• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
المیہ

طارق بلوچ صحرائی، لاہور

برکھا رُت جوبن پر تھی۔پانی کی ننھی شفّاف بوندوں نے ہر شے اُجلی کردی تھی۔اگرچہ خوابوں کے آتش دان میں کئی تعبیریں سُلگ رہی تھیں ،مگر اُس کی آنکھوں کے طاق میں کئی دیئے روشن تھے۔ اُس کے اور فطرت کے کئی دُکھ مشترک تھے۔اُس کی ماں کہتی تھی، مشترک دُکھ کا نام محبّت ہوتاہےاور اُس کے اندر ایک عجیب دُکھ تھا۔ ایک اَن جانا سا خوف ،کہیں تتلی کو مکڑی کے جالوں میں نہ رہنا پڑ جائے۔ کبھی محسوس ہوتا کہ جیسے وہ ریت کی دیوار ہے،جسےہر وقت آندھیوں کا ڈررہتا ہے یاپھر بیری والا وہ آنگن ، جسے ہر لمحہ پتھروں کا خوف درپیش ہو۔ ’’تمھارا المیہ کیا ہے؟ تم ہر وقت کیا سوچتے رہتے ہو؟ عام لوگوں کی طرح زندگی کیوں نہیں گزارتے، یہ کیا کہ ہر وقت کسی شاعر اور فلسفی کی طرح حیات و کائنات کی گُھتیاں سُلجھانے میں مگن ہو، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور تم ایک لیکچرار بن کر خوش اور مطمئن بیٹھے ہو۔‘‘ یہ وہ الفاظ تھے،جو اُسے بڑے بھائیوں اور والد سے قریباًروز سُننے پڑتے تھے۔ کبھی کبھی اُسے لگتا ،یہ الفاظ نہیں، گرم گرم کھولتا ہوا سیسہ ہے، جو اُس کے کانوں میں انڈیلا جا رہا ہے،مگر وہ بڑی خُوب صُورتی سے مُسکرا کراپنے آنسو پی جاتا۔ہاں البتہ ماں کی ذرا سی تسلّی سے اُس کا ضبط ٹوٹ جاتا ۔ماں کی گود میں سَر رکھتے ہی آنسوئوں کے یہ سارے موتی وہ ماں کی جھولی میں ڈال دیتا۔ تب ماں اُسے حوصلہ دیتی ،دُعائوں کے پھول نچھاور کرتی اور اُس سے نظر بچا کر اپنے دوپٹے میں اپنےہی آنسوجذب کرتی جاتی۔ پھر کچھ ہی دیر بعد وہ اپنا دُکھ بھول کر مطالعے میں غرق ہو جاتا ۔

اُس دِن سُرخ آندھی چلی تھی، صحن گرد سے اٹا پڑا تھا۔ وہ اپنے گھر کے کچّے آنگن میں بیٹھا سوچ رہا تھا، یہ مائیں بھی کیسی دوغلی ہوتی ہیں۔ بچپن میں مٹّی کھانے سے منع کرتی ہیں، مٹّی میں کھیلنے سے خفا ہوجاتی ہیں۔ ہاتھوں کو مٹّی لگ جائے، تو رگڑ رگڑ کر دُھلا دیتی ہیں، آندھیوں کے ٹل جانے کی دُعائیں مانگتی ہیں،بچّوں کے پائوں پر کیچڑ لگ جائے، تو بڑبڑاتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے دھوتی ہیں، لیکن خود یہی مٹّی اوڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو جاتی ہیں۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ اُن کے بچّے تو دُعائوں کی بیساکھیوں کے بغیر چند قدم بھی نہیں چل سکتے۔ اور ہجر کے بوجھ سے اُن کی سانسیں پھولنے لگتی ہیں۔پھر ایک روز اُس کی ماں نے بھی مٹّی اوڑھ لی۔وہ ہر روز ماں کی لحد پہ جاتا، گُم صُم گھنٹوں قبر پہ بیٹھا رہتا اور سسکتے ہوئے ماں سے باتیں کرتا۔

