پروفیسر محمد عبد اللہ
ملک میں چلنے والی دینی تحریکوں میں جمعیت علمائے اسلام کے اکابرین نے دیگر جماعتوں کے اکابرین کے ساتھ بنیادی اور اہم کردار ادا کیا ۔ قیام پا کستان کے بعد سب سے پہلی تحریک امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کی قیادت میں 1953ء میںختم نبوت کے تحفظ کے لیے چلی، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے سر کردہ علماء شریک تھے۔ اس تحریک میں خطیب اسلام، مولانا محمد اجمل خان ؒ اپنے اکابرین کے ساتھ صف اول میں تھے، اس تحریک میں خطبائے ثلاثہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ ،خطیب پا کستان مولانا قاضی احسان احمدشجا ع آبادی ؒاور خطیب اسلام مو لا نا محمد اجمل خان ؒ نے اپنی خطابت کے ذریعے عوام میں ایک نئی روح پھونک دی۔ دس ہزار لوگوں نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے لا ہور کو اپنے خون سے رنگین کر دیا۔ 53ء کی تحریک ختم نبو ت جاری رہی اور بلاآخر 1974ءمیں قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔
حق و صداقت کا بیان کرنا مولانا محمد اجمل خان کا خاصہ تھا ،یہ اکابر کا ورثہ تھا، اس کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ،مقدمے بنے ،جیل اور تھانے کے مہمان بنتے رہے، لیکن شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ ، مولانا حسین احمد مدنی ؒ ،مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒاور دیگر اکابرین کے مشن کو پوری استقامت کے ساتھ جاری رکھا، دین کی حفاظت اور سربلندی کے لئے اٹھنے والی ہر تحریک میں وہ نمایاں نظر آئے۔ آپ نے دینی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سردھڑ کی بازی لگادی، خواہ اس کے لیے کتنے ہی بڑے امتحان اور صبرو آزمائش کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ 1953ءاور 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ ؒ نے اہم کردار اداکیا ،ان مقدس تحریکوں میں ہزاروں علماء و مشائخ نے لاکھوں عوام کے شانہ بشانہ ہمہ قسم کے مصائب و آلام کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عشقِ رسولﷺ میں سردھڑ کی بازی لگا دی اور دین اسلام،ناموس مصطفی ﷺ پرحرف نہ آنے دیا۔ مولانا محمدا جمل خان ؒ ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کی خاطر صبح و شام مصروف عمل رہے ۔ کراچی سے خیبر تک اپنے اکابر ؒکے ساتھ عوام کے جم غفیر میں منکرین ختم نبوت کو للکارتے ہوئے نظر آئے اور فر ماتے عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کی اساس اور بنیاد ہے، اس کے بغیر ایمان نامکمل ہے ۔
آپ ؒ بیک وقت عالم بھی تھے اور معلم بھی ،محقق بھی تھے اور مصنف بھی ،فقیہ نکتہ رس بھی تھے اورواعظ شیریں بیان بھی ، خطیب شعلہ بیاںبھی ، عابد شب زندہ دار بھی تھے اور سالک عبادت گزار بھی ،سیاست کے سرخیل ومدبر بھی،ولی وقت بھی تھے اور امت کا سر مایہ بھی ۔نصف صدی سے زائد عرصہ ہر میدان میں دین کی خدمت کی اور امت کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دیا ۔آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کی زندگی ایک کھلی کتا ب کی طرح تھی۔
آپ ؒ کی تقریر کا ایک ایک جملہ سننے والو ں کے قلوب میں جا کر اثرکر تا اور انقلاب کا ذریعہ بنتا ۔ایبٹ روڈگراؤنڈ اور جامع مسجد رحمانیہ کے درودیوار آج بھی گواہ ہیں کہ حضرت خطیب اسلام ؒ نے اپنی خطابت کے ذریعے ہزاروں لو گو ں کے مر دہ دلو ں کو حیات بخشی اور بجھے ہو ئے دلوں کو روشن کیا۔
مو لانا محمد اجمل خان ؒ نے مولانا احمد علی لاہوریؒ کی رفاقت میں جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز فرمایا، مفکر اسلام مولانا مفتی محمود ؒ کے نائب رہے ، مفتی صاحب ؒ جب ملک سے باہر جاتے تو آپ ہی قائم مقام سیکرٹری جنرل ہوتے حافظ القرآن والحدیث مولانامحمد عبداللہ درخواستی ؒ کے دورمیں آپ ؒ بطو ر سینئر نائب امیر رہے اور حضرت در خواستی ؒ کی علالت کی وجہ سے طویل عرصہ تک قائم مقام امیر کے فرائض انجام دیئے ۔
دیگر تحریکوں کی طرح تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
