• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدیقہ بنتِ صدیق ؓ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا

مفتی سیف اﷲسعیدی

 ایک مسلمان عورت کے لئے سیرتِ عائشہ ؓمیں ہر موقع اور ہر حالت کے لئے لائق تقلید نمونہ موجو دہے۔ اس لئے سیرت عائشہ ؓ ایک رول ماڈل ہے جس میں صاف طور پر یہ نظر آئے گا کہ ایک مسلمان عورت کی زندگی کی حقیقی تصویر کیاہے ۔

آپ زوجۂ رسول ؐ اور ام المومنین کے شرف سے فیض یاب ہوئیں،شوال یکم ہجری میںرخصتی ہوئی۔18سال کی عمر میں یعنی ربیع الاول گیارہ ہجری میں آپ کے شوہر نامدار سرکار دوجہاں ﷺ کا وصال ہوا۔

غیرمعمولی اشخاص بچپن ہی سے اپنی حرکات وسکنات اور نشونمامیں ممتازہوتے ہیں ۔حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓبھی اسی قسم کے لوگوں میں سے ایک تھیں ،بچپن ہی میں ان کے ہرانداز سے سعادت اور بلندی کے آثار نمایاں تھے ،ایک مرتبہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ گڑیوں سے کھیل رہی تھیں کہ رسول اﷲﷺپہنچ گئے ۔گڑیوں میں ایک گھوڑابھی تھا جس کے دائیں بائیں پر لگے ہوئے تھے۔آپ ﷺنے استفسار فرمایاعائشہ!یہ کیاہے ؟جواب دیا کہ یہ گھوڑاہے۔ آپ ﷺنے پھر فرمایاگھوڑوں کے پرَنہیں ہوتے ؟انہوں نے برجستہ کہاکیوں ؟حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے پرَ تو تھے۔آپ ﷺاس بے ساختہ پن کے جواب پر مسکرادیئے ،اس واقعے سے حضرت عائشہ صدیقہؓکی فطری حاضر جوابی کا اندازہ ہوتاہے۔

نوشت وخواند تو انسان کی ظاہری تعلیم ہے۔حقیقی تعلیم وتربیت کامعیار اس سے بدر جہابلند ہے ،انسانیت کی تکمیل، اخلاق کاتزکیہ، ضروریات دین سے واقفیت، اسرار شریعت سے آگہی، کلام الٰہی کی معرفت اوراحکام نبوی کا علم بھی اعلیٰ تعلیم ہے ۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اس تعلیم سے کامل طور پر بہرہ اندوزتھیں۔علوم دینیہ کے علاوہ تاریخ ،ادب،طب اور شاعری میں ان کویدِ طولیٰ حاصل تھا۔بیوی کاسب سے بڑا جو ہر،شوہر کی اطاعت اور فرماںبرداری ہے ۔حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے دس برس کی شب وروز کی رفاقت میں آپ ﷺکے کسی حکم کی مخالفت نہیں کی،بلکہ اندازواشارے سے بھی کوئی بات ناگوار سمجھی تو فوراًترک کردی۔ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہؓنے بڑے شوق سے حجرے میں ایک پردہ لٹکایا۔جس پر کچھ نقش و نگار تھے،آپ ﷺنے اندرآنے کاقصد کیا ، پردے پر نظر پڑی تو فوراً ناگواری کا اظہار فرمایا،حضرت عائشہ صدیقہؓیہ دیکھ کرسہم گئیں،عرض کی یارسول اﷲﷺقصور معاف، مجھ سے کیا خطا سرزدہوئی ؟آپ ﷺنے فرمایاجس گھر میں تصویر ہو،اُس گھر میں فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔یہ سن کر حضرت عائشہ ؓنے فوراًپردہ چاک کرڈالااور اسےدوسرے مصرف میں لے آئیں ۔

مدینے میںمسلمانوں کوجن مصیبتوں کاسامناکرنا پڑا ،وہ مکے سے بالکل مختلف تھیں ۔ان مصیبتوں کی سب سے افسوس ناک مثال افک یعنی حضرت عائشہؓ پر تہمت کا واقعہ ہے، رسول اللہ ﷺجب کبھی سفرپر جاتے تو ازواج مطہراتؓ میں سے جن کے نام قرعہ پڑتا، وہ ہمراہی کے شرف سے ممتاز ہوتیں۔اسی طریقےسے اس سفر میں حضرت عائشہ صدیقہؓہم رکابی میں تھیںچلتے وقت اپنی بہن اسماء ؓ کاایک ہار عاریۃًپہننے کومانگ لیاتھا، وہ ان کے گلے میں تھا، حضرت عائشہؓاپنے محمل میں سوار تھیں، ایک رات قافلے نے پڑاؤکیا۔حضرت عائشہؓ قافلے سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں ، جب واپس لوٹیں تو اتفاق سے گلے پر ہاتھ پڑگیا دیکھا تو ہار نہ تھا ،ایک تو کمسنی اور پھر کسی دوسرے کی امانت گھبراکر وہیں ڈھونڈنے لگیں ،سفر کی ناتجربہ کاری کی بنا ء پرنہ کسی کو واقعے کی اطلاع دی اور نہ کسی کو اپنے انتظار کاحکم دے کرگئیں ،ساربان حسب دستورمحمل کواونٹ پر رکھ کرقافلے کے ساتھ روانہ ہوگئے ،تھوڑی دیر میں ہار مل گیا۔ادھر قافلہ چل چکا تھا پڑاؤ پرآئیں تو یہاں سناٹا تھا۔مجبوراًچادر اُوڑھ کر وہیں بیٹھ گئیں کہ جب لوگ محمل میںنہ پائیں گے تو خود لینے آئیں گے۔ صفوان بن معطل ایک صحابی تھے، جوچھوٹے چھوٹے سپاہیوں اور فوج کی گری پڑی چیزوں کے انتظام کے لئے لشکر کے پیچھے پیچھے رہتے تھے ۔صبح جب وہ پڑاؤ پر آئے تو دور سے کچھ نظر آیا،حکم حجاب سے پہلے جو اسی سال نازل ہوچکاتھا،انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کودیکھا تھا دیکھتے ہی پہچان لیا،پاس آکر اناﷲپڑھا۔آواز سن کر حضرت عائشہؓ سوتے سے جاگ پڑیں۔صفوانؓ نے اپنا اونٹ بٹھایااور ان کو سوار کرکے اگلی منزل کاراستہ لیا۔قافلے نے دوپہر کے وقت پڑاؤکیاہی تھاکہ محمل سامنے نظر آیا۔صفوانؓ کے ہاتھ میں اونٹ کی مہارتھی اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓمحمل میں سوار تھیں،یہ نہایت ہی معمولی واقعہ تھا اور اکثر سفر میں پیش آجاتا ہے ۔منافقوں نے اسے فتنہ انگیز ی کا رنگ دے کر چند مقاصد کے پیش نظر بہت طول دیا، اب وہ وقت تھاکہ عالم غیب کی زبان گویاہو،با لآخروہ زبان گویاہوئی ،حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ آپ ﷺپر وحی کی کیفیت طاری ہوئی، پھر مسکراتے ہوئے سر اٹھایا، پیشانی پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلک رہے تھے اور یہ آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ترجمہ ’’جن لوگوں نے یہ افتر اباندھا ہے ،وہ تم ہی میں سے کچھ لوگ ہیں ،تم اسےبرا نہ سمجھو،بلکہ اس میں تمہاری بہتری تھی(مومنین ومنافقین کی تمیزہوگئی)ہرشخص کوحصے کے مطابق گناہ اور جس کا اس میں بڑا حصہ تھا، اسے بڑا عذاب ہوگا ،جب تم نے یہ سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے بھائی اور بہنوں کی نسبت نیک گمان کیوں نہیں کیااور کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح تہمت ہے اور کیوں نہیں ان افتر اپردازوں نے چار گواہ پیش کئے اور جب گواہ پیش نہیں کئے تو اﷲتعالیٰ کے نزدیک جھوٹے ٹھہرے، اگر اﷲکی عنایت ومہربانی دین ودنیا میں تمہارے شامل حال ہوتی تو جوافواہ تم نے اُڑائی تھی اس پر تم کو سخت عذاب پہنچتا ،جب تم اپنی زبان سے اسے پھیلارہے تھے اور منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تم کو علم نہ تھا اور تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک وہ بڑی بات تھی ،تم نے سننے کے ساتھ یہ کیوں نہ کہا کہ ایسی ناروا بات منہ سے نہیں نکالنی چاہیے ۔اﷲپاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔اﷲتعالیٰ نصیحت کرتاہے اگر تم مومن ہوتو ایسی بات نہ کرو،اﷲاپنے احکام بیان کرتاہے اور وہ دانا اور حکمت والاہے ،جولوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برائی پھیلے ان کے لئے دین ودنیا میں دردناک سزاہے ،اﷲتعالیٰ سب جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے‘‘۔(سورۃ النور )

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ میں ان گنت اوصاف پائے جاتے ہیں،آپ فرمایاکرتی تھیںکہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ یہ کہتی ہوں کہ اﷲتعالیٰ نے مجھ کونوباتیں ایسی عطا کی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کونہیں ملیں،جن میں سے چند باتیں یہ ہیں،آپ میرے بستر میں ہوتے تب بھی وحی آتی تھی،میں آپ ﷺکی محبوب ترین بیوی تھی۔میری شان اور صفائی میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوئیں ،میں نے جبرائیلؑ کواپنی آنکھوں سے دیکھا۔آپ ﷺنے میری گود میںسر رکھتے ہوئے وصال فرمایا۔کثرت روایت میں حضرت عائشہ ؓکا چھٹا نمبر ہے ،حضرت عائشہ صدیقہ ؓکی کل روایتوں کی تعداد دوہزا ردوسودس ہے،اکابرین صحابہ کے مدینہ منورہ میں حضرت عبداﷲبن عمرؓ،حضرت عبداﷲبن عباسؓ،حضرت ابوہریرہ ؓاور حضرت عائشہ صدیقہؓزیادہ تریہی چار بزرگ فقہ وفتاویٰ کی مجلس کے مسند نشین تھے۔

حضرت امیر معاویہ ؓکی خلافت کا آخری حصہ حضرت عائشہ ؓکی زندگی کااخیر زمانہ ہے ۔ رمضان المبارک میں نماز وتر کے بعد شب کے وقت وصال فرمایا اور مدینہ منورہ کے مشہور اورتاریخی قبرستان جنت البقیع میں آرام فرماہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین