• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

PAF-KIET کے صدر جناب تبریز آصف (ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ) سے گفتگو


PAF-KIET کے صدر جناب تبریز آصف (ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ) سے گفتگو

پینل انٹرویو: نجم الحسن عطاء، فاروق احمد انصاری

پاکستان ایئر فورس۔ کراچی انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ ٹیکنالوجی جسے مختصراََ پی اے ایف کییٹ بھی کہتے ہیں،بلاشبہ پاکستان کے ان معتبر اداروں میں سے ایک ہے جہاں تعلیم حاصل کرنا ایک خواب ہےاور اس خواب کو تعبیر سے لبریز کرنے کیلئے یہاں کی انتظامیہ ، فیکلٹی اور ادارے کے روح رواں جناب ایئر وائس مارشل (پی اے ایف ریٹائرڈ )تبریز آصف عمل پیہم اور جہد مسلسل کی تصویربنے ہوئے ہیں۔ جناب تبریزآصف پی اے ایف ایئر وار کالج سے اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری حاصل کرچکے ہیں ۔ ایئر فورس میں 36 سال تک جانفشانی سے فرائض انجام دیے اور فائٹر پائلٹ کے طورپر ایئر فورس کےکئی جہازوں پر فلائنگ کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔تین سال آئی ایس ایس بی کے صدر بھی رہے ہیں۔ سلیکشن اور ٹریننگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔بیس کمانڈر کے طور پر بھی خدمات کی انجام دہی کرچکے ہیں۔ پی اے ایف کییٹ میں چار سال سے صدر اور وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں۔پی اے ایف کییٹ کا آغاز 2000ء میں ہوا اس کے کل تین کیمپس ہیں جہاں پر 5000 سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔

تبریز آصف صاحب سے ہماری ملاقات سیر حاصل اور کئی جہتوں پر مشتمل رہی جس کا کچھ احوال قارئین کی نذر ہے۔

جنگ :آپ کے والد بھی ایئرفورس میں تھے ، جن کے تبادلے اکثر ہوتے رہے ، تو اس سے آپ کی تعلیم کا حرج ہو ایا فائدہ ہوا؟

تبریز آصف : حرج تو نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوا ، پورے ملک میں مجھے اسکولنگ اور لوگوں کا جاننے کاموقع ملا ۔ پشاور، رسالپور، بدین ، کراچی میں پڑھتے ہوئے ہر جگہ کا کلچر دیکھا۔ لوگوں سے میل ملاقات ہوتی ہے، صوبوں کی لینگویج سمجھیں یا نہ سمجھیں لیکن باڈی لینگویج سمجھ میںآنے لگتی ہے۔ دراصل اگر تعلیم کو کُلی سطح پر دیکھیں تو یہ کلاس روم میں دی جانے والی تعلیم سے بڑھ کر ہے۔ کلاس روم ایجوکیشن تو محدود ہوسکتی ہے۔ جو باہر کی دنیا آپ کو تعلیم دیتی ہے ، سکھاتی ہے ، وہ مکمل پیکیج دیتی ہے۔ اسی لیےہم اپنے طلبہ کوسال میں تین بار شمالی علاقہ جات کا دورہ کرواتے ہیں۔ تاکہ طلبہ ملک کو دیکھیں، لوگوں کو جانیںاو ر اس سلسلے میں ہم سارے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔

جنگ : اس ادارےکو چلانے میں نظم و ضبط فوج والا ہی ہے یا دیگر اداروں کی طرح سویلین نظم و ضبط کے تحت اسے چلایا جارہاہے؟

