رپورٹ:طلعت عمران
میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
آئین کی رو سے انتخابات کا انعقاد اور ان کی شفافیت اول تا آخر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمے داری ہے، لیکن ہمارے ہاں حکومت اور اس کی انتظامی مشینری کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی انتہائی افسوس ناک روایت قیامِ پاکستان کے بعد سے چلی آئی ہے،گوکہ گزشتہ انتخابات کے موقع پر مرکز اور صوبوں کی عبوری حکومتوں پر کچھ زیادہ اعتراضات نہیں کیے گئے،
لیکن انتخابات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف نے پنجاب کی نگراں حکومت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عاید کیے تھے اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین، آصف علی زرداری نے انہیں’’ آر او زدہ‘‘ قرار دے کر ان کے صاف اور شفاف نہ ہونے کا الزام عاید کیا تھا، ہمارا الیکشن کمیشن جتنا مضبوط اور با اختیار ہو گا اور جس خوش اسلوبی سے انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنائے گا، اسی سے اس کا اعتبار قائم ہو گا اور ساتھ ہی نگراں حکومتوں کو انتخابات کے موضوع کے حوالے سے زیرِ بحث لائے جانے کا سلسلہ بھی ختم ہو گا، نگراں حکومت کو اصولاً اسی حوالے سے زیرِ بحث آنا چاہیے کہ یہ منتخب حکومت اور قومی اسمبلی کی عدم موجودگی میں کس خوش اسلوبی کے ساتھ مملکت کے امور چلاتی ہے اور اسی معیار پر صوبوں کی نگراں حکومتوں کو بھی دیکھا جانا چاہیے،جسٹس (ر) ناصر الملک کا بہ طورِ نگراں وزیرِاعظم تقرر خوش آیند ہے، انہیں کشمکش کی ذہنی فضا سے نکل کر کام کرنا ہوگا
ڈاکٹر سید جعفر احمد
اگرچہ نگراں حکومت کی شق آٹھویں آئینی ترمیم میں جنرل ضیاء الحق نے شامل کروائی تھی، لیکن انہوں نے 29مئی 1988ء کو اس وقت کے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت ختم ہونے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگراں وزیرِ اعظم کا تقرر اور وفاقی کابینہ کی تشکیل نہیں کی تھی،1993ء میں پہلی مرتبہ غیر جانب دار نگراں وزیرِ اعظم، معین قریشی کو امریکا سے ’’درآمد‘‘ کیا گیا،نگراں وزیرِ اعظم محمد میاں سومروکی نگرانی میں2008ء میں ہونے والے انتخابات کو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر جانب دارانہ انتخابات قرار دیا گیا،
90سالہ میر ہزار خان کھوسو کی نگراں حکومت میں 2013ء میں ہونے والے انتخابات کو 22سیاسی جماعتوں نے دھاندلی زدہ قر اردیا،جسٹس (ر) ناصرالملک اعلیٰ پائے کی قابلِ احترام شخصیت ہیں، نگراں وزیرِ اعظم پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاقِ رائے کیا ہے، جو ایک خوش آیند اَمر ہے اور ایسے فیصلوں سے جمہوری نظام کو تقویت ملے گی،دنیا کے کسی اور ملک میں نگراں حکومت کا تصور نہیں ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نگراں وزیرِ اعظم کی نگرانی میں اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں
کنور محمد دلشاد
31مئی کو حکومت کی 5سالہ مدت سالہ مکمل ہو گئی اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس (ر) ناصر الملک نے ملک کے ساتویں نگراں وزیرِ اعظم کے طور پر حلف اٹھا لیا۔ اب ملک آیندہ عام انتخابات کی تیاری کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جو 25جولائی کو منعقد ہوں گے۔ بدقسمتی سے بیورو کریسی کے قابلِ بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے دنیا کے دیگر جمہوری ممالک کے برعکس پاکستان میں انتخابات کے شفاف انعقاد اور ملکی امور چلانے کے لیے غیر منتخب حکام پر مشتمل نگراں حکومت کا تقرر کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت کی ترویج کے لیے خدمات انجام دینے والی غیر منافع بخش تنظیم، ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان دنیا کا واحد جمہوری ملک ہے، جہاں انتخابات کی تیاری کے لیے نگراں حکومت کا تقرر کیا جاتا ہے اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت نگراں حکومت امور ِمملکت چلانے کے لیے ضروری افعال انجام دے گی اور قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کرے گی۔ نگراں حکومت خود کو عوامی مفاد میں روزمرہ معاملات کے لیے ایسے ضروری، فوری اور غیر متنازع اقدامات تک محدود رکھے گی، جو الیکشن کے بعد آنے والی نئی حکومت کے لیے قابلِ منسوخ ہوں۔ نیز، نگراں حکومت کسی بھی فرد یا سیاسی جماعت کے لیے جانب دارانہ رویہ نہیں اپنائے گی۔ اسی طرح نگراں حکومت فوری معاملات کے علاوہ اہم پالیسی فیصلے نہیں کرے گی۔ ایسی پالیسی نہیں بنائے گی یا کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی کہ جو نئی حکومت کے اختیار کے استعمال کو متاثر کرے۔
