• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک معروف عالم دین کا وعظ سنا، حرف بہ حرف تو یاد نہیں، البتہ مفہوم کچھ اس طرح تھاـ :’’تم کیا سمجھتے ہو قتل کرنا بہت بڑا گناہ، نہیں اس سے بڑا بھی ایک گناہ ہے، تم کیا سمجھتے ہو جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے، نہیں، اس سے بڑا بھی ایک گناہ ہے، تم کیا سمجھتے ہو چوری کرنا بہت بڑا گناہ ہے، نہیں اس سے بھی بڑا ایک گناہ ہے، تم کیا سمجھتے ہو زنا بہت بڑا گناہ ہے، نہیں اس سے بھی بڑا ایک گناہ ہے، تم کیا سمجھتے ہو ڈاکہ ڈالنا بہت بڑا گناہ ہے، نہیں اس سے بھی بڑا ایک گناہ ہے، تم کیا سمجھتے ہو وعدہ خلافی بہت بڑا گناہ ہے، نہیں اس سے بھی بڑا ایک گناہ ہے ۔۔۔۔ اور وہ گناہ ہے نماز چھوڑنا۔۔۔!‘‘ میں نے یہ وعظ اپنے کانوں سے نہ سنا ہوتا تو کبھی یقین نہ کرتا مگر سننا اس لئے پڑا کیونکہ کسی زمانے میں یہ میرے ایک ڈرائیور کے موبائل فون کی رِنگ ٹون ہوا کرتی تھی، جب بھی میں اسے بلانے کے لئے فون کرتا مجھے یہ باتیں سننے کو ملتیں۔
اس ملک میں ہر سال تین ساڑھے تین لاکھ لوگ عمرہ کرتے ہیں، ڈیڑھ دو لاکھ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں، مساجد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جمعے کے روز مسجدوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، اٹھارہ ہزار سے زائد مدرسوں میں تقریباً تیئس لاکھ طلبا زیرتعلیم ہیں جن کی تربیت کے لئے ایک لاکھ سے زائد اساتذہ ہیں (حوالہ، وفاق المدارس العربیہ پاکستان)، حفاظ قرآن کی تعداد کا تعین ممکن نہیں الحمدللہ یہ بھی لاکھوں میں ہیں، قرآن و حدیث میں تحقیق کرنے کے لئے لامحدود وسائل میسر ہیں، ملک میں کوئی فرد، گروہ یا جماعت ایسی نہیں جو اسلام کی ترویج و اشاعت نہ چاہتی ہو، ہر کوئی اسلام کے لئے کٹ مرنے کو تیار ہے، ہر کوئی اسلام کا سچا سپاہی ہے، رمضان کے مہینے میں تو رونقیں مزید دوبالا ہو جاتی ہیں، مسجدیں ہر روز آباد ہوتی ہیں، تراویح پڑھنے کے لئے کاروں کی طویل قطاریں دکھائی دیتی ہیں، روزے داروں کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے کہ دفاتر کے اوقات کم کر دئیے جاتے ہیں، کوئی سر عام کھانے پینے کی جرات نہیں کر سکتا، ٹی وی چینلز پر عالم دین نیکی اور بھلائی کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں، درس قرآن کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، اخبارات میں قسط وار قرآن پاک کی تفسیر شائع کی جاتی ہے، مولوی صاحبان کی مانگ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اُن کی ایڈوانس بکنگ کروانی پڑتی ہے، ذکر کی محافل برپا کی جاتی ہیں، لوگ ایک دوسرے کو موبائل فون پر قرآنی آیات، احادیث اور بزرگان دین کے اقوال بھیج کر اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں، بازار میں دینی کتب کی مانگ سب سے زیادہ ہے، دعاؤں اور وظیفوں کے تمام طریقے عورتوں کو زبانی یاد ہیں، ملک کا کوئی کونا ایسا نہیں جہاں آپ باجماعت نماز ادا کرنا چاہیں اور دو کلومیٹر کے دائرے میں کوئی مسجد نہ ہو۔۔۔۔۔ یہ باتیں اگر ہم نے کسی اور اسلامی ملک کے بارے میں سنی ہوتیں تو ہم رشک کرتے اور سوچتے کہ اگر یہ سب ہمارے ملک میں ہو جائے تو بیٹھے بٹھائے جنت مل جائے۔۔۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بائیس کروڑ لوگوں کے اِس ملک میں، جہاں ہر کوئی دین کا عاشق بنا پھرتا ہے، لوگ ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے، بازار میں خالص شے دستیاب نہیں، وعدہ خلافی کو معمولی بات سمجھا جاتا ہے، جھوٹ بولنا سرے سے کوئی عیب ہی نہیں، لوگ تراویح پڑھنے جاتے ہیں اور مسجد کے باہر اپنی گاڑی ڈھنگ سے پارک نہیں کر سکتے، اپنی صفوں میں جوتیاں سجا کر نماز پڑھتے ہیں، سلام پھیرنے کے بعد دکان میں واپس جاتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھا کر کاروبار کرتے ہیں، یتیم بھانجے کی جائیداد پر قبضہ کرتے ہیں اور اسی سال عمرہ ادا کرنے بھی چلے جاتے ہیں، کروڑوں کا ٹیکس چوری کرتے ہیں اور رمضان میں بیس مزدوروں کو افطاری کروا کے خدا سے کاروبار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نماز پڑھنے کے بہانے دفتروں سے غائب ہو جاتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں مگر قانون کا خیال نہیں رکھتے۔۔۔۔!
