’سول سروسز‘ کو سرکاری شعبے میں سب سے اعلیٰ ملازمت مانا جاتا ہے۔ یہ وہ ملازمت ہے، جس کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے سال میں ایک بار مقابلے کا امتحان لیا جاتا ہے، جسےسینٹرل سپیریئر سروسز(CSS) کہا جاتا ہے۔ اس امتحان کے لیے عموماً ہر سال اکتوبر میں اخبارات میں اشتہار دیا جاتا ہے، دسمبرتک آن لائن درخواست فارم بھرنا ہوتا ہے، جب کہ امتحان کا انعقاد اس کے اگلے سال فروری میں ہوتا ہے۔ سیاسی حکومتیں آنی جانی ہوتی ہیں لیکن مملکت کے انتظامی تسلسل کو جو لوگ دوام بخشتے ہیں اور مختلف وزارتوں، سرکاری محکموں اور اہم قومی اداروں میں خاموشی کے ساتھ امورِ مملکت انجام دیتے رہتے ہیں، وہ سرکاری ملازمین ہوتے ہیں، جن کی وفاداری اور وابستگی صرف اپنی قوم، ملک اور سلطنت کے ساتھ ہوتی ہے۔ ملکی انتظامیہ کا وہ بنیادی ڈھانچہ جس پر ان حکومتوں کی کارکردگی کا انحصار ہوتا ہے، یہی سرکاری ملازمین ہیں، جو چھوٹے بڑے شہروں، دیہات اور قصبوں، دور افتادہ اور دشوار گزار علاقوں کی مختصر آبادیوں سے دارالحکومت کے مرکزی ایوانوں تک مملکت کے نظم و نسق کی دیکھ بھال کرتے ہیں، تحصیل، ضلع ، ڈویژن اور صوبے کے معاملات کو چلاتے ہیں، امن عامہ قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، ٹیکس دہندگان سے وصولی یابی کرکے قومی خزانے کو فعال رکھتے ہیں، کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں اور قومی خزانے کی نگرانی کرتے ہیں، نشرواشاعت کے اداروں کے ذریعے سرکاری احکامات و ہدایات کو لوگوں تک پہنچاتےہیں، رسل و رسائل کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور بیرون ملک سفارتی فرائض انجام دیتے ہیں۔
پاکستان میں سرکاری ملازمین کی درجہ بندی( بہ لحاظ ذمہ داری و عہدہ) گریڈ 1 سے 22 تک کی گئی ہے۔ گریڈ 1 سے 16تک کے ملازمین ،عام ملازمین کہلاتے ہیں، جن کی تقرری و ترقی کا اعلان سرکاری اعلامیے(گزٹ نوٹیفکیشن) میں نہیں کیا جاتا۔ گریڈ17 سے 22 تک کے ملازمین اعلیٰ افسران ( گزیٹڈآفیسرز) کہلاتے ہیں، جن کی تقرری و ترقی کا اعلان سرکاری اعلامیے میں کیا جاتا ہے۔
عام سرکاری ملازمین (گریڈ 1 سے 16 ) کا تقرر، امیدوار کی عمومی تعلیم اور پیشہ ورانہ اسامی کی صورت میں متعلقہ شعبے کی پیشہ ورانہ اہلیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن اعلیٰ سرکاری ملازمین (گریڈ 17 اور اس کے بعد) کی تقرری کے لیے امیدواروں کو گریجویشن کی سطح کی تعلیمی قابلیت کے ساتھ ’سی ایس ایس‘ کا امتحان بھی پاس کرنا پڑتا ہے۔
اہلیت کا معیار
امتحان میں شرکت کے خواہاں امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کا شہری ہو، مقرہ تاریخ تک عمر 21سال سے کم اور 30سال سے زیادہ نہ ہو۔ مخصوص امیدواروں کو اوپری عمر میں دو سال کی چھوٹ بھی ملتی ہے۔ کسی پاکستانی درس گاہ سے کم سے کم سیکنڈ ڈویژن میں گریجویشن کیا ہو یا کسی غیر ملکی یونی ورسٹی سے مساوی قابلیت کی سند حاصل کی ہو۔تھرڈ ڈویژن میں بیچلرز رکھنے والا امیدوار صرف اس صورت میںیہ امتحان دینے کا اہل ہوسکتا ہے، جب اس نے پوسٹ گریجویٹ کا امتحان کم از کم سیکنڈ کلاس میں پاس کیا ہو۔ تین سے زیادہ مرتبہ اس امتحان میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
درخواست فارم
امتحان میں شرکت کا درخواست فارم صرف ایف پی ایس سی کی ویب سائٹ پر آن لائن دستیاب ہوتا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے امیدوار مقررہ تاریخوں میں آن لائن فارم بھرنے کے بعد چالان کا پرنٹ لے کر مقررہ بینکوں میں چالان فیس کے ساتھ اسے جمع کرواتے ہیں۔ ساتھ میں ایف پی ایس سی کو تعلیمی اسناد کی تصدیق شدہ نقول بھی بھیجی جاتی ہیں۔ ایف پی ایس سی آن لائن فارم اور اسناد کی نقول کا جائزہ لینے کے بعد 31دسمبر تک اہل امیدواروں کو امتحان میں شرکت کی رسید یا گیٹ پاس بھیج دیتا ہے۔