نگراں حکومت کوئی اہم معاہدہ نہیں کرے گی، نہ ہی کسی دوسرے ملک یا غیر ملکی ادارے سے اہم معاملے پر مذاکرات کرے گی اور نہ ہی کسی استثنائی معاملے کے علاوہ کسی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط یا اس کی توثیق کرے گی۔ اسی طرح نگراں حکومت سرکاری ملازمین کی ترقی یا اہم تقرریاں نہیں کرے گی۔ البتہ مفادِ عامہ میں عبوری یا مختصر المدت تقرریاں کر سکتی ہے۔ نگراں حکومت انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے یا کسی ایسے اقدام کی کوشش نہیں کرے گی کہ جس سے آزادانہ اور شفاف انتخابات کے عمل پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ تاہم، مختلف ادوار میں نگراں حکومت کی جانب سے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے اور 6جون 2013ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد نگراں حکومت کی جانب سے کی گئی تمام تقرریوں اور تبادلوں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ عدالتِ عظمیٰ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما، خواجہ محمد آصف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سنایا تھا۔ اپنے فیصلے میں 1973ء کے آئین کے آرٹیکلز2(A) اور (5)48کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ کا کہنا تھا کہ صرف منتخب نمایندے ہی ریاستی معاملات کو چلا سکتے ہیں۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے نگراں حکومت کے لیے رہنما اصولوں کی غیر موجودگی کی بھی نشاندہی کی، لیکن اس کے باوجود نگراں حکومت کی حدود کا تعین کرنے کے حوالے سے کسی قسم کی قانون سازی نہیں کی گئی، جبکہ دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک میں دو حکومتوں کے درمیان برسرِ اقتدار رہنے والے حکام الیکشن کمیشن کی جانب سے بنائے گئے قواعد و ضوابط پر عمل کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ’’نگراں حکومت کی ذمہ داریاں اورتوقعات‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں سابقہ نگراں حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے، نگراں حکومت کے انتخاب کے طریقۂ کار، نگراں وزیرِ اعظم کی شخصیت، انتخابات کے انعقاد میں نگراں حکومت کے آئینی کردار اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نگراں حکومت کے درمیان تعلق کو جاننے کی کوشش کی گئی۔ فورم میں ماہرِ سیاسی امور اور جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر، ڈاکٹر سید جعفر احمد اور سابق وفاقی سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیئرمین نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن، کنور محمد دلشاد نے اظہارِ خیال کیا۔ اس موقع پر ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد
سابق ڈائریکٹر، پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی
بلاشبہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اس وقت ہم دوسری نگراں حکومت کے قیام کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ نگراں حکومت کے قیام کے وقت سب سے اہم سوال یہی پیشِ نظر ہوتا ہے کہ کیا یہ معینہ مدت میں انتخابات منعقد کروا سکے گی؟ یہ سوال بھی ذہنوں میں موجود ہوتا ہے کہ مرکز اور صوبوں کی حکومتیں کیا صاف و شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے انعقاد میں کامیاب ہو سکیں گی؟ اصولاً دیکھا جائے تو ان دونوں سوالوں کو غیر متعلق (Irrelevant) ہونا چاہیے۔ ہمارے آئین کی رو سے انتخابات کا انعقاد اور ان کی شفافیت اول تا آخر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے، لیکن ہمارے ہاں حکومت اور اس کی انتظامی مشینری کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی انتہائی افسوس ناک روایت قیامِ پاکستان کے بعد سے چلی آئی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ اب ہم نگراں حکومتوں کو بھی اسی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا یہ انتخابات کے وقت غیر جانب دار رہ سکیں گی؟ گزشتہ انتخابات کے موقع پر گو کہ مرکز اور صوبوں کی عبوری حکومتوں پر کچھ زیادہ اعتراضات نہیں کیے گئے تھے، لیکن انتخابات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف نے پنجاب کی نگراں حکومت اور اس کے وزیرِ اعلیٰ، نجم سیٹھی پر الیکشن میں دھاندلی کروانے کے الزامات عاید کیے تھے۔ انہی الزامات کے حوالے سے انہوں نے دھرنا بھی دیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری نے بھی ان انتخابات کو ریٹرننگ افسروں کے انتخابات قرار دے کر ان کے صاف اور شفاف نہ ہونے کا الزام عاید کیا تھا۔ میرے خیال میں ہمارا الیکشن کمیشن جتنا مضبوط اور با اختیار ہو گا اور جس خوش اسلوبی سے انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنائے گا، اسی سے اس کا اعتبار قائم ہو گا اور ساتھ ہی نگراں حکومتوں کو انتخابات کے موضوع کے حوالے سے زیرِ بحث لائے جانے کا سلسلہ بھی ختم ہو گا۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگلے دو ماہ میں ملک میں صرف انتخابات ہی نہیں ہونے بلکہ ریاست کے جملہ امور اور مختلف وزارتوں اور شعبوں کا کام بھی جاری و ساری رہنا ہے۔ نگران حکومت کو اصولاً اسی حوالے سے زیرِ بحث آنا چاہیے کہ یہ منتخب حکومت اور قومی اسمبلی کی عدم موجودگی میں کس خوش اسلوبی کے ساتھ مملکت کے امور چلاتی ہے۔ اسی معیار پر صوبوں کی نگراں حکومتوں کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔ جہاں تک انتخابات اور اس کے متعلقہ امور کا تعلق ہے، تو یہ الیکشن کمیشن کے موضوعات ہیں اور ان کو الیکشن کمیشن ہی کا موضوع رہنا چاہیے۔ نگراں حکومت کے تقرر کا طریقہ کار ہمارے ماضی کے تجربات اور انتخابات میں انتطامیہ کی مداخلت کی ایک انتہائی افسوس ناک تاریخ کے پس منظر ہی میں طے کیا گیا تھا۔ بہ ظاہر یہ طریقہ کار سیاسی عمل پر سیاسی جماعتوں کی خود مختار دسترس اور پارلیمنٹ کو بالادست باور کرانے کا ذریعہ تھا، لیکن اس طریقہ کار کے اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کی سیاسی پختگی کی جتنی ضرورت ہے، اس کا اتنا مظاہرہ نہیں ہو سکا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آخر وقت تک باہمی مشاورت کے عمل کو طول دیتے رہتے ہیں، جبکہ ان کے درمیان سلسلۂ جنبانی بہت پہلے شروع ہو جانا چاہیے اور عبوری وزیرِاعظم اور وزرائے اعلیٰ پر اتفاق بھی جلد ہو جانا چاہیے، لیکن بالفرض ایسا نہیں ہو پاتا، تو پارلیمانی کمیٹیز سے یہ فیصلہ کروانا یقینی بنوا لینا چاہیے، تاکہ نگراں حکومتوں کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے سپرد نہ کرنا پڑے۔ الیکشن کمیشن اگر نگراں حکومتیں مقرر کرتا ہے، تو گو کہ اس کی گنجائش بھی آئین ہی نے فراہم کی ہے، لیکن دیکھا جائے تو یہ الیکشن کمیشن کے اوپر ایک اضافی ذ مہ داری کا بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اگر الیکشن کمیشن سے یہ کام کروایا جاتا ہے، تو اس کا لازماً مطلب یہ ہو گا کہ سیاسی جماعتیں اہم سیاسی امور پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ پارلیمانی جمہوریتوں کے لیے مثالی بات تو یہ ہے کہ ان میں نگراں حکومتوں کی گنجائش اور ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ انتخابات سے قبل کا وزیرِ اعظم اسمبلی کی تحلیل کے بعد بھی نگراں وزیرِ اعظم کے طور پر خدمات انجام دیتا ہے۔ انتخابات کا عمل اتنا شفاف، انتخابی قوانین اتنے سخت اور الیکشن کمیشن قوانین پر عمل درآمد کروانے کی اتنی اچھی اہلیت رکھتا ہے کہ نگراں وزیرِ اعظم اور اس کی انتظامیہ انتخابی عمل پر منفی طور پر اثر انداز نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اپنی منصبی ذمہ داریوں سے کوئی انتخابی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ برطانیہ اور بھارت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہاں کوئی نگراں حکومت قائم نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے ہاں بھی سیاسی اور جمہوری عمل جاری رہے، سیاسی جماعتوں میں پختگی آ جائے، رائے دہندگان اور عام شہریوں میں اپنے ووٹ کی وقعت اور حرمت کا احساس پختہ ہو جائے اور الیکشن کمیشن بھی ایک مضبوط اور توانا ادارہ بن کر ابھرے، تو ایک وقت آئے گا کہ جب نگراں حکومتوں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ نگراں وزیرِ اعظم، جسٹس (ر) ناصر الملک کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں جس تاثر کا اظہار ہوا ہے اور جس طرح سیاسی جماعتوں نے ان کے انتخاب پر صاد کیا ہے، وہ خوش آئند ہے، لیکن جو منصب ان کو عطا ہوا ہے، وہ غیر معمولی ذمے داری کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ ان کی کامیابی اس میں مضمر ہو گی کہ وہ دستور کے الفاظ اور اس کی روح سے کسی طور تجاوز نہ کریں۔ ان پر مختلف حلقوں کی طرف سے دبائو آ سکتے ہیں اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے انتخابات کو مؤخر کرنے کے اشارے کیے جا سکتے ہیں۔ نگراں وزیرِ اعظم کو یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گی کہ چونکہ ان کا تعلق اعلیٰ عدلیہ سے رہا ہے اور بدقسمتی سے اور بوجوہ پچھلے دو تین سال سے ملک میں اداروں کے درمیان تصادم کی ایک فضا پائی جاتی رہی ہے، یہ تأثر بھی موجود رہا ہے کہ عدلیہ، عدالتی فعالیت کو بروئے کار لاتے ہوئے انتظامیہ پر سخت گرفت کرتی رہی ہے، جس کو انتظامیہ نے اور بعض اوقات پارلیمنٹ نے بھی اپنے دائرۂ کار میں مداخلت تصور کیا ہے۔ نگراں وزیرِ اعظم کو خود کو کشمکش کی اس ذہنی فضا سے نکال کر رکھنا ہو گا۔ ان کا نیا کارِ منصبی ان سے یک سر نئی ذمے داریوں کی تکمیل کا مطالبہ کرتا ہے، جو ماضی میں ان کی پیشہ ورانہ مصروفیات سے قدرے مختلف ذمہ داریاں ہیں۔ کیا یہ بہت با معنی حقیقت نہیں کہ مستقبل میں تاریخ ان کو ان کے تیس چالیس سال کے قانون کے شعبے سے وابستہ کیریئر سے زیادہ دو ماہ کی نگراں حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے جانچے گی۔
کنور محمد دلشاد
سابق وفاقی سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان/ چیئرمین نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن
اگرچہ نگراں حکومت کی شق آٹھویں آئینی ترمیم میں جنرل ضیاء الحق نے شامل کروائی تھی، لیکن انہوں نے 29مئی 1988ء کو اس وقت کے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت ختم ہونے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگراں وزیرِ اعظم کا تقرر اور وفاقی کابینہ کی تشکیل نہیں کی تھی۔ تب صوبۂ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی صدر، میاں نواز شریف کو نگراں وزیرِ اعلیٰ مقرر کیا گیا تھا۔ اسی طرح صوبۂ سندھ میں غوث علی شاہ کو نگراں وزیرِ اعلیٰ مقرر کیا گیا، جو پاکستان مسلم لیگ، سندھ کے صوبائی صدر تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے نگراں حکومت کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ نگراں حکومت غیر جانب دار افراد پر مشتمل ہونی چاہیے اور جنرل ضیاء الحق نے نگراں سیٹ اپ کے ساتھ مذاق کیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حادثے میں موت کے بعد غلام اسحٰق خان قائم مقام صدر بنے اور انہوں نے بھی نگراں وزیرِ اعظم کا تقرر نہیں کیا، جب کہ صوبوں میں جنرل ضیاء الحق کے حمایت یافتہ افراد ہی نگراں حکومت کے نام پر حکومت کرتے رہے۔ بادی النّظر میں دیکھا جائے، تو اکتوبر 1988ء کے انتخابات آ ٹھویں آئینی ترمیم سے انحراف کرتے ہوئے منعقد کروائے گئے تھے۔ اس پس منظر میں 6اگست 1990ء کو جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بر طرف کر کے اسمبلیوں کو تحلیل کیا گیا، تو اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر، غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگراں وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما، جام صادق کو نگراں وزیرِ اعلیٰ سندھ مقرر کیا گیا۔ 