ایک بار آپ نے فر ما یا کہ آپﷺ کی ختم نبوت کی دلیل آپ علیہ الصلو ۃ والسلا م کا حسن وجمال ہے، کیوں کہ تما م مخلو قات میں سب سے زیادہ حسین انبیائے کرام علیہم السلام ہو تے ہیں لیکن انبیائےکرام علیہم الصلوٰۃ والسلا م میں سب سے زیادہ حسین بلکہ احسن واجمل سیدنا محمدﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپ پرپروردگار نے حسن و جما ل کی انتہا کر کے بتا دیا کہ اب میرے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کو ئی نبی نہیں ، جیسے میر ے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر حسن وجما ل ختم ہے، ایسے ہی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نبو ت ختم ہے، ایک بار جلسے سے خطاب کر تے ہو ئے فرما یا لو گو ،نبی کی نشانی یہ ہے کہ فرش پر اس کا کو ئی استا د نہیں ہو تا وہ فر ش پر کسی سے نہیں پڑ ھتا، بلکہ عر ش والے سے پڑ ھتا ہے۔ (الرحمٰن علم القر آن) اور مرزاقادیانی سے پو چھو کہ اس نے اسکو ل پڑ ھا ہے یا نہیں ؟یہ دلیل ہے اس کے جھو ٹے ہو نے کی اس نے زمین والو ں سے پڑ ھا ہے اور زمین والوں سے پڑ ھنے والا نبی نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے رسو ل اللہ ﷺ کوختم نبو ت اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰ ۃ والسلا م کی امامت کا شرف بخشا ،تا ج شفاعت عطا فر ما یا ،لوائے حمد سے نوازا ،حو ض ِکو ثر جیسی نعمت بخشی ،امت کے لیے مغفر ت کے وعد ے فر ما ئے ہیں۔یہ امام الانبیاء سید المرسلین خاتم النبیین،حضرت محمد ﷺ کی عظمت اور ختم نبوت کی روشن نشانیاں ہیں۔
ایک موقع پر آپ نے فر ما یا،قر آن مجید نے میرے نبی سید نا محمد رسول اللہﷺ کو سر ا جاً منیراکہا ہے، سراج عر بی زبا ن میں سو رج کو کہتے ہیں۔قر آن مجید نے دو سرے مقام پر’’ سر اجاً وھا جا‘‘ کے الفا ظ بھی استعمال کیے ہیں، ایک آسما نی سورج ہے ،ایک رو حا نی سو رج ہے اور یہ آسما نی سورج بھی ،رو حا نی سو رج کے طفیل ہے ،اب آسمانی سو رج کے طلوع ہو نے کے بعد جیسے کسی روشنی کی ضرو رت نہیں، ایسے ہی اس رو حانی سورج کے بعد بھی کسی نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
ایک با ر فر ما یا لو گ اعتر اض کر تے ہیںکہ عقیدہ ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والے نما ز بھی ہما ری طر ح پڑ ھتے ہیں ،روزے بھی رکھتے ہیں ،ان کا رہن سہن اور دیگر عبا دا ت بھی ہما ری طر ح ہے تو فر ق کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مر زائی لاکھ نماز پڑھیں ،رو زے رکھیں ،عبا دا ت کر یں ،پوری رات میں دو رکعت میں روزانہ ایک قر آن مجید کی تلا و ت کر یں، ان کی عبا دت قبو ل نہیں وجہ یہ ہے کہ وہ حضو راکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی نہیں ما نتے، لہٰذا عبادت وہ قبو ل ہے جس پر حضور ﷺ کی ختم نبو ت کی مہر لگی ہو ۔
ایک اجتماع میں ختم نبوت کے حوالے سے ایک عجیب نکتہ بیان کرتے ہوئے فر ما یا ۔آپ کے نام پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ختم نبو ت کا نکتہ موجو د ہے، آپﷺ کا نا م نامی اسم گر امی محمدﷺ حمد سے بنا ہے اور حمد ہمیشہ نعمت کے پورا ہو جا نے پر ہو تی ہے ۔
کسی پیغمبر کے نا م میں حمدکا صیغہ نہیں ہے ، لیکن جیسے ہی آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجنے کی باری آئی تو نام ایسا رکھوا دیا جس میں حمدموجو د ہے، محمدﷺ،کیو ں؟تا کہ دنیا جان لے نبو ت کی جس نعمت کا آغاز حضر ت آدم ؑ سے ہو ا تھا، اس کی تکمیل اب حضر ت محمدﷺ پر ہو چکی ہے ۔ خطیب اسلا م مولانا محمد اجمل خانؒ کی خطابت کی ایک خاص بات جو سب نے تسلیم کی کہ آپؒ نے حق با ت کہنے میں کسی کی پر وا نہیں کی، جو با ت حق نظر آئی، وہ اپنی خلو ت میں بھی کہی اور جلوت میں بھی کہی،حضر ت خطیبِ اسلا م ؒوہ کہہ گئے جو ان کے منصب کا حق تھااور صرف کہا ہی نہیں بلکہ اپنے منصب خطا بت کا حق ادا کیا، ملک میں جب نظام مصطفیٰ کے نفا ذ اور مقام مصطفےؐکےلیے تحریکات چلیں،توآپ ؒصف اول میں نظر آئے۔
1953کی تحر یک ختم نبوت سے لے کر اپنی وفات تک ملک میں چلنے والی تمام تحر یکات میں آپ نے اکا بر ین کے سا تھ نما یا ں کر دار ادا کیا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اکابرین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عقیدہ ٔ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کریں کہ یہ ایمان کالازمی تقاضا، دین کی اساس اور بنیاد ہے۔