• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک حقارت بھری نگاہ کام کرگئی

میں 1973ء میں ایک اسکول میں بچّوں کو نورانی قاعدہ پڑھانے پر مامور تھا۔ 120روپے تن خواہ ملتی تھی، جن میں سے 40روپے ماہ وار پر ایک چھوٹا سا کمرا کرائے پر لیا ہوا تھا۔ شادی ہوچکی تھی۔ میری خوش دامن بھی ساتھ ہی رہتی تھیں، ایک شِیرخوار بچّہ بھی تھا۔ ہم چاروں اس تنگ کمرے میں بڑی غربت کی زندگی بسر کررہے تھے۔ کرائے کی مد میں 40روپے نکال کر 80روپے کی رقم سے اخراجات کیسے پورے کرتے تھے؟ مت پوچھیے۔ میں 5جماعتیں پڑھا ہوا تھا، کسی اچھی نوکری کا تصوّر بھی ممکن نہیں تھا، اس لیے تنگ و ترش حالات میں صبر و شکر سے گزارہ کررہا تھا۔ میں اپنی عزت نفس کو بے حد اہمیت دیتا تھا، اس لیے کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے یا ادھار مانگنے کا سوچتا بھی نہیں تھا۔ بیوی بھی میری طرح صابر اور قانع خاتون تھی، اس لیے دن اسی طرح گزر رہے تھے۔ ایک دن مکتب کی شفٹ ختم ہونے کے بعد کسی کام سے اپنے ایک قریبی عزیز، وسیم احمد کے گھر گیا، تو ان کے دروازے پر ایک صاحب کودستک دیتے ہوئے دیکھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے، ’’کیا آپ اندر جا رہے ہیں؟‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلادیا، تو انہوں نے کہا ’’وسیم صاحب سے کہہ دیجیے کہ رضوی آپ سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘میں اندر گیا، بھابی کو بتایا کہ کوئی رضوی صاحب، وسیم سے ملنے آئے ہیں۔‘‘ وہ کہنے لگیں ’’وسیم، تو نائٹ ڈیوٹی کر کے کچھ دیر پہلے ہی آئے ہیں اور گہری نیند سو رہے ہیں، آپ کہیں تو انہیں جگادوں؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’رہنے دیں بھابی، میں ان سے کہہ دوں گا کہ وہ چند گھنٹوں بعد آجائیں۔‘‘ میں لپک کر باہر گیا، رضوی صاحب بے چینی سے منتظر کھڑے تھے۔ میں نے بتایا کہ ’’وہ نائٹ ڈیوٹی سے آنے کے بعد ابھی سو رہے ہیں۔‘‘ وہ صاحب کچھ سوچ کر کہنے لگے ’’میرا ایک میسج ہے۔‘‘ میں چوں کہ انگریزی زبان سے قطعی نابلد تھا، ان کی بات پوری سنی بھی نہیں، میسج کا مطلب دفتری فائل سمجھا اور پوری بات سنے بغیر اندر بھاگا اور بھابی سے کہا ’’رضوی صاحب کی کوئی فائل ہے، وسیم کے پاس، وہ جاگ جائیں، تو کہہ دیں کہ وہ فائل رضوی صاحب کو پہنچادیں۔‘‘ بھابی نے جواب دیا کہ ’’وسیم جیسے ہی بیدار ہوں گے، انہیں یہ پیغام پہنچادوں گی۔‘‘ پھر میں نے یہ سوچ کر کہ ابھی وسیم سو رہا ہے، پھر کسی وقت آجائوں گا، بھابھی سے رخصت لے کر باہر آیا، تو رضوی صاحب کو اسی طرح منتظر کھڑے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ انہوں نے مجھے قدرے ناراضی اور بے زاری سے دیکھا، تو میں نے کہا ’’جناب آپ کا پیغام ان کی اہلیہ کو پہنچادیا ہے۔ وہ آپ کی فائل پہنچادیں گے۔‘‘ میرے اس جواب پر غالباً رضوی صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ وہ انتہائی غصّے اور تحقیرآمیز انداز سے کچھ لمحے مجھے دیکھتے رہے، جیسے کچھ کہیں گے، پھر سر جھٹک کر اور منہ بگاڑ کر چلے گئے کہ مجھ جیسے نہایت احمق اور جاہل سے کچھ کہنا مناسب نہیں۔ ان کی وہ حقارت بھری نگاہ میرے دل و دماغ میں تیر کی طرح چبھ گئی کہ آخر میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ اس شخص نے اس قدر تحقیر آمیز رویّے کا اظہار کیا۔ میری عزتِ نفس پر ٹھیس لگی اورمیں لفظ ’’میسج‘‘ کا مفہوم سمجھنے کے لیے بے چین ہوگیا۔