1990ء کی نگراں حکومت نے آئی ایس آئی سے رقوم بھی وصول کیں اور نگراں حکومت کے تصور کو مجروح کرتے ہوئے جانب دارانہ انتخابات کا انعقاد بھی کروایا، جس کا مقصد میاں نواز شریف کو وزیرِ اعظم منتخب کروانا تھا۔ 18جولائی1993ء کو اس وقت کے وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کی حکومت کو بر طرف کرتے ہوئے اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیا اور پہلی مرتبہ غیر جانب دار نگراں وزیرِ اعظم، معین قریشی کو امریکا سے ’’درآمد‘‘ کیا گیا، جنہوں نے اپنی نگرانی میں انتخابات کروائے اور بے نظیر بھٹو اکتوبر 1993ء میں وزیر اعظم منتخب ہو گئیں۔ 6نومبر 1996ء کو اس وقت کے صدر، فاروق احمد خان لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر کے اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا اور پاکستان پیپلز پارٹی ہی کے رہنما، معراج خالد کو نگراں وزیرِ اعظم مقرر کر دیا، جو بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں اسپیکر تھے۔ ملک معراج خالد نے غیر جانب دارانہ طور پر کابینہ تشکیل دی اور انتخابات ان کی نگرانی میں کروائے گئے۔ ان کی کابینہ میں جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، نجم سیٹھی، ارشاد احمد حقانی اور شاہد حامد سمیت دیگر تجربہ کار افراد شامل تھے اور ان انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف ملک کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ اسی طرح 2008ء میں انتخابات سے قبل میاں محمد سومرو کو، جو چیئرمین سینیٹ بھی رہے، نگراں وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ ٹیکنو کریٹس پر مشتمل وفاقی کابینہ بنائی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی اور سید یوسف رضا گیلانی وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ مذکورہ نگراں حکومت کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر جانب دارانہ انتخابات قرار دیا گیا۔ ان انتخابات پر کسی بھی سیاسی جماعت نے تنقید نہیں کی اور بین الاقوامی مبصرین اور یورپی یونین کی ٹیم نے بھی انہیں سراہا۔ اسی طرح 15مارچ 2013ء کو نگراں سیٹ اپ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد معرضِ وجود میں آیا، جس میں 90سالہ میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا۔ ان کی کابینہ سوائے چند وزرا کے، جو بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے، اوسط درجے کے افراد پر مشتمل تھی۔ اس نگراں حکومت کی نگرانی میں 11مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات کو متنازع قرار دیا گیا اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین، عمران خان نے احتجاجی تحریک شروع کی، جس کے نتیجے میں الیکشن میں منظّم دھاندلی کی حقیقت جاننے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس، ناصر الملک کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا اور محترم چیف جسٹس نے حقائق کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد منظّم دھاندلی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے انہیں بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں قرار دیتے ہوئے 42نکات پر مشتمل چارج شیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیجی، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ نگراں حکومت شفاف انتخابات منعقد کروانے میں ناکام رہی۔ تاہم، عمران خان اور ملک کی 22دیگر سیاسی جماعتوں اور سابق صدر، آصف علی زرداری نے گزشتہ انتخابات کو’’ آر او زدہ‘‘ الیکشن قرار دیا اور وہ اب بھی اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں۔ موجودہ نگراں حکومت نگراں وزیرِ اعظم اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) ناصر الملک کی سربراہی میں تشکیل پائی ہے۔ نگراں وزیرِ اعظم پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاقِ رائے کیا ہے، جو ایک خوش آیند اَمر ہے اور پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں جمہوریت کمزور ہے، ایسے فیصلوں سے جمہوری نظام کو تقویت ملے گی۔ نگراں حکومت کی تقرری سے 25جولائی 2018ء کو عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات دور ہو گئے ہیں۔ سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) ناصر الملک ایک غیر متنازع اور اعلیٰ کردار کی حامل شخصیت ہیں اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ نگراں حکومت کے دور میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا عمل پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ جسٹس (ر) ناصر الملک پاکستان کے ساتویں نگراں وزیرِ اعظم ہیں اور قوم نے انہیں شفاف انتخابات کے انعقاد کی ایک اہم ذمہ داری بطور امانت پیش کی ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی بڑی جمہورتیوں میں نگراں حکومت کا تصور نہیں اور ایک منتخب حکومت ہی دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کرتی ہے، جبکہ پاکستان میں انتخابات کے لیے نگراں سیٹ اپ تشکیل دیا جاتا ہے، تو اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام اور بیورو کریسی کی بنیاد مفاد پرستی پر مبنی ہے، لہٰذا کوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے بعد یا معزولی کی صورت میں نئے انتخابات کروانے کی اہل نہیں ہوتی۔ 7مارچ 1977ء کو اس وقت وزیرِ اعظم، ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت نے جو انتخابات کروائے، ان کے نتیجے میں ملک بھر میں ایک خونی احتجاجی تحریک شروع ہو گئی اور 5جولائی1977ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ بعد ازاں، ذوالفقار علی بھٹو الیکشن میں دھاندلی کے مرتکب قرار پائے اور اقتدار سے بھی گئے اور جان سے بھی۔ پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے نگراں حکومت کا تصور سامنے آیا، جبکہ دنیا کے کسی اور ملک میں نگراں حکومت کا تصور نہیں ہے۔ البتہ دسمبر 2008ء میں بنگلا دیش میں نگراں حکومت نے انتخابات کروائے تھے، لیکن بنگلا دیشی وزیر اعظم، حسینہ واجد نے نگراں حکومت کے تصور کو ختم کر دیا۔ اب جہاں تک نگراں وزیرِ اعظم، جسٹس (ر) ناصر الملک کی شخصیت اور ساکھ کی بات ہے، تو ملک بھر کی سیاسی جماعتوں نے ان کی بطور نگراں وزیرِ اعظم تقرری کا خیر مقدم کیا ہے۔ میں انہیں ذاتی طور پر 2000ء سے جانتا ہوں کہ جب وہ پشاور ہائی کورٹ کے جج تھے اور انہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا رکن بنانے پر غوروخوص کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے یہ اشارہ دیا کہ وہ الیکشن کمیشن کا رکن بننے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ بہر کیف، جسٹس (ر) ناصر الملک ایک اعلیٰ پائے کی نہایت قابلِ احترام شخصیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری قوم کی نظریں نگراں وزیرِ اعظم پر لگی ہوئی ہیں۔ نگراں وزیرِ اعظم کے طور پر سابق چیف جسٹس کی تقرری کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے پوری بیورو کریسی کو کرپٹ کر دیا ہے اور قوم کو بیورو کریسی پر اعتماد نہیں رہا۔ تاہم، قومی احتساب بیورو کے چیئرمین، جسٹس (ر) جاوید اقبال کی کارکردگی قابلِ مثال ہے اور اگر انہوں نے بیوروکریسی کو لگام دی، تو مستقبل میں اس بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔
شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اگر نگراں حکومت کے آئینی کردار کا جائزہ لیا جائے، تو یہ آئین کے آرٹیکل 218کے تحت شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخابات کروانے کی پابند بھی ہے اور مجاز بھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نگراں وزیر اعظم کی نگرانی میں اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں، لیکن اگر ان مثبت تبدیلیوں کے با و جود الیکشن 2018ء متنازع قرار پائے، تو پاکستان خاکم بہ دہن پاکستان کی وحدت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور سی پیک جیسا تاریخی منصوبہ احتجاج کی نذر ہو جائے گا اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے گا۔