتی کسی کی کتاب سے خطرے میں نہیں آسکتی ہے، اسد درانی نے کچھ غلط باتوں کو انکشافات کے رنگ میں اپنی کتاب میں شامل کیا ہے لیکن یہ باتیں وہ پہلے بھی کرچکے ہیں، اسد درانی برطانوی نشریاتی ادارے اور ایک عرب ٹی وی کے انٹرویوز میں بھی یہ بات کرچکے ہیں کہ اسامہ بن لاد ن کو پاکستان کے کچھ ریاستی اداروں کی مرضی سے ایبٹ آباد میں رکھا گیا تھا، ان سے اسی وقت اس بارے میں پوچھا جانا چاہئے تھا، ایبٹ آباد کمیشن کی متفقہ اور مصدقہ رپورٹ سامنے نہ آنے کی وجہ سے اسد درانی کی باتوں کو اہمیت مل رہی ہے، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ سامنے آجاتی تو اسد درانی کو سازشی تھیوریاں پھیلانے کا موقع نہیں ملتا، اسد درانی نے خود کو میڈیا میں نمایاں کرنے کیلئے جان بوجھ کر ایسی باتیں کی ہیں، اسد درانی سے پوچھ گچھ سے عام آدمی کو تاثر ملے گا کہ پاکستان میں قانون سب کیلئے برابر ہے۔ حامد میر نے کہا کہ ہندوستان کا میڈیا اسد درانی کو پاکستان کیخلاف ایک گواہ کے طور پر پیش کررہا ہے، اسد درانی بھارتی حکومت کے اس الزام کو انکشاف بنا کر پیش کررہے ہیں کہ حریت کانفرنس کو پاکستان نے بنایا تھا، اسد درانی کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جس سے پاکستان کے خلاف بھارتی پراپیگنڈے کو تقویت ملے،اسد درانی کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ کشمیریوں کے خلاف بھارت کے گواہ بن گئے ہیں، پاکستان میں کوئی سیاستدان یا صحافی ایسی باتیں کرے تو اس پر غداری کا الزام لگ جاتا ہے، ماضی میں نیشنل عوامی پارٹی پر اسی چکر میں پابندی لگادی گئی تھی کہ آپ نے ایسی باتیں کیوں کیں، اسد درانی کو کس نے حق دیا کہ موجودہ صورتحال میں ایسی باتیں کریں جس سے کشمیر کی جدوجہدآزادی سے متعلق بھارتی موقف کو تقویت ملے، اسد درانی کے پاس کیا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں بھارت سے زیادہ امریکا مداخلت کررہا ہے، کلبھوشن یادیو کی صورت میں ہمارے پاس بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا ثبوت موجود ہے، اسد درانی اپنے دعوئوں کے حق میں ٹھوس ثبوت پیش کریں ، اگر وہ ثبوت پیش نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے انہوں نے جھوٹ بول کر نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ بھی زیادتی کی ہے۔ترجمان تحریک انصاف فواد چوہدری نے کہا کہ نگراں وزیراعظم اور نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے اچھی ساکھ رکھنے والے غیرجانبدار لوگوں کے چنائوپر مطمئن ہیں،خوشی ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک نگراں وزیراعظم بنیں، نگراں وزیراعلیٰ کیلئے تحریک انصاف کے دیئے گئے نام پر اتفاق کر کے شہباز شریف نے کوئی اعتماد نہیں دکھایا، پاکستان وقت پر انتخابات کی طرف جارہا ہے۔صدر پلڈاٹ احمد بلال محبوب نے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک نگراں وزیراعظم کیلئے موزوں ترین شخصیت ہیں، جسٹس ناصر الملک الیکشن کی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اس لئے انہیں انتخابی عمل کی باریکیوں کا علم ہے، جسٹس ناصر الملک کی اخلاقی ساکھ انتخابی عمل پر نگاہ رکھنے کیلئے معاون ثابت ہوگی، قانون کی رو سے الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن اچھا ہوا تو اس کا کریڈٹ الیکشن کمیشن کو جانا چاہئے جبکہ اگر الیکشن میں خامیاں ہوئیں تو اس کا ڈس کریڈٹ بھی الیکشن کمیشن کو ہی جائے گا، نگراں وزیراعظم کے پاس اختیارات نہیں ہیں، نگراں وزیراعظم الیکشن کمیشن کے ساتھ مدد اور تعاون کرنے کے پابند ہیں،الیکشن کمیشن میں بہت بہتری آئی ہے ، سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن پر جیسا اعتماد ہونا چاہئے وہ نہیں ہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ را کے سابق چیف اے ایس دولت کے ساتھ کتاب لکھنے والے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی مشکلات میں دکھائی دے رہے ہیں، پیر کو ہونے والی پیشرفت کے بعد واضح ہوگیا کہ اسد درانی نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا وہ فوج کی اعلیٰ قیادت کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اس لئے اب ان کے خلاف باقاعدہ تحقیقات ہوں گی، خبریں سامنے آرہی ہیں کہ وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں دیگر امور کے ساتھ اسد درانی کی کتاب پر بھی بات ہونے کا امکان ہے، اس سے پہلے چودہ مئی کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیان کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا یا گیا تھا، پیر کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی عسکری قیادت کے سامنے پیش ہوئے جس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹوئٹ کیا کہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کو ان کی حالیہ کتاب پر پوزیشن واضح کرنے کیلئے طلب کیا گیا، اس معاملہ کی مکمل تحقیقات کیلئے حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں کورٹ آف انکوائری تشکیل دیدی گئی ہے، جیو نیوز کے ذرائع کے مطابق اسد درانی کا نام ای سی ایل میں بھی ڈال دیا گیا ہے، اسد درانی سے اعلیٰ سطح کی تحقیقات ہوں گی، دیکھنا ہوگا کہ سابق آئی ایس آئی چیف کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے، اسد درانی کا نام پاکستان کی تاریخ میں اہم سمجھا جاتا ہے، اسد درانی کا نام اصغر خان کیس میں بھی سامنے آیا، ان پر الزام لگا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے اور آئی جے آئی کی تشکیل کیلئے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کیے، اس حوالے سے ایف آئی اے سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات کررہی ہے ، اسد درانی اس کیس میں اپنا ابتدائی بیان بھی ریکارڈ کراچکے ہیں مگر اب انہیں ایک اور سنگین الزام کا سامنا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اے ایس دولت اور جنرل درانی کی کتاب میں نہ صرف پاک بھارت تعلقات پر بات کی گئی ہے بلکہ کارگل آپریشن، ایبٹ آباد آپریشن، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور مسئلہ کشمیر کا بھی ذکر ہے، اس کتاب میں دونوں سابق انٹیلی جنس سربراہان نے اہم معاملات پر بڑے بڑے دعوے کیے ہیں جس کے بعد نئے سوالات اٹھ کھڑے ہوگئے ہیں، پیر کو بھی نواز شریف نے کہا کہ انہیں تو ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے مگر کتابیں لکھنے والوں کو کون پوچھے گا، اس سے پہلے نواز شریف نے اسد درانی کی کتاب پر قومی سلامتی کمیٹی کاہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کیا تھا، سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی سینیٹ میں اعتراض کیا کہ اگر یہ کتاب کسی سویلین نے بھارتی ہم منصب کے ساتھ لکھی ہوتی تو اس پر غداری کا فتویٰ لگادیا جاتا، ان بیانات کے بعد خبر سامنے آئی کہ فوج کو جنرل درانی کی کتاب پر تحفظات ہیں ، تھوڑی دیر بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹ کیا کہ اسد درانی کو 28مئی کوجی ایچ کیو طلب کیا جارہا ہے کہ کتاب میں خود سے منسوب باتوں کی وضاحت کریں، ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ تمام حاضر اور ریٹائر فوجیوں پرلاگو ہوتا ہے اور کتاب میں اسد درانی سے منسوب خیالات اس کی خلاف ورزی ہیں،پیر کو اسد درانی جی ایچ کیو میں پیش ہوئے ۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ آئندہ عام انتخابات کے سلسلہ میں پیر کو ایک اور اہم مرحلہ مکمل ہوگیا، آج نگراں وزیراعظم اور پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کا نام فائنل ہوگیا، دونوں نام پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دیئے گئے تھے جنہیں پی ٹی آئی نے ویلکم کیا ہے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کو نگراں وزیراعظم نامزد کردیا ہے، خورشید شاہ نے نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک شفاف انتخابات کروائیں گے، جسٹس ناصر الملک اہم مقد ما ت کے فیصلوں کا حصہ رہے ہیں، تین نومبر کی پرویز مشرف کی ایمرجنسی کے فیصلے کیخلاف حکم امتناع دینے والے بنچ کا حصہ تھے، پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا، این آر او عملدرآمد کیس میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا، انہوں نے اس عدالتی کمیشن کی بھی سربراہی کی تھی جس نے تحریک انصاف کی طرف سے 2013ء کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزام کی تحقیقات کی تھی، جسٹس ناصر الملک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہنے کے ساتھ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی رہ چکے ہیں۔