• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں 1872ء کا قانون شہادت، بدلنے کیلئے مقننہ پر انحصا ر نہیں کر ینگے ،چیف جسٹس

پاکستان میں 1872ء کا قانون شہادت، بدلنے کیلئے مقننہ پر انحصا ر نہیں کر ینگے ،چیف جسٹس

لاہور(نمائندہ جنگ، اے پی پی) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارنے کہاہے کہ دنیا میں سمارٹ کورٹس کا نظام چل رہا ہےجبکہ پاکستان میں1872ء کا قانون شہادت ہے جس کو بدلنے کیلئے مقننہ پر انحصا ر نہیں کر ینگے ، پہلے سے موجود قوانین میں رہتے ہوئے اس کو ٹھیک کرینگے ، ماتحت عدلیہ کو ٹھیک نہ کر پانے پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز لاہور گریژن یونیورسٹی میں منعقدہ وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات سے متعلق قومی ورکشاپ سے خطاب میں کیا۔ خبرنگار کے مطابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کوئی بھی معاشرہ علم حاصل کیے بغیر اقوام عالم کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، دنیا ٹیکنالوحی میں بہت آگے جاچکی ہے ہمارے ہاں اب بھی کمپیوٹر کا استعمال ٹائپ رائٹرکے متبادل کے طور ہوتا ہے ، اگر ہمیں مقدمات کا بوجھ ختم کرنا ہے تو اس کے لیے سمارٹ کورٹ متعارف کروانی ہونگی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سول جج کو روز انہ 6گھنٹے میں 108 مقدمات کی سمات کرنی ہوتی جس کے لیے اس کے پاس فی مقدمہ 3منٹ ہوتے ہیں ہمیں اپنی شخصیت میں دیانت داری پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، مقدمات کی تحقیقات کیلئے موجود تحقیقاتی افسر معیاری نہیں ہیں اس کیلئے ماہرین کی ضرورت ہے،ماتحت عدلیہ کو کہوں گا وہ اپنے آپ کو جدید ٹیکنالوجی اور تکنیکوں سے آشنا کریں، مجھے سیکھنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی ۔ اے پی پی کیمطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم ایمانداری کے ساتھ اپنے قومی مقصد حاصل کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ایمانداری کے بغیر کوئی معاشرہ اور ملک ترقی نہیں کر سکتا،یہ بہت بڑی خوبی ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس کا فقدان ہے، اس وقت نظام عدل میں ڈسٹرکٹ اور سول جج انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں،ہمیں کم از کم الفاظ استعمال کر کے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے،ہم نظام عدل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے وقت بچا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کہ وائٹ کالر کرائم سے متعلق قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے، ججز کو کچھ سیکھنے کےلئے جہاں بھی جانا پڑے وہ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم تمام جرائم کی جڑ ہے،اس سے نمٹنے کےلئے متعدد قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ یاور علی نے کہا ہے کہ ملک میں ابھی ایسے وائٹ کالر کرائم موجود ہیں جن کو کنڑول کرنا مشکل ہے ،قوانین میں سقم کی وجہ سےمجرم جرائم کرنے کے باوجود سزا سے بچ جاتےہیں، اس تاثر کو ختم کرنے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرزکو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، تحقیقاتی افسر کو جج کی طرح قوانین کامکمل پتہ ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ ماضی میں وائٹ کالر کا وجود نہیں تھا موجودہ دور میں منی لانڈرنگ، ان سائیڈ ٹریڈنگ جیسےجرائم میں اضافہ ہوا ہے اور یہ ملکی معیشت پر منفی اثرات ڈال رہے ہیں یہ کرائم ملک میں اداروں سے اوجھل نہیں ہیں نیب ان کو کنڑولر کرنے میں سرگر م ہے، ججز صرف قانون کی تشریح کرکے ان پر عملدرآمد کرواتے ہیں ۔ فورتھ کور کے ایکٹنگ کور کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل محمد عامرنے کہا کہ ہمیں کرپشن اور کرائم کو اپنی روایات کا حصہ نہیں بننے دینا چاہیے،پچھلی نسل سے جو معاشرہ ہمیں ملا وہ ٹھیک نہیں مگر ہمیں اگلی نسل کو کرپشن اور جرائم سے پاک معاشرہ دینا ہے ۔ سابق گورنر پنجاب جنرل ریٹائر خالد مقبول نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم کوکنڑول کرنے میں نیب کو مہارت حاصل ہے ، انہوں نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ گیریژن یونیورسٹی کی فرانزک لیب کو ادارے کی حیثیت دی جائے اور جرائم کےحوالے سے اس کی تحقیقات کو کورٹ میں ثبوت کے طو پر قبول کیا جائے ،تقریب سے صدر سپریم کورٹ بار کلیم احمد خورشید اور سپریم کورٹ وکیل ظفر اقبال نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پر سابق جسٹس ر یٹائر ناصرہ جاوید ،امریکن قونصلیٹ الزبتھ کینڈی سمیت قانون نافذ کرنےوالے اداروں کے حکام اور محققین بھی موجودتھے۔

تازہ ترین