• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ
(بائیسویں قسط)
شہر سدوم کاحدود اربعہ
شہرسدوم بحیرہ میت کے جنوب میں آباد تھا ۔ اس کے قریب عامورہ نامی ایک بڑاشہرتھا، اس علاقے کو کتب سابقہ میں موآب بھی کہاگیا ہے جبکہ تلمود کے مطابق سدوم اور عمورہ Sodom and Gomorrahکے علاوہ اس علاقے میں اور بھی چار بڑے شہرتھے۔ انہی میں سے ایک شہر’’ ضُغر یا ضوغر‘‘تھا۔جہاں حضرت لوط علیہ السلام بعد میں قیام پذیر رہے ۔بائبل میں اس قوم کا صدرمقام ’’سدوم‘‘ بتایاگیا ہے۔ قرآن نے الموتفکۃ بالخاطئۃ( عذاب کے باعث الٹادیے گئے شہر) کہا ہے ۔ بحیرہ مردار کے جنوبی کنارے پر جہاں ضُغر واقع تھا وہاں آجکل غور الصافی نامی قصبہ آبادہے ۔اس سے تقریباً30کلو میٹر مشرق میں الکرک واقع ہے ۔جو صلیبی جنگوں کے زمانے میں سلطان صلاح الدین ایوبی کاایک مضبوط قلعہ تھا۔بحر میت کے مغرب میں فلسطین کا مغربی کنارا اورمشرق میں اردن واقع ہے ۔اس جگہ سے بیت المقدس اٹھارہ بیس میل سے زیادہ نہیں ہے ۔قرآن کریم کی زبان میں یہ علاقہ اس’’ سبیل مقیم‘‘ عام شاہرہ، جانی پہچانی اور مستعمل گزرپرتھاجہاں سے اہل مکہ اپنے تجارتی قافلے لے کرگزرتے تھے ۔تفسیر طبری میں ہے( وقد کانت قریش تمر سدوم والبحر المیت فی طریقھا للتجارۃ الی الشام فھی ظاہرۃ واضحۃ ولھذا قال سبحانہ وتعالیٰ {وانکم لتمرون علیھم مصبحین وباللیل افلا تعقلون} ۔حضرت قتادۃ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’نعم واللہ صباحا ومساء یطئونھا وطئا من اخذ من المدینۃ الی الشام اخذ علی سدوم قریۃ قوم لوط (الطبری21/105))العربیہ ڈاٹ کم… نیٹ کے مطابق امریکی ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیمPopular Archaeologyنے پروفیسرکولینزکی قیادت میں کئی سال جنوبی اردن کے کھنڈرات میں تحقیق کی28ستمبر کو تحقیقی ٹیم کے سربراہ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ سدوم نامی شہرتک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ اس خبر کو بڑے پیمانے پر عربی اور مغربی ذرائع میں پذیرائی حاصل ہوئی ۔ ماہرین نے بتایا کہ تباہ شدہ شہر کے کھنڈرات سے پتا چلتا اورکئی قدیم عمارتوں کی موجودگی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک وسیع و عریض شہرتھا۔ غالبا یہ شہر 3500سال پہلے برونز دور حکومت میں تباہی سے دوچار ہوا جو جنوبی وادی اردن تک کے علاقے تک پھیلا ہوا تھا ۔تاہم برونزی سلطنت کے علاقوں کے موجودہ نقشوں میں اس شہر کا کوئی وجود نہیں ہے ۔محققین کاکہنا ہے کہ یہ شہر دوحصوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے ۔ ایک بالائی اور دوسرا زیریں حصہ ہے۔ شہر کے گرد مٹی کی اینٹوں کی10میٹر اونچی اور 5,2میٹر چوڑی دیوار بھی دریافت ہوئی ہے ۔ شہر کے دروازوں کی باقیات بھی ملی ہیں ۔ ایسے لگتا ہے کہ جب یہ شہر تباہ ہواتو اس وقت بھی لوگ روزمرہ کے معمولات میں مشغول تھے ۔یعنی زندگی اچانک ہی ختم ہوگئی تھی ۔اس شہر کی تباہی کے سبب جو خلا پیدا ہوا تھا ۔وہاں پانی اوپر آگیااسی وجہ سے یہ علاقہ عام سمندرکی سطح سے1300فٹ گہراہے ۔دنیا کا سب سے نیچے والا منفرد علاقہ اورسمندری جھیل بن گیا ۔اس دریاکی گہرائی تیرہ سو فٹ ہے، لمبائی 50میل اور چوڑائی گیارہ میل ہے۔اس بحر میت کااردگردکے کسی سمندردریاسے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس کے قریب ترین سمندر بحیرہ روم ہے ، خلیج عقبہ اردن سے ملتی ہے، لیکن بحرلوط سے ساڑھے تین سو کلومیٹرکافاصلہ ہے ۔اور1300فٹ اونچا ہے ۔ بحیرہ احمر بھی یہاں سے کافی دور اور اس سے کم ازکم 1300فٹ اونچا ہے ۔یوں یہ سمندر سمندر کم اورتین سو اکیاون مربع میل لمبی جھیل زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ ڈیڈ سی دنیا کا واحد سمندر ہے جس میں کوئی حیات نہیں پائی جاتی ۔اس میں مچھلی ہے نہ کوئی پودا حتیٰ کہ اس میں کائی بھی نہیں اگتی ۔ اس کے پانی میں موج بھی پیدا نہیں ہوتی ۔اس میں کشتی ،موٹر بوٹ اور بحری جہاز نہیں چل سکتے کیونکہ اس میں نمکیات کی مقدار23سے25فیصد ہے عام سمندرمیں یہ مقدار چار سے چھ فیصد ہوتی ہے ۔چنانچہ بھاری نمکیات کی وجہ سے بحرمیت میں زندگی ممکن ہے اور نہ کشتی رانی ۔سمندرکاپانی بخارات بن کر اڑتارہتاہے جس کی وجہ سے فضا میں خوابناک سی دھندچھائی رہتی ہے پوری دنیا سے لوگ قدرت کے اس عجوبے کو دیکھنے آتے ہیں بحرمیت کی مٹی اور پانی کو جلد کیلئے شافی سمجھا جاتاہے ۔اردن کی کئی کمپنیاں بحر میت کی نمکیات سے جلد کی مصنوعات بناتی ہیں ۔ ان میں ڈیڈ سی مڈ ماسک ‘‘زیادہ مشہور ہے۔
بحر میت جائے عبرت ہے تماشانہیں…
خاکسار جب راستے میں احباب کو اس علاقے کے بارے میں انفارمیشن دے رہا تھاتو سوال ہوا کہ کیااس عذاب والے علاقے کاوزٹ جائز ہے ؟ یہ بہت قدیمی سوال تھا کیونکہ جب ہم مدینہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھے تو مدائن صالح کی طرف ہمارے لیے ٹرپ کا اہتمام کیا گیاتھا۔ ہماری کلاس میں مصری نوجوان بھی تھے ، بڑے متدین اورنیک لیکن انہوں نے وہاں جانے سے انکار کردیا تھا ۔پھر ہم نے تحقیق کی کہ کیاان عذاب شدہ علاقوں میں جانا چاہیئے یا نہیں ۔ کچھ کا موقف تھا کہ نہیں جانا چاہئے کیونکہ تبوک کو جاتے ہوئے مدائن صالح سے گزرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے تیزی کیساتھ گزرنے کی ہدایت فرمائی تھی اوروہاں ٹھہرنے سے منع فرمایا تھا ۔