پھرگھر جانے کی بجائے اپنی سائیکل پر اِدھر ادھر چکّر لگاتے ہوئے لفظ میسج کے معنیٰ پر غور کرتا رہا۔اچانک مجھے بچپن کی ایک بھولی بسری بات یاد آگئی، جب میں اردو بازار کی ایک علمی محفل میں حاضرینِ محفل کی گفتگو سے کچھ سیکھنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ وہیں ایک صاحب نے پیغمبر کے لیے اپنی گفتگو میں بار بار ’’میسنجر‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا، جس کا مطلب انہوں نے پیغام لانے والا بتایا تھا، یقیناً لفظ میسج بھی اسی سے جڑا ہوگا، تو اس کا مطلب پیغام ہے۔ اس لفظ کے معنی ذہن میں آتے ہی مجھ پر گھڑوں پانی پڑگیا کہ گویا رضوی صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ انہیں جگانے کی ضرورت نہیں ہے، صرف میرا یہ پیغام پہنچادیں۔ لیکن میں نے ان کی پوری بات سنے بغیر جھٹ اندر جا کر فائل کی بات کر ڈالی تھی۔ یہ میری جہالت ہی تھی کہ مجھے میسج کا مطلب نہیں آتا تھا۔ اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہونے کے بعد میں نے اسی وقت عہدکرلیا کہ جب ہر شخص اس معاشرے میں تھوڑی بہت انگریزی بول اور سمجھ سکتا ہے، تو میں کیوں نہیں سیکھ سکتا، کب تک جاہل رہوں گا، بہتر ہو گا کہ میں بھی اسے سیکھنے کی کوشش کروں۔پھر گھر جانے سے پہلے میںنے محلّے کی ایک بک شاپ سے چھٹی جماعت کا مکمل کورس اورایک ڈکشنری خرید لی اور جب ان کتابوں کا مطالعہ کیا، تو اپنے ذہن کو ان سے آگے پایا۔ میں نے دو ماہ میں یہ کتابیں ختم کر لیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے زرخیز ذہن عطا کیا تھا۔ شوق اور انہماک نے اسے اور چمکا دیا تھا۔ اسی طرح چند ماہ بعد آٹھویں کا کورس بھی ختم کرلیا تو نویں، دسویں کی کتابیں خرید لایا۔ تقریباً سوا سال میں چھٹی سے دسویں جماعت کے کورس بھی ختم کر لیے، تویک گو نہ خوشی محسوس ہوئی، کیوں کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر کیا تھا۔ کبھی ٹیوشن سینٹر گیا ،نہ کسی دوست سے مدد طلب کی ۔سوائے اپنی اہلیہ کے تمام رشتے داروں اور دوستوں سےیہ راز چھپایا ہوا تھا، مبادا لوگ یہ کہہ کر میری حوصلہ شکنی کریں کہ اس عمر میں اب کیا خاک پڑھو گے۔ میں انہماک اور توجہ و لگن سےپڑھتا رہا، انگریزی اور ریاضی پر خصوصی توجّہ مرکوز رکھی۔ ڈکشنری اور گرائمر کی کتابوں سے مدد لی۔ لوگوں کی گفتگو بہ غور سنتا تھا تاکہ انگریزی الفاظ کے تلفّظ کی ادائیگی میں غلطی کا امکان نہ رہے۔ اللہ نے میری بھرپور مدد فرمائی۔ ایک دفعہ جو پڑھ لیتا تھا، وہ ذہن میں نقش ہو جاتا تھا۔

بالآخر میرا یہ راز اس وقت سب پر عیاں ہوگیا، جب میں نے نویں اور دسویں کے امتحانات ایک ساتھ دینے کے لیے انرولمنٹ فارم جمع کرواکر ایڈمٹ کارڈ حاصل کیا۔ میری بھتیجی ان دنوں اپنے شوہر کے ساتھ ہمارے گھر آئی ہوئی تھی، اس نے میرا ایڈمٹ کارڈ دیکھ لیا، وہ پڑھی لکھی لڑکی تھی، اس نے غور سے اسے پڑھا اور باہر آ کر سب کو بتا دیا ۔ سب بے حد حیران اور خوش ہوئے۔ بھتیجی مجھ سے پوچھنے لگی ’’چاچا جی! میٹرک کے بعد بھی آپ کا آگے پڑھنے کا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا، تو اس نےکہا’’بالفرض آپ نے ماسٹرز کر لیا، پھر آگے کیا کریں گے؟‘‘میں نے جواب دیا ’’علم تو خود بہت بڑا خزانہ ہے، اس کے حصول کے بعد میں کوئی اچھی سرکاری ملازمت ڈھونڈوں گا۔‘‘میری بات سن کر بہ جائے خوش ہونے کے، وہ کچھ متفکر سی ہوگئی ،کہنے لگی ’’چاچا جی! آپ کے ایڈمٹ کارڈ میں جو عمردرج ہے، اس کے حساب سے تو ایم اے کے بعد آپ اوورایج ہو جائیں گے، سرکاری ملازمت کے اہل نہیں رہیں گے۔ ‘‘اس کی بات درست تھی۔ میں نے کہا ’’اب کیا ہو سکتا ہے، میرا تو ایڈمٹ کارڈ بن چکا۔‘‘اس نے مشورہ دیا ’’اس کارڈ کو پھاڑکر پھینکیں، ڈبل فیس دے کر دوبارہ سے رجسٹریشن کروا لیں۔‘‘ اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں نے ڈبل فیس ادا کر کے نئے سرے سے رجسٹریشن کروائی، اس میں اپنی عمردس سال کم لکھی، یعنی تاریخ پیدائش 1940ء کی جگہ 1950ءلکھ دی اور دوبارہ انرولمنٹ کروا لیا۔ اپنے طور پر میٹرک کے امتحانات کی تیاری میں نے بھرپور محنت سے کی تھی، مگر دل میں یہ خوف بھی تھا کہ خدا جانے کام یابی کی اس پہلی سیڑھی سے پھسل کر دوسروں کے لیے کہیں تماشا نہ بن جائوں، کیوں کہ اب محلّے، گلی اور سب رشتے داروں میں میرے اس عمر میں میٹرک کا امتحان دینے کے چرچے ہوچکے تھے ۔ میرے پڑوسی نے تو رول نمبر تک مجھ سے لے لیا تھا۔امتحانات دینے کے بعد میں اپنے معمولات میںمصروف تھا کہ ایک روز کسی نے بتایا کہ کل میٹرک کا رزلٹ آرہا ہے۔وہ دن میرے لیے حقیقتاًناقابل فراموش دن تھا۔ رات بھر نیند نہیں آئی۔ صبح سویرے اخبارتو منگوا لیا، مگر اسے کھولنے کی ہمّت نہیں ہو پارہی تھی۔ سوچا ناشتے کے بعد دیکھوں گا، پتا نہیں کیا نتیجہ آئے، اچھا یا برا، دونوں صورتوں میں بھوک، پیاس کا اڑ جانا لازم تھا۔ بہرحال،ہمّت کرکے اخبار کھولا اور سب سے پہلے تھرڈ ڈویژن کی لسٹ پر نظر دوڑائی، اسی لمحے اچانک دروازے پر زوردار دستک ہوئی۔ میں نے اخبار وہیں چھوڑا، دروازہ کھولا، تو میرا پڑوسی کھڑا تھا، جس نے مجھ سے میرا رول نمبر لیا تھا۔ دروازہ کھولتے ہی مجھ سے لپٹ کر مبارک باد دینے لگا، تو میں نے کہا ’’بھئی کس بات کی مبارک باد؟ میرا تو تھرڈ ڈویژن میں بھی نام نہیں۔ ‘‘اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور گرم جوشی سے جواب دیا ’’کیسے آدمی ہو، پہلے فرسٹ ڈویژن میں دیکھنا تھا، تم نے فرسٹ ڈویژن حاصل کی ہے، یار… مٹھائی منگوائو۔‘‘ ناقابلِ یقین کام یابی کے حصول کے وہ لمحات الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔ مجھے میری محنت، لگن اور شوق کا اتنا بڑا انعام ملا تھا، جس کی خوشی بیان سے باہر تھی۔ پہلی رات پریشانی میں نیند نہیں آئی تھی اور دوسری رات خوشی نے سونے نہیں دیا ۔ سب سے بڑا انعام اس غیر متوقع کام یابی نے مجھے یہ دیا کہ میرا اعتماد جو برسوں سے احساسِ کم تری میں دَب چکا تھا، وہ بحال ہو گیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 1975ء میں میٹرک، 1977ء میں بی اے اور 1981ء میں ایم اے کے بعد ملازمت کی تگ و دو شروع کر دی۔اخبار کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتا تھا، ایک روز اسلامیات کے لیکچرارکے لیے اشتہارپر نظر پڑی، تووہاںدرخواست دے دی، زبانی اور تحریری ٹیسٹ کے بعدمجھے ملازمت مل گئی اور جناح پولی ٹیکنک، کراچی میں 17ویں گریڈ میںمیری پوسٹنگ ہوگئی۔ میں نے چوں کہ ایم اے اسلامیات ہی میں کیا تھا، اس لیے اسی مضمون کو پڑھاتا رہا، مگر انگریزی، جو پہلے میری ضد تھی، اب میرا شوق بن چکی تھی۔ انگریزی ادب کے بھرپور مطالعے کے بعد قدرت نے مجھے ایک موقع فراہم کر دیا۔ انگلش کے لیکچرار کا دوسرے کالج تبادلہ ہوگیا تو پرنسپل نے میری انگریزی میں مہارت سے متاثر ہو کر اسلامیات کے ساتھ انگریزی پڑھانے پر بھی مامور کردیا، جس کے بعد میں صرف انگریزی ہی کا ہو کر رہ گیا۔