تبریز آصف :جی ہاں ۔ ہم فوج کاہی تجربہ یہاں لے کر آتے ہیں اور اس کا اطلاق کرتے ہیں جس سے ہم گزرے ہوتے ہیں۔ ہم یہاں سے طلباکو ایئر فورس کے جہاز میں بٹھا کر کامرہ فیکٹری بھجواتے ہیں ،جس سے ان کو ایئر فورس کے انوائرنمنٹ کا ایکسپوژر ملتاہے۔ انہیں آگاہی ہوتی ہے کہ ایئرفورس میں کیسے کام ہوتاہے۔ یہاں پر بھی ہم وہی ماحول دیتے ہیںکہ اقدار کا، نظم و ضبط کاخیال رکھیںتاکہ جب وہ سول اداروں میں کام کریں تو اسی نظم و ضبط پر عمل کریں اور کامیابی حاصل کریں۔ ہم یہاں گرومنگ کلاسز بھی کرواتے ہیں۔ رکھ رکھائو کیسا ہو۔ رویہ کیسا اپنانا چاہئے۔ یہ گرومنگ کلاسیں  ہمارے سابق فوجی افسران کرواتے ہیں۔ غرض ایک مکمل پروفیشنل بنا کر ہم اس ادارے سے طلبا کوفارغ کرواتے ہیں۔

جنگ :آپ کے ادارے میں بزنس ، انجینئرنگ ، ایوی ایشن کی تعلیم کے حوالے سے کون سے پروگرام اور کورسز چل رہے ہیں؟

تبریز آصف : ہمارے پاس چار کالجز ہیں ، ایک مینجمنٹ سائنسز ، ایک کمپیوٹرسائنس کالج ہے، ایک انجینئرنگ ہے اور ایک میڈیا اینڈ آرٹس ہے ۔ سب سے پہلے ہم نے مینجمنٹ سائنس کا کالج شروع کیا تھا۔ جس میں ہم بی بی اے اور ایم بی اے دونوں کرواتے ہیں۔ اس میں ہم ایک نیا سبجیکٹ لے آئے ہیں ایوی ایشن مینجمنٹ کا جو صرف ہم کرواتے ہیں۔ کیونکہ ایوی ایشن میں جانے کا لوگوں کا کافی رحجان ہے ۔ نئی نئی ایئر لائنز متعارف کروائی جارہی ہیں۔ ایئر پورٹ بنتے چلے جارہے ہیں۔ ایوی ایشن مینجمنٹ ہم نے تین چار سال پہلے شروع کیا تھا۔ اس وقت اس کورس میں ساڑھے تین ، چارسو طلبہ پڑھ رہے ہیں جو بی بی اے اور ایم بی اے کررہے ہیں۔

ہماےدو بیچ کمپلیٹ ہو چکے ہیں، جن کی تعیناتی شروع ہو چکی ہے۔

جنگ :ایوی ایشن مینجمنٹ کے بارے میں کچھ بتائیں کیونکہ اس میں مسابقت بہت زیادہ ہوتی ہے؟

تبریز آصف :ایوی ایشن انڈسٹری بہت ترقی کررہی ہےصرف یہاں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ ہمارے ملک کی ہی مثال لے لیں، تین چار نجی ایئر لائنز چل رہی ہیں ۔ دو ایئر لائنز اور آنے والی ہیں۔ سول ایوی ایشن انڈسٹری کا اسکوپ بھی بڑھ رہاہے ۔ نئے ایئرپورٹس بن رہے ہیں۔اس کے علاوہ مڈل ایسٹ میں بہت ساری ایئر لائنز ہیں تو ان کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہمارے نوجوانوں کے پاس بے شما رمواقع ہیں۔ ایوی ایشن مینجمنٹ دراصل ایم بی اے کا ہی حصہ ہوتی ہے جس کا مقصد یہی ہے کہ ایک نئی فیلڈ میں مکمل طور پر لیس ہو کر اترا جائے جس میں ہم چارسے آٹھ کورسز کرواتے ہیں۔ اس میں ایوی ایشن سے متعلق مینجمنٹ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس میں ایئرپورٹ مینجمنٹ ، ایئر سیفٹی ،ایئر آپریشنز ، ایئر لاء ، ایوی ایشن لاجسٹک وغیرہ کے بارے میں پڑھایا جاتاہے۔ جس سے طلبہ ایوی ایشن اور ایئرلائنز سے وابستہ جابس سے روشناس ہوتے ہیں اور اگر انہیں ایوی ایشن میں جاب مل جائے تو وہ پریشان نہیں ہوتے کہ کیا کرناہے۔ اس کیلئے ہم طلبا کو ایئرپورٹس کے وزٹ بھی کرواتے ہیں تاکہ جب کوئی اس میں کیریئر بناناچاہے تو وہاں جا کر خود کو اجنبی محسوس نہ کرے۔