اس کا جواب علماء نے یوں دیاکہ مشغلے کے طور پر تو واقعی بندے کو اتنی دلیری نہیں دکھانی چاہیئے لیکن بطورعبرت کے یہ سفر جائز ہے ۔ انسان مستحضررکھے کہ یہ قومیں کیوں تباہ کی گئی ہیں ۔ایسے اعمال سے انسان توبہ کرے اور ڈرتے ہوئے جائے ۔کیونکہ عبرت کاسفراللہ تعالیٰ نے ممنوع نہیں فرمایا {قل سیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المفسدین } ان سے کہو وہ زمین میں چل پھر کر متکبرین کاانجام دیکھیں ۔ قوم لوط کی تباہی کے علاقے سے گزرتے ہوئے بھی یہ لوگ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ اسی لیے فرمایا{ افلا تعقلون} اب بھی نہیں سوچتے ۔ الشیخ فہد باھمام الدلیل الفقہی میں کہتے ہیں ’’ینبغی للزائر البحر المیت الاعتبار و تذکر قصہ قوم لوط علیہ السلام وعذاب اللہ لمن عصاہ واللہ عز وجل یقول بعد ذکر مرور الناس بھا افلا تعقلون ۔ای افلا یدلکم عقلکم بعد رویۃ مواطن عذابھم الی الاعتبار بحالھم و مفارقۃ المعاصی ولھذا قال بعد ذکر عذاب اللہ لقوم لوط والخسف بھم و رمیھم بالسجیل{ مسومۃ عندربک وما ھی من الظالمین ببعید }کہ یہ علاقہ ان لوگوں سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے ۔قوم لوط کی شاہرہ سے گزرنے والوں کو عبرت حاصل کرنے کا تو حکم دیاگیا ہے لیکن کہیں بھی وہاں جانے سے روکا نہیں گیا۔اسی لیے اس علاقے کے سفر کرنے سے کسی نے منع نہیں فرمایا۔ حالانکہ یہ شاہرہ پر واقع تھا ۔رہا رسول اللہ ﷺ کا فعل تو آپ امت کے امام تھے۔ ہمیشہ ان کاموں سے بچاتے تھے جواللہ کے غضب کے مستحق بن سکتے ہوں ۔آپؐ اللہ کے عذاب سے ڈرتے تھے اور امت کو ڈراتے تھے اور ہر وقت اس کا احساس بیدار رکھنا چاہتے تھے ۔اسی وجہ سے آج یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیاان علاقوں کاوزٹ جائز ہے یا نہیں۔جیسا تیزطوفان بادو باراں سے کے وقت آپؐ کی کیفیت ہوجایاکرتی تھی۔ بہر حال عبرت و فکرحاصل کرنے کیلئے اس قسم کے مقامات کاسفرممنوع نہیں ہے ۔رب تعالیٰ کاخوف، اپنے اعمال و گناہوں کاشدت سے احساس ساتھ رہے تو اس طرح کے سفرباعث زیادتی ایمان بن جاتے ہیں ۔الشیخ باھمام نے مزید لکھا کہ ’’ بحر میت سمندر سے نکلنے والی پراڈکٹ کااستعمال بھی ممنوع نہیں ہے ۔اس کے پانی سے علاج بھی جائز ہے کیونکہ وہ تیزابی پانی ہے جس سے انسانی جلد کی کئی بیماریاں ٹھیک ہوسکتی ہیں۔کیونکہ نبی ﷺ نے بئیرناقہ کے پانی کے استعمال کی اجازت دی ہے ۔حالانکہ وہ عذاب کا علاقہ تھا ۔بہرحال ممنوع ہونے کیلئے کوئی واضح دلیل ہونی چاہیئے جو کہ موجود نہیں ہے (البحر المیت الموقع الدلیل الفقہی تحت اشراف الشیخ فہد باھمام) اسرائیل نے1967 میں اس کے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیاتھا یوں اس کا جنوب مشرقی علاقہ اردن اور مغربی علاقہ اسرائیل کے پاس ہے ۔بحرمیت کے فلسطینی اور اردنی ساحل پرسیاحوں کیلئے سے کئی ہوٹل اورقیامگاہیں بنی ہوئی تھیں جو 1973میں اسرائیلیوں نے حملے کرکے تباہ کردیں لیکن ان کے نشانات باقی ہیں ۔