تحریری امتحان
مقابلے کے امتحان کے کل نمبرز1500 ہوتے ہیں، جن میں سے 1200 نمبرز تحریری امتحان کے اور 300 نمبرز ،زبانی امتحان کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔
تحریری امتحان کے 1200 نمبرز میں سے 600 نمبرز لازمی مضامین کے لیے اور 600 اختیاری مضامین کے لیے ہوتے ہیں۔ لازمی مضامین اور ان کےنمبرز درج ذیل کے مطابق ہیں :
لازمی مضامین
-1 انگریزی مضمون نگاری 100، -2 انگریزی (خلاصہ و انشائیہ ) 100، -3 اسلامیات 100، -4 معلومات عامہ، پہلا پرچہ : روز مرہ سائنس100، دوسرا پرچہ : حالاتِ حاضرہ 100، تیسرا پرچہ : امورِ پاکستان 100، کل نشانات 600
اختیاری مضامین
درخواست فارم کے ساتھ اختیاری مضامین کی فہرست دی جاتی ہے۔ اس میں اکاؤنٹینسی اور آڈٹنگ ، سیاسیات ، معاشیات ، زراعت ، اطلاقی سائنس ، فلسفہ ، انگریزی ادب، تاریخ، قانون، صحافت، نظمِ عامہ اور لسانیات وغیرہ کے مضامین شامل ہوتے ہیں۔ فہرست کے ساتھ ہی مضامین کے انتخاب کے بارے میں ہدایات، طریقہ ء کار اور بنیادی اصول بھی دیے جاتے ہیں۔ ان مضامین کو مختلف گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
امیدوار کو فارم میں دیے گئے اصولوں کے مطابق اختیاری مضامین کی اس طویل فہرست میں سے کل 200نمبرز کے پرچوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہ 200نمبرز کے تین مضامین بھی ہوسکتے ہیں اور 200نمبرز کے دو اور 100 نمبرزکے دو مضامین بھی ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح 100 نمبرز والے چار اور 200نمبرزوالا ایک مضمون کو بھی لیا جاسکتا ہے اور 100نمبرز والے چھ مضامین بھی منتخب کیے جاسکتے ہیں۔
اختیاری مضامین کا انتخاب اس بات پر منحصر ہے کہ امیدوار نے یونی ورسٹی سے گریجویشن یا گریجویشن کی سطح پر کون کون سے مضامین پڑھے ہیں۔ وہ امیدوار جنھوں نے اطلاقی یا عملی سائنسی مضامین مثلاً فزکس ، کیمسٹری ، باٹنی، زولوجی وغیرہ میں ایم ایس سی کیا ہو، انہی مضامین کو اختیار کرتے ہیں اور ساتھ میں 100 نمبرزکے کوئی بھی دو پرچے لے کر کل 600 نمبرز برابر کرلیتے ہیں۔ سماجی علوم ، پبلک اور بزنس ایڈمنسٹریشن اور سیاسیات میں ایم اے یا قانون کی ڈگری لینے والے حضرات اپنے متعلقہ مضامین کے علاوہ تاریخ اسلام ، تاریخ پاک و ہند اور امریکن ہسٹری کو ترجیح دیتے ہیں۔
اختیاری مضامین میں ایک گروپ پاکستانی لسانیات کا ہوتا ہے، جس میں قومی زبان اردو اور چاروں علاقائی زبانیں یعنی سندھی ، پشتو ، پنجابی اور بلوچی شامل ہیں۔ ان میں سے اردو کا پرچہ 200 نمبرز کا اور باقی چاروں پرچے ایک ایک سو نمبرز کے ہوتے ہیں ۔ان پانچوں زبانوں میں سے کسی ایک ہی کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ لسانیات کے سلسلے میں ایک گروپ 13غیر ملکی یا بین الاقوامی زبانوں کا ہے، جس میں انگریزی شامل نہیں ہے۔ ان زبانوں میں امتحان دینے کے لیے متعلقہ زبان میں کم از کم آنرز کے معیار کی استعداد کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔
پیشہ ورانہ گروپس کا ترجیح وار انتخاب
درخواست فارم کے تیسرے حصے میں حروف تہجی کے اعتبار سے ان بارہ پیشہ ورانہ گروپس کی تفصیل دی گئی ہوتی ہے جن کے لیے اس امتحان کے ذریعے موزوں امیدواروں کا انتخاب کیا جانا ہوتا ہے۔ امیدواروں کے حتمی انتخاب اور ان کو مخصوص گروپ کی ایلوکیشن میں میرٹ کے علاوہ امیدواروں کی اپنی ترجیح کو بھی مدِنظر رکھا جاتا ہے اور ایک مرتبہ ایلوکیشن کے بعد پھر گروپ تبدیل نہیں کیا جاتا۔ تحریری امتحان میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ان گروپس کی ترجیحی تربیت پر نظرِ ثانی کرنے کے لیے وائیوا یا زبانی امتحان کے وقت ایک موقع دیا جاتا ہے۔