چھپن کمپنیزکیس میں شہباز شریف سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے،چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے 56 کمپنیوں میں مبینہ کرپشن سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں شہباز شریف کو سپریم کورٹ میں طلب کیا تھا۔
دوران سماعت شہباز شریف نے موقف اختیار کیا کہ اس نوعیت کی کمپنیاں پہلے بھی بنائی جاچکی ہیں،پہلی بار نہیں بنائی گئیں ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان کمپنیوں میں لاکھوں روپے کی تنخواہیں کس قانون کے تحت دی جارہی ہیں ، آپ نے عوام سے کون سا وعدہ پورا کیا ہے ؟
شہباز شریف کا جواب میں کہناتھا کہ ہم نے مجموعی طور پر 160 ارب روپے کی بچت کی ، ایک دھیلہ بھی کم ہو تو جو چاہے سزا دے دیں ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں احتساب کے لیے نہیں بیٹھا، احتساب کےلئے ادارہ موجود ہے وہ اپنا کام کرے گا۔
چیف جسٹس نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ مجاہد شیر دل کو اتنی تنخواہ کیوں دی جارہی ہے، ان میں کیا خوبی ہے کہ انہیں 10 لاکھ روپے تنخواہ دی گئی۔ یہ لوگ آپ سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں جس پر شہباز شریف نے درخواست کی کہ مجھے بات کرنے کا موقع دیا جائے، آپ جو بھی رولنگ دیں گے قبول ہوگی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ قبول نہ بھی کریں تو آپ کو بات کرنی ہوگی، ملک میں قانون کی عمل داری چلے گی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گزشتہ کئی برس سے آپ کا ہی دور رہا ہے، کیپٹن (ر) عثمان کو صاف پانی کمپنی میں 14 لاکھ روپے تنخواہ کس قانون کے تحت دی گئی جس پر شہباز شریف نے کہا کہ آپ مجھے کل بلالیں میں تفصیل لے کر آؤں گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ جو بھی فیصلہ کریں گے مجھے قبول ہے، آپ ملک کی عدالت کے سب سے بڑے جج ہیں، میرے خلاف کرپشن کا ایک دھیلہ بھی نکل آئے تو سزا کے لیے تیار ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی ذات کو کیوں بار بار لے آتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں نے آپ کو مخصوص سوال کے جواب کے لیے بلایا ہے، کمپنیوں میں 25،25 لاکھ پر ان لوگوں کو کیوں رکھا گیا۔
چیف جسٹس نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے جواب سے غیرمطمئن ہوں، یہ پیسہ واپس آنا چاہیے، آپ کریں یا جن لوگوں نے یہ پیسہ لیا ہے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان اور شہباز شریف کے گرما گرمی بھی ہوئی۔
شہباز شریف نے جذبات میں آکر کہا کہ مجھے کسی کتے نے کاٹا تھا جو میں بچت کرتا رہا ہوں تاہم انہوں نے اپنے الفاظ پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ 'معافی چاہتا ہوں سخت الفاظ واپس لیتا ہوں۔
واضح رہے کہ 56کمپنیوں سے متعلق کیس کی از خود سماعت آج صبح چھٹی کے روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہوئی ۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے شہبازشریف کو فوری طلب کیا اور ایڈوکیٹ جنرل کو ہدایت کی تھی کہ شہباز شریف کو کہیں عدالت آئیں اور بتائیں کمپنیاں بنانے کی کیا ضرروت پیش آئی؟ اور کیسے ملازمین کو اتنی بھاری تنخواہیں دیں؟