…چند لمحے یہاں ٹھہر کر چند باتیں سوچناہیں …قوم لوط جن گناہوں کے سبب تباہ ہوکر جہاں والوں کیلئے نشان عبرت بن گئی ان میں سب سے نمایاں کام مردوں کے ساتھ بدفعلی (Homosexuality) کاتھا ۔ دنیا کی کسی آسمانی کتاب یا شریعت میں اس کی اجازت نہیں دی گئی ۔اسلام میں اس فعل سدومیت کے مرتکب کی سزا بعض فقہاء کے نزدیک یہی ہے کہ ایسے شخص کو بلند جگہ سے گراکر پتھروں سے ہلاک کردیاجائے، اعاذنا اللہ منہ۔کیونکہ اسی فعل بدکی وجہ سے یہاں عذاب نازل ہوا۔جہاں آج بھی اوراس کے اردگرد میں عذاب کی نحوست دکھائی دیتی ہے ۔کہاں یہ دنیا کاخوبصورت ترین اور سرسبر وشاداب علاقہ تھا لیکن اب سوائے جائے عبرت کے کچھ بھی باقی نہیں ہے ۔ برکت و رحمت کی ٹھنڈک ذرا بھی محسوس نہیں ہوتی۔لیکن افسوس آج دنیا کے مہذب ترین کہلانے والے اور سمجھے جانے والے ممالک جن میں برطانیہ ، امریکہ اوریورپ کے کئی ممالک ہیں ان کے نزدیک قانونی طور اس فعل بد (Homosexuality)کو جائز قرار دے دیا گیا ہے اور یہی لعنتی مہم انسانی آزادی کے نام سے مسلمان ممالک میں بھی حلال کرنے کیلئے بھی چلائی جارہی ہے، جو نہایت ہی شرمناک ہے ، قانون پاس کرنے والے اداروں کواللہ کے غضب سے ڈرنا چاہئے اور خاص طورپر جوخالص عیسائی، یہودی یا مسلمان اراکین پارلیمنٹ ہیں انہیں یہ ملعون قانون ختم کرانے کی جدوجہد کرنی چاہئے ۔کم ازکم اس مہم کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو ٹال دے کہ کچھ توستارے روش اورایمان کے پھول مہک دے رہے ہیں ۔بہرحال میں نے بحرمیت کے کنارے پہنچ کررفقاء سفر کواس علاقے کی تاریخ سے آگاہ کیا۔ اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نافرمانیوں سے بچائے اور عباد الصالحین میں شامل کرے۔شام تیزی سے جھپٹ رہی تھی، کسی سیاحتی پوائنٹ پر جانے کا وقت نہیں تھا۔اسی اثنا میں ایک اسرائیلی موبائل وہاں سے گزررہی تھی۔میں نے سوچا کہ یہ بھی تو مسلمانوں کیلئے عذاب ہی کی ایک نشانی ہے ۔اے ارحم الراحمین ، فلسطینیوں کے لیے ان سے نجات کا سامان پیدا فرمادے اورکشمیر وبرماروہنگیاوغیرہ کے تمام مسلمانوں کوظلم وستم سے نجات دے ان اعمال سے بچا جن کی پاداش میں پہلی قومیں تباہ ہوئیں اور اللہ کریم کا غضب ان پر حلال ہوا۔ اللھم لا تقتلنا بغضبک وعافنا قبل ذالک ۔ اے اللہ ہمیں اپنے غصے و غضب کا نشانہ نہ بنانااور اپنے غصے سے پہلے ہی معاف فرمادینا۔آمین یارب العالمین۔
تازہ ترین