ریٹائرمنٹ سے قبل میری انگلش گرائمر کی ایک کتاب کے نام سے چَھپ کر مارکیٹ میںآئی، توتدریسی اداروں نے بہت سراہا۔ میرے پانچ بیٹوں میں سے تین انجینئر، ایک صحافی اور سب سے چھوٹا ڈاکٹر ہے۔ دو بیٹیاں ہیں۔ بڑی میتھمیٹکس میں ایم ایس سی کی ڈگری لے چکی ہے، جب کہ چھوٹی نے حال ہی میں گریجویشن کیا ہے۔

میری زندگی کی تعلیمی میدان میں جدوجہد کی یہ مختصر داستان میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے کہ جب واقعتاًایک لمحے کی شدید ندامت نے میری زندگی کی کایا پلٹ ڈالی اور مجھے ایسے راستے پر ڈال دیا،جس پہ چل کے کام یابیوں کے دَر وا ہوتے چلے گئے۔ اس راہ پر جو بھی ملا، اس نے میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے اس مقام تک پہنچا دیا ،جس کا میں ایک تنگ و تاریک سے کمرے میں رہتے ہوئے تصوّر بھی نہیں کرسکتا تھا۔ جس عمر سے میںنے اپنی پڑھائی کا آغاز کیا تھا، وہ پڑھنے والی ہرگز نہیں تھی اور نہ ہی حالات ایسے تھے، مگر اس ایک واقعے یا ایک لمحے نے مجھے جھنجھوڑ کر جہالت کے اندھیروں سے باہر لا کھڑا کیا۔ یعنی وہ لمحہ ،جب وسیم بھائی کے گھر رضوی نامی ملاقاتی نے مجھے جاہل سمجھ کر حقارت سے دیکھاتھا ۔ وہ میسج کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے پر مجھے تحقیر سے دیکھ رہے تھے اورپھر وہی لفظ میرے لیے یہ میسج بن گیا کہ’’ میاں آگے بڑھو، ورنہ دنیا تمہیں اور تمہارے بچّوں کو ایسی ہی نظروں سے دیکھتی رہے گی۔‘‘

(پروفیسر جمیل احمدامینی،کراچی)

تازہ ترین
تازہ ترین