جنگ : اوپن اسکائی پالیسی کو ہم نے ترک کردیا ، اس کا کیا اثر پڑا ہے ؟

تبریز آصف:جتنا زیادہ آپ آنے دیں گے ، لازمی بات ہے اس سے معیشت کا فائدہ ہوگا۔انڈسٹری کھلے گی ۔ اس سے ملازمتوں کےمواقع بڑھ جاتے ہیں۔اس کا نقصان بھی ہے اس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو اس کا حل یہی ہے کہ پہلے ہم اپنے آپ کو مضبوط کریں پھر اس قسم کےاقدام کی طرف جائیں۔ اسی لیے ہماری چار پانچ ایئر لائنز میں پہلے ہی سے مسابقت بہت زیادہ ہے۔ پہلے کرائے بہت زیادہ ہوتے تھے اب کم ہوگئے ہیں۔

جنگ: انجینئرنگ کے حوالے سے آپ کن جہتوں میں کاوشیں کر رہے ہیں؟

تبریز آصف :ہم الیکٹریکل انجینئرنگ کروارہے ہیں ، دوسرے میکا ٹرونکس انجینئرنگ اور تیسرے ایوی اونکس انجینئرنگ کی ہم تعلیم دیتے ہیں۔ایوی اونکس کا پہلا بیچ گریجویٹ ہو چکا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ایوی ایشن سے متعلق الیکٹرونکس کی تعلیم ہے، جو جہازوںسے متعلق الیکٹرونکس کی انجینئرنگ کہلاتی ہے۔ ایوی اونکس بھی ہم پہلی بار کروارہے ہیں جو ایئر فورس میں ہوتاہے۔ اور اسلام آباد میں بھی ایک ادارے نے شروع کردیا ہے۔

جنگ :مختلف قسم کی مینجمنٹ سائنسز میں فیس اسٹرکچر کتنا مختلف ہے؟

تبریز آصف : مینجمنٹ سائنسز کی فیس تو نارمل ہے لیکن کمپوٹرسائنس اور انجینئرنگ سے متعلق پروگرام تھوڑے مہنگے ہیںکیونکہ اس میں ایکوپمنٹس اور ایکسپیریمننٹس شامل ہو جاتے ہیں۔ سمپل ایم بی اے تو کلاس روم اور فیکلٹی سے ہو سکتاہے لیکن دیگر کیلئے کمپیوٹرز اور مشینری اورلیبارٹری درکار ہوتی ہیں۔ طلبا کی مدد کیلئے ہم اسکالرشپس اور فیس میں رعایت بھی دیتے ہیں تاکہ ان کی پڑھائی کا حرج نہ ہو۔

جنگ:فیکلٹی کے بارے میں بتائیں ؟

تبریز آصف : اس وقت ہمارے پاس 21 پی ایچ ڈیز ہیں۔ بے شما ر ایم ا یس ہیں ،جن کے بغیر فیکلٹی مکمل نہیں ہوتی ۔ا س وقت ہائر ایجوکیشن نے دس سے پندرہ فیصد نان ایم ایس کی منظوری دی ہے لیکن ایم ایس کے بغیر فیکلٹی مکمل نہیں ہوتی۔

جنگ : ریسرچز کی کتنی اہمیت ہے؟

تبریز آصف : ریسرچز کے بغیر ہم چل نہیں سکتے ۔ ہم سند ھ کی واحد یونیورسٹی ہیں جس کے پاس ignite  کے تین پروجیکٹس ہیں۔ اگنائٹ بنیادی طورپر آئی سی ٹی آر ٹی فنڈ ہے جسے منسٹری آ ف ٹیلی کمیونیکیشن نے جاری کیاہے۔ یہ پرائیویٹ کمپنیوں سے فنڈ لیتے ہیں اور تعلیمی اداروں کو تفویض کرتے ہیں۔ جو پروپوزل پر منحصر ہوتا ہے۔اگر ہمار ا پروپوزل منظور ہوجائے تو پھر وہ فنڈ جاری کردیتے ہیں۔ فنڈ کے اجراء کے بعد ہر چھ ماہ بعد وہ چیک کرتے ہیں کہ ریسرچ کہاں تک پہنچی۔ تین پروجیکٹس میں ہمار ا ایک پروجیکٹ Face Recognicionکا ہے۔ پچھلے دنوں اس کے بارے میں اخبار میںبھی شایع ہوا تھا۔ یہ پروجیکٹ مکمل ہونے والا ہے۔ ایک آئی سی ڈیزائن کا ہےجو 33 ملین کا ہے۔ ریسرچ کے اوور ہیڈز ہم برداشت کرتے ہیں۔

