میری زندگی کا یہ ایک انتہائی جذباتی واقعہ ہے، جو ہر قومی تہوار پر ذہن میں جاگ جاتا ہے اورپھر میرے اندر اسی روز جیسا جوش و جذبہ بھرجاتا ہے۔ اِس وقت میری عمر اگرچہ 76برس سے زیادہ ہے، مگرقیامِ پاکستان ، خصوصاً قائدِاعظم کے ذکر سے میرے جذبات پرجوش نوجوانوں جیسے ہوجاتے ہیں۔ میری پیدائش بھارت کے ضلعے میرٹھ کے مشہور قصبے، شاہ جہاں پور میں ہوئی تھی۔ شاہ جہاں بادشاہ کے نام سے منسوب یہ بستی، آج بھی آباد ہے۔ میری پیدائش کے ڈھائی سال بعد میری چچی اور چچا مجھے اپنے ساتھ فریدنگر لے گئے۔ چچی مجھ سے بے حد محبّت کرتی تھیں، چچا اور چچی نے میری پرورش نہایت ناز و نعم سے کی۔محمد اسماعیل خان، کا شمار فرید نگر کے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ وہ ’’آل انڈیا مسلم لیگ، فرید نگر‘‘ کے صدر تھے اور میرے چچا ڈاکٹر حافظ مقبول احمد خان سیکرٹری جنرل۔ ضلع میرٹھ کی تحصیل، باغ پت کے نواب، جمشید علی خان مسلم لیگ کے سرگرم عہدے دار اور قائد اعظم کے اچھے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ قائدِ اعظم اکثر ان کے گھر تشریف لاتے رہتے۔ غالباً 1947ء کا ابتدائی مہینہ تھا، قائد اعظم کی باغ پت آمد کی خبر آئی، وہ محض چند روز آرام کی خاطر باغ پت تشریف لارہے تھے۔ اس لیے ان کی آمد کی خبر خفیہ رکھی گئی تھی۔ میرے چچا کو بچپن سے سیاست میں دل چسپی تھی اور ان کے زیر سایہ پرورش پانے کی وجہ سے میرے اندر بھی سیاسی بے داری پیدا ہورہی تھی۔ قائد اعظم سے میری محبت جنون کی حد تک جاپہنچی تھی، میں والہانہ انداز میں چچا کے ساتھ ہر جلسے میں شرکت کرتا تھا۔ سارا دن اپنی عمر کے بچّوں کے ساتھ مسلم لیگ کا جھنڈا لیے نعرے لگاتا، گلیوں گلیوں گھومتا پھرتا تھا۔ ہماری زبان پر یہ نعرہ ہوتا تھا ’’ہاتھ میں بیڑی، منہ میں پان ،لے کے رہیں گے پاکستان۔‘‘
جب مجھے قائداعظم کے باغ پت آنے کی خبر ہوئی، تو مچل گیا، چچا سے ضد کی کہ مجھے بھی ساتھ لے کر جائیں۔ چچا اور محمد اسماعیل خان کے سوا کسی اورکو قائد سے ملنے کی اجازت نہیں ملی تھی، چچا نے مجھے ٹالنے کی کوشش کی، مگر چچی نے کہا ’’ اسے آپ لے جائیں، قائداعظم نے بڑوں کو ملنے سے منع کیا ہے، بچّوں کو نہیں، اسے دیکھ کر خوش ہی ہوں گے کہ پاکستان بننے کے بعد ایسے بچّوں سے پاکستان محفوظ اور مضبوط ہوگا۔‘‘یہ بات چچا کے دل کو چھو گئی اور انہوں نے میری بات مان لی۔ میں اس دن کا بے تابی سے انتظار کرنے لگا۔ مقررہ روز چچی، مجھے بہت پیار و محبّت اور توجّہ سے تیار کرتے ہوئے سمجھاتی جارہی تھیں کہ قائد سے کیسے ملنا ہوگا اور کیا باتیں کرنا ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔ فرید نگر سے دو رکنی وفد کو جانا تھا، جو میری شمولیت سے ڈھائی رکنی ہوگیا تھا۔ قائد اعظم کا باغ پت کے ریسٹ ہائوس میں قیام تھا۔ وہاں پہنچے، تو دو وفود پہلے سے موجود تھے، ان کے ساتھ بھی دو بچّے آئے تھے، جو تقریباً میری ہی عمر کے تھے اور میری طرح پاکستان اور قائد کے دیوانے لگ رہے تھے۔ پہلے ان دونوں وفود کو باری باری ملاقات کے لیے بلایا گیا، پھر ہماری باری آئی۔ سیکرٹری ہمیں اندر لے کرگیا۔ وہ منظر، میری آنکھیں زندگی بھر بھلا نہ پائیں گی۔ قائد اعظم ایک بڑی سی آرام کرسی پر بیٹھے تھے، ان کے چہرے پر مسکراہٹ سجی تھی، طمانیت اور سچائی جھلک رہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک آگئی اور چہرے پر رعب کی جگہ نرمی نے لے لی۔ بلاشبہ، وہ بچّوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ہم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک ساتھ ادب سے سلام کیا، میری حالت مت پوچھیں، دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے ابھی سینہ توڑ کر باہر نکل آئے گا، میں نے اپنے محبوب لیڈر کو پہلے صرف تصویروں میں دیکھا تھا۔ اس وقت وہ میرے سامنے جیتے جاگتے موجود تھے۔ انہوں نے مجھے اشارے سے قریب بلایا اور میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر چچا کی طرف دیکھا۔ چچا نے میرے بارے میں بتایا کہ ’’میرا لاڈلا بھتیجا اور آپ کا عاشق ہے، اسے میں نے ڈھائی سال کی عمر سے گود لے کر پالا ہے، اس کی رگوں میں پاکستان اور اس سے محبّت لہو بن کر دوڑ رہی ہے، یہ پاکستان کا مستقبل ہے، اس نے آپ سے ملنے کی ضد کی تھی، اس لیے ساتھ لانا پڑا۔‘‘ میں اس ساری گفتگو میں قائد اعظم کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا، پھر جیسے ہی انہوں نے میری طرف دیکھا، میں نے ادب سے سر جھکالیا۔ میری اس محبت بھری ادا پر وہ دیر تک مسکراتے رہے، اور میرا جو حال تھا،مت پوچھیں، ایک سنسنی سی جسم میں لہر بن کر دوڑ رہی تھی۔ قائداعظم دوسرے افراد سے باتیں کررہے تھے، اگرچہ میں ان کی باتیں سمجھ نہیں رہا تھا، لیکن اپنی آنکھوں میں ان کی تصویر اتارتا رہا۔ ملاقات ختم ہوئی، تو سب آداب بجا لاتے ہوئے رخصت ہوگئے۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد 14اگست کو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوگیا، اس روز رمضان کی ستائیس تاریخ تھی اور میں نے پہلا روزہ رکھا تھا، میری روزہ کشائی بھی دھوم دھام سے ہونا تھی، مگر کسی نےآکر اطلاع دی کہ ایک ہندو کانگریسی لیڈر ہمارے گھر پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے، تو روزہ کشائی سادگی سے کرنا پڑی۔ عشاء کے بعد ہندوئوں نے حملہ کردیا۔ مسلم لیگ کے نیشنل گارڈز کو اطلاع مل گئی تھی، وہ موقعے پر پہنچ گئے اور حملہ آوروں کو پسپا کردیا، اسی شب میرے چچا اور چچی بھراپرا گھر جوں کا توں چھوڑ کرپہلے خورجہ پھر اللہ آبادسےہوتے ہوئے بمبئی پہنچ گئے۔ جہاں سے بذریعہ بحری جہاز کراچی کا رخ کیا اور اپنے پیارے وطن، پاکستان بخیریت پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ فرید نگر سے روانہ ہوتے وقت میرے چچا نے کسی آدمی کے ذریعے میرے حقیقی والدین کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ وہ مجھے یعنی عقیل کو بھی پاکستان لے کر جارہے ہیں، قسمت اور حالات نے ساتھ دیا تو زندگی میں کبھی ملاقات ہوجائے گی۔ ڈھائی سال کی عمر میں، جب سے مَیں اپنے چچا کے پاس آیا تھا، میری والدین سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان آنے کے بعد بارہ سال کی عمر میں اپنی دادی اور والدین سے ملاقات ہوئی۔ میرے چچا، پاکستان آنے کے بعد ضلع سانگھڑ کے شہر، سنجھورو کے بلدیاتی اداروں کے پچیس سال تک سربراہ رہے۔ پاکستان سے محبت ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی، یہی حال میرا تھا اور اب بھی ہے۔ قومی تہوار کے موقعے پر قائد اعظم سے پیار رگوں میں لہو بن کر دوڑنے لگتا ہے۔ اللہ، ہمارے پاکستان کو ہمیشہ سلامت رکھے اور قائد اعظم کے بنائے اصولوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
(عقیل احمد خان، کراچی)