یہ درست ہے کہ ہر انسان کچھ نہ کچھ منافق ہوتا ہے، کسی سے بھی مکمل پارسائی یا دیانتداری کی امید نہیں رکھی جا سکتی، مگر ہم نے تو بیہودگی کی حد یں ہی پار کردی ہیں۔ جس دین میں صفائی نصف ایمان ہو، اُس دین کے پیروکار اگر جا بجا گندگی کے ڈھیر لگاتے نظر آئیں تو ضرور کہیں نہ کہیں کوئی بات غلط ہو رہی ہے، جس دین میں نبی اکرم ﷺنے کاروبار کا طریقہ یہ بتایا ہو کہ تول ہمیشہ پورا کرو، جھوٹ نہ بولو اور کوئی شے فروخت کرنے سے پہلے گاہک کو اُس کے عیب بتا دیا کرو (مفہوم)، اُس دین کا پیروکار اگر نماز روزے کے بعد بھی جھوٹ پر ہی کاربند رہے تو پھر مسئلہ کچھ اور ہے۔ یہ مسئلہ آخر ہے کیا، ہم لوگوں کی اخلاقی تربیت کیوں نہیں ہو پارہی؟ کیا وجہ ہے کہ تمام عالم دین، مساجد کے مولوی صاحبان، مدرسوں کے فارغ التحصیل طلبا، نماز روزے کے پابند مسلمانوں اور حج عمرہ ادا کرنے والے لاکھوں فرزندان اسلام میں ہمیں خال خال ہی ایسا شخص ملتا ہے جسے ہم صحیح معنوں میں صالح کہہ سکیں، جو قول کا پکا ہو، ریاکار نہ ہو، جو نماز پڑھنے کے بعد ٹریفک کا اشارہ توڑنے کو بھی گناہ ہی سمجھتا ہو، جسے حج کرنے کے بعد یہ غلط فہمی نہ ہو کہ وہ ویسے ہی معصوم ہو جائے گا جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہوا نومولود اور جو عمرہ کرنے کے بعد یہ نہ سمجھتا ہو کہ اسے ملاوٹ کرنے کا لائسنس بھی مل گیا ہے !
دراصل مسلمانوں کو ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے اور وہ غلط فہمی یہ ہے کہ اُن کے تمام گناہ عبادتوں سے دھُل سکتے ہیں، اُنہیں واعظ نے یہ یقین دلا دیا ہے کہ تم نماز پڑھو، روزہ رکھو، سال میں ایک مرتبہ حج یا عمرہ کرو اور صدقہ و خیرات مجھے دے دیا کرو اِس کے بعد اللہ تمہارے تمام گناہ معاف کر دے گا کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے اور وہ اپنی مخلوق سے ستّر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ مسلمانوں کے دماغ میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ نماز چھوڑنا تو گناہ ہے البتہ ناپ تول میں کمی کرنا ایسا کوئی گناہ نہیں جس کی معافی نہیں ملے گی، روزہ چھوڑنا تو گناہ ہے مگر افطاری کے وقت دھکم پیل کرنا، اندھا دھند گاڑی چلانا، ملکی قوانین کو پیروں تلے روندنا کوئی ایسا گناہ نہیں جس کی بخشش نہ ہوسکے اور صاحب استطاعت ہو کر حج نہ کرنا تو گنا ہ ہے البتہ حاجی صاحب کے لئے کنڈا ڈال کر بجلی چوری کرنا یا اپنی مل کے مزدوروں کو وقت پر پوری تنخواہ نہ دینا ایسا کوئی گناہ نہیں جسے حج جیسی عبادت دھو نہیں سکتی۔ بدقسمتی سے ہمارے واعظ اس رویے کے ذمہ دار ہیں، اگر اُن سے پوچھیں کہ حضرت یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص نماز تو پڑھتا ہو مگر لوگوں کا حق بھی مارے اور بخشا جائے تو اِس براہ راست سوال کا جواب وہ یہی دیں گے کہ نہیں وہ بخشا نہیں جائے گا مگر اپنے درس میں جب ہزاروں کا مجمع سنتا ہے، اُن کا اسٹائل کچھ اور ہوتا ہے، اُس وقت اُن کا تمام تر زور عبادات پر ہوتا ہے اور وہ ایسی تمام روایات بتاتے ہیں جن کی رو سے رمضان کے تیس روزے ہر مسلمان کی بخشش کا سامان ہیں، اُس وقت زور دے کر یہ نہیں بتاتے کہ یہ بخشش صرف اُن گناہوں کی ہوگی جو عبادات میں کوتاہی کی وجہ سے ہوئے نہ کہ اُن گناہوں کی جو اللہ کی مخلوق کے ساتھ کئے گئے۔ مسلمانوں کی یہ غلط فہمی جتنی جلد دور ہو جائے اچھا ہے اور یہ دور کرنے کی ذمہ داری ہمارے علما کی ہے۔

تازہ ترین