آج ماں کی پہلی برسی تھی۔ گہری شام، رات میں چُھپ رہی تھی۔ جب اُس کے باپ نے اُس کے سَر پر ہاتھ رکھا، تو وہ اس کے سینے سے لگ کر بہت رویا ۔اُس دِن تو اُس کا باپ بھی پہلی بار بلک بلک کر رویا تھا۔ وہ دونوں خاموش بیٹھے دیر تلک روتے رہے۔ پھر اُس نے باپ کا ہاتھ تھاما اور اُس کی سُوجی ہوئی سُرخ آنکھوں کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے بولا ،’’بابا! آج نہیں پوچھو گے، میرے ساتھ المیہ کیا ہے؟ تم کیا سوچتے رہتے ہو؟ تم دوسرے لوگوں کی طرح زندگی کیوں نہیں گزارتے، دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی ہے۔‘‘ ’’نہیں …۔‘‘باپ نے انکار میں سَر ہلایا اور اپنے آنسو پونچھنے لگ گیا ۔پھر یک دَم بولا’’جانتے ہو کیوں نہیں پوچھوں گا؟گھر میں کسی ایک کو تو چُپ رہنا چاہیے،کسی کو تو اپنا کندھا دوسروں کے رونے کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔ پہلے ہم سب تم سے لڑتے تھے، بحث کرتے تھے اور تمھاری ماں خاموش رہتی تھی۔ اب تمھاری ماں ایسے دیس چلی گئی ،جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ جہاں واپس نہ آنے کی شرط پر جا کر ملنا پڑتا ہے۔عاصم بیٹا! اب مجھے خاموش رہنا ہوگا۔ اب مجھے اپنا کندھا سب کو رونے کے لیے پیش کرنا ہوگا۔ تیری ماں کہا کرتی تھی، زندگی ،مُسکراہٹ سے غموں کا چلہ کاٹنے کا فن ہے۔‘‘’’بابا! مَیں نے ایک دِن ماں سے پوچھا تھا، ماں !تم نے کبھی مجھ سے سب کی طرح سوال نہیں کیے؟ماں نے اپنے پلو سے آنکھوں کے کونوں میں چُھپے گونگے آنسوئوں کو چُھوا اور بولی، پُتّر! ماں کو پوچھنا نہیں پڑتا، مامتا تو نام ہی آگہی اور دُعا کا ہے۔اس کے بعد ماں کافی دیر تلک کسی گہری سوچ میں ڈوبی رہی۔پھر بولی، عاصم پُتّر!تمھارے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے۔ تمھارا زمانہ ہجرت کرگیا ہے۔ پُتّر! تمھیں کس نے کہا تھا، شام کی پہیلی بوجھو؟ شام کی پہیلی بوجھنے کے لیے رات ہونا پڑتا ہے۔ رات کی لوری کو روح میں اُتارنا پڑتا ہے۔رات کے پاس بڑے راز ہوتے ہیں۔ رات کا ایک سورج بھی ہوتا ہے، جو صرف گداز دِلوں کے اندر ہی چمکتا ہے۔ گداز دِل اللہ کے ہاں بڑا مقام رکھتا ہے۔پُتّر! مَیں نے واقعہ معراج النبیؐ سے ایک سبق یہ بھی سیکھا ہے کہ ربِ عالم تک رسائی کے لیے رات کی سواری ضروری ہے۔ رات کی اپنی آنکھیں ہوتی ہیں،جو تاریکی میں بھی بہت کچھ خرید لاتی ہیں۔ دِن کے پُجاری تو اپنی تمام عُمرونڈو شاپنگ کرتے کرتے گزار دیتے ہیں۔ رات کے صحرا کا مسافر، پیاس پی کر بھی سیراب ہو جایا کرتا ہے۔رات کے دروازے پر دستک نہیں دیا کرتے،بس اپنی خاموشیاں اُس کی دہلیز پر چھوڑ آیا کرتے ہیں۔ کچھ ہی دنوں بعد وہ اپنا دَر کھول دیتی ہے۔ رات کے پاس سمندر جیسا ظرف ہوتا ہے۔ وہی وسعت، وہی خاموشی اور وہی گہرائی۔ پُتّر !دِلوں کا اندھا اور گونگا پن ایک جگہ ہونا،بڑا ہی سخت عذاب ہے۔‘‘باپ نے اُسے دلاسا دینا چاہا، تو وہ تڑپ کر بولا،’’بابا! آج مجھے جی بَھر کر بولنے دو، رو لینے دو۔ ماں کہتی تھی،زندگی یاد ہی کا دوسرا نام ہے، جو یاد میں ہے، صرف وہی زندہ ہے، باقی سب تو لاشیں ہیں۔ بابا! کبھی کبھی سوچتا ہوں، جیسے مَیں تھل کا باسی ہوں، جسے ’’جھڑی‘‘ بڑی مشکل ہی سے ملتی ہے۔ آپ سوچتے تو ہوں گے، بچپن میں، مَیں بڑے آدمیوں جیسا لگتا تھا اور اب بڑا ہو کر بچّوں کی طرح ہو گیا ہوں۔ یہی سوال ایک دِن میَں نے ماں سے بھی کیا تھا، وہ مُسکراتے ہوئے بولی تھی، ’’عاصم پُتّر! اس لیے کہ تجھے آخری سوال کا پہلا جواب معلوم ہے۔میرےلال! خوش قسمت ہو، وگرنہ ہمارے دَور کا بچّہ بھی جنم جنم سے بوڑھا ہے۔ وہ کھلونے نہیں مانگتا، وہ لوری سے نہیں بہلتا، اُسے روٹی کی فکر ہے۔جہاں جلّاد کی ملازمت کے لیے لاکھوں اُمیدوار ہوں، اُس معاشرے میں تیرے جیسے پھولوں، پودوں، جگنوئوں پرندوں اور تتلیوں سے محبّت کرنے والے وجود کا ہونا ایک نعمت سے کم نہیں۔عاصم!اللہ پاک اور واحد ہے اور تم اللہ کے نمائندے ہو۔ اپنے کردار کو پاک بنائو اور دوسروں کی اکائی کو تسلیم کرو۔ دوسروں کو تقسیم نہ کرو۔دُعا اُس وقت تک قبول نہ ہوگی، جب تک اُن کے ہاتھ نیچے نہ کروائو گے، جنھوں نے تمھارے ظلم کے خلاف ہاتھ اُٹھائے ہوئے ہیں۔ مخلوق، رب کا کنبہ ہے، اُس کے کنبے کو دُکھ دے کر کوئی سُکھ نہیں پا سکتا۔ یہ انسان بھی عجیب ہے، کھیتوں میں سَر بوتا ہے، نفرت کی کھاد ڈالتا ہے۔ جب زمین لہو اُگلتی ہے، تو آسمان والے سے شکوہ کرنے لگ جاتا ہے۔‘‘اُس نے ماں کی قبر کی طرف دیکھا اور باپ کی سُوجی ہوئی آنکھوں میں جھانکا اور پھر بولا،’’ بابا! میرے لیے دُعا کرو، مجھے صبر آجائے۔ کاش! ماں جاتے جاتے یہ بھی بتا دیتی کہ ہجر کو کیسے سہا جاتا ہے۔‘‘’’بابا! مَیں نے ایک دِن ماں سے پوچھا تھا، اللہ کی عطا کا فارمولا کیا ہے۔ وہ بولی، یقین اور ظرف۔یاد رکھنا،مانگنے والے کا عطا کرنے والے پر جتنا یقین ہوگا ،اُسی قدر عطا ہو گا۔ اللہ بندے کو ضرورت کے مطابق نہیں،بلکہ ظرف کے مطابق دیتا ہے۔ اور ظرف ہمیشہ معاف کر دینے سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اللہ جس پر مہربان ہوتا ہے، اُسےعشقِ نبیﷺکی دولت و سعادت عطا ہوجاتی ہے۔ پھر کہنے لگی، آئو تمھیں ایک کہانی سُناتی ہوں۔ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ کل صُبح محل کا دروازہ سب کے لیےکھول دیا جائے گا اور جو شخص محل کی جس چیز کو ہاتھ لگائے گا، وہ اُس کی ہو جائے گی۔ دوسرے دِن، ایک خلقت محل میں داخل ہوئی اور اپنی اپنی پسندیدہ اور قیمتی چیز کو ہاتھ لگا کر اُس کی مالک بن بیٹھی۔ اُس خلقت میں ایک دانا شخص بھی تھا، اُس نے بادشاہ کو ہاتھ لگا دیا۔ بادشاہ حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔ وہ شخص بولا، ’’بادشاہ سلامت! جس کے آپ ہو گئے، یہ سلطنت اُسی کی ہوگئی۔‘‘ توعاصم پُتّر! کوشش کرنا رات کے محل میں جب شہنشاہوں کا شہنشاہ یہ اعلان کرے، تو تم شہنشاہوں کے شہنشاہ کو چُن لینا۔بابا! ماں ہمیں اتنی جلدی کیوں چھوڑ گئی۔ اُس کی عُمر کے شجر کو کونسی دیمک کھا گئی؟‘‘باپ نے اُسے گلے سے لگالیا، پھر اُس کے بالوں میں اُنگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے بولا، ’’بیٹا! وہ ایک عظیم عورت تھی۔ اُس کا ایک دُکھ تھا، جو ہم نے آج تک کسی کو نہیں بتایا۔ اُس وقت ہم دوسرے گائوں میں رہا کرتے تھے۔ تمھارا ایک اور سب سے بڑا بھائی بھی تھا، اُسے پھولوں، پرندوں، جگنوئوں، تتلیوں سے پیار تھا۔ وہ ابھی چھے سال کا تھا کہ ایک صُبح، تتلی پکڑتے پکڑتے چھت سے نیچے گر گیا اور تمھاری ماں کے ہاتھوں ہی میں دَم توڑ گیا۔ جب اُسے نہلایا گیا، تو وہی تتلی اُس کی مُٹھی میں بند تھی۔ اس کے بعد سے تیری ماں، تتلی دیکھ کر رونے لگتی تھی، مگر آج تک اُس نے تمھیں پھولوں، پودوں، جگنوئوں، پرندوں اور تتلیوں سے محبّت کرنے سے نہیں روکا۔ وہ ہر صبح اُٹھ کر پرندوں کو چوگا ڈالتی تھی، وہ سمجھتی تھی، پرندوں کو دانہ ڈالنے سے بچھڑ جانے والے لوٹ آیا کرتے ہیں، مگر آج تک اُس کا لخت جگر واپس نہ پلٹ سکا، بلکہ اُس کو بیٹے سے ملنے خود ہی اُس کے پاس جانا پڑا۔‘‘باپ کا سینہ ہنڈیا کی طرح کھولنے لگا تھا۔عاصم اُٹھا ،اُس نے باپ کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ اُس کے آنسو پونچھتے ہوئے خود بھی رو پڑا اور بولا، بابا! مَیں دریا پہ جارہا ہوں، مجھے سورج کے غروب ہونے کا منظر بڑا بھلا لگتا ہے۔ بابا! آپ کو پتا ہے، میرا المیہ کیا ہے؟بابا مجھے پودوں، پھولوں، پرندوں، جگنوئوں، تتلیوں اور مظاہرِ فطرت سے عشق ہے، مگر میرے دَور کے نوجوان، زندگی میں رنگ، دھنک سے لے کر نہیں، بلکہ دوسروں کے خون سے بَھرتے ہیں، یہاں زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے لہو کی ندیاں بہہ اُٹھتی ہیں۔یہاں تک کہ میرے دَور کے بچّے بھی بارود سے کم کسی چیز سے بہلتے نہیں۔ بابا مجھے فاختہ کی سسکیاں سونے نہیں دیتیں۔‘‘

وہ بہت دُور جا چکا تھا، ورنہ باپ کی سسکیاں سُن کر لوٹ آتا۔

تازہ ترین
تازہ ترین