جنگ : طلباکا رحجان کس طرف زیادہ ہے؟

تبریز آصف:طلبا کا رحجان تو ہر شعبے میں ہے جیسے میڈیا سائنسز ہیں ، انجینئرنگ او ر کمپیوٹر سائنس ہے لیکن ہماری ترجیح ہوتی ہےکہ طلبا کو انٹرپرینیو ر بنائیں ۔ یہ اپنا کاروبار شروع کریں دوسروں کی ملازمت کا باعث بنیں۔ لیکن المیہ ہے کہ 90فیصد سے زائد طلبہ کی آنکھوں میں اچھی سی جاب کےخواب ہوتے ہیں۔ ان کا رحجان یہی ہوتا ہے کہ جاب کہاں آسانی سے مل جائے گی۔ گزشتہ چار سال میں، میں نے جو رحجان دیکھا ہے کہ مینجمنٹ سائنسز سے طلباکمپیوٹر سائنس کی طرف چلے گئےکیونکہ وہاں جابس جلدی ملنا شروع ہوگئیں تو سب وہیں شفٹ ہوگئے۔ ساتویں یا آٹھویں سمسٹر میں ان کو جاب آفرز آجاتی ہیں۔پھر جب انجینئرنگ میں بو م آیا تو سب انجینئرز بننے کی طرف چلے گئے ۔ انجینئرنگ میں جابس کم ہوئیں تو سب مینجمنٹ سائنسز میں آگئے۔ تو یہ ایک سائیکل ہے جوجاب مارکیٹ پر انحصار کرتاہے ۔

جنگ :داخلہ کا طریقہ کار کیا ہے، اور طالبات کی شرح کتنی ہے؟

تبریز آصف:ہمارے اداروں میں 40فیصد طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ایف ایس سی میں ہم 50فیصد سے کم مارکس پر داخلہ نہیں دیتے۔ انجینئرنگ کیلئے 60 فیصد سے زائد والوں کو ہم فارم دیتے ہیں۔ پھر ان کا اینٹرینس ٹیسٹ ہوتاہے۔ میٹرک، انٹرا ورہمارے ٹیسٹ کا ملا کر میرٹ سامنے آتاہے کہ داخلہ دینا ہے یا نہیں۔

جنگ: آج کا طالبعلم باعلم ہے یا باخبر؟

تبریز آصف : آپ نے بہت اچھاسوال کیا ۔میڈیا ، خاص طورپر سوشل میڈیا سے ایکسپوژر کی وجہ سے آج کا طالبعلم زیادہ باخبر ہے ۔ دیکھیں ۔ باخبر تو سب ہوسکتے ہیں لیکن باعلم ہونے کیلئے سطحی طور پر نہیں بلکہ گہرائی میں جاکر علم حاصل کرنا پڑتا ہے۔ وقت دینا پڑتاہے۔ کتابوںاور اسکالرز کے پاس وقت صرف کرنا پڑتاہے، تو ضروری نہیں کہ جو باخبر ہو وہ باعلم بھی ہو۔ ایک ہوتی ہے نالج، اور ایک انٹیلیجنس۔ دونوں کا اگر بہترین تناسب سے امتزاج ہوجائے تو بہترین پروڈکٹ نکلتی ہے۔ جیسا کہ افواج میں بھرتی سے پہلے انٹیلیجنس ISSBٹیسٹ ہوتے ہیں۔آپ کا بیسک انٹیلیجنس لیول ایک خاص حد تک ہوگا تو آپ آگے جاسکتے ہیں ورنہ نہیں۔ بہت سے بچے پہلے دن ہی اسکرین آئوٹ ہو جاتے ہیں۔

جنگ : آج کے دور کا طالبعلم زیادہ ذہین ہے یا پچھلے یعنی آپ کے دور کا ؟ کیا فرق ہے دونوں نسلوں کے درمیان؟

تبریز آصف: دونوں نسلیں دو مختلف ماحول میں پلی بڑھی ہیں۔ اب چونکہ ماحول مختلف ہے تو پروڈکٹ بھی مختلف سامنے آئے گی۔ اس نسل کے لیے فائدہ یہی ہے کہ اس کو ہر چیز کی آگہی بہت زیادہ اور بہت جلد ہو جاتی ہے۔ اب یہ اس نسل پر منحصر ہے کہ اس پر جو انفارمیشن کی بمباری ہو رہی ہے اسے اس نے استعمال کس طرح کرنا ہے۔ اگر یہ نسل انفارمیشن کو دانشمندانہ استعمال کرے تو یہ اس کیلئے بہت فائدہ مند ہوسکتی ہے۔ ہماری نسل کے پاس دو جگہ سے انفارمیشن آرہی تھی تو اس نسل کے پاس چھ جگہ سے آرہی ہے ۔اس کا فیصلہ بھی اسی نسل نے کرنا ہے کہ اسے کیسے اور کہاں یوٹیلائز کرنا ہے۔ اس نسل کے پاس ڈاکٹر ، انجینئریا مرچنٹ نیوی کے علاوہ بہت سارے آپشنز ہیں جن میں وہ اپنا مستقبل تلاش کرسکتی ہے۔ اس کا فیصلہ کرنا اس نسل کیلئے بھی مشکل ہے تو پھر بات وہیں دانش یعنی انٹیلجنس پر آجاتی ہے جو اس کی فیصلہ سازی میں مدد کرسکتی ہے۔

جنگ : آج کے طلبہ مسابقت میں کہاں ہیں؟، کیا انٹرنیشنل سطح پر تیار ہورہے ہیں؟

تبریز آصف :ہمارے اسٹوڈنٹس بہت سے مقابلے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے پرائز جیت چکے ہیں ۔ ہم ان کے اسپانسرڈ ٹرپ کرواتے ہیں۔ ابھی ہمارے اسٹوڈنٹس چین جارہے ہیں، جہاں کمپیوٹر پروگرامنگ کے مقابلےمیں دنیا بھر کے طلبا سے مقابلہ کریں گے۔

جنگ : ہم کمپیوٹر سائنس سنتے آرہے ہیں ، آپ نے کمپیوٹر آرٹس کی ڈگری متعارف کروادی ہے، کچھ بتائیں گے اس بارے میں ؟

تبریز آصف : ہمارا میڈیا اینڈ آرٹس کا لج جو سٹی کیمپس میں ہے تقریباََ تین سو اسٹوڈنٹس ہیں۔یہاں کمپیوٹر آرٹس میں ماسٹر کروایا جاتا ہے۔ یہاں دو شعبوں یعنی کمپیوٹر آرٹس اور ٹی وی، فلم پروڈکشن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں اینیمیشن بھی پڑھائی جاتی ہے اور انڈسٹری کےتجربہ کار پیشہ ور افراد ا س کی فیکلٹی میں شامل ہیں۔ یہاں چوتھے اور پانچویں سیمسٹرمیں ہی سب کو جاب مل جاتی ہے۔ ہمارے پاس سب ایکویمپنٹ، ریکارڈنگ روم، سائونڈ لیبس موجود ہیں۔ یہاں ڈگری کے علاوہ چھوٹے ، کم مدت کے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ اس کا کوریکیولم وہی ہےجو مارکیٹ کی ضرورت ہے ۔

جنگ: کوئی پیغام جو آ پ دینا چاہیں؟

تبریز آصف :ہمارے ہاں بہت پوٹینشنل ہے ، ٹیلنٹ ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو امپاور کیا جائے ۔، ہر سطح پر، ہر فیلڈ میں انہیں مواقع دیئے جائیں۔یہ پاکستان کا مستقبل ہیں اور پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے۔ 